دیکھا ہندوستان ۔سردھنا کیا سے کیا ہو گیا

میرا اگلا پڑاؤ سردھنا تھا۔ مگر اس سارے قصّے میں گنگا اور جمنا کے بیچ آباد یہ علاقہ کیوں کر آگیا۔ ہوا یہ کہ جن دنوں مجھے دلّی آنے کا دعوت نامہ ملا، اُن ہی دنوں میں سردھنا کے بارے میں کتاب لکھ رہا تھا اور عین اس کے درمیان تھا۔ تاریخی کتابوں سے جو کچھ ہاتھ لگا وہ میں نے لکھ ڈالا، مگر مجھے حالات نے ایک رعایت اور دی۔ کوئی پندرہ برس ہوئے مجھے خود وہاں جانے کا موقع ملا۔ ایک خلقت وہاں بیگم سمرو کا شاندار چرچ دیکھنے جاتی ہے، مگر میں نے بیگم صاحبہ کی اور ان کے امراء کی حویلیوں کے تباہ حال کھنڈر دیکھے۔

اب خلش یہ تھی کہ پندرہ برس پہلے جو محرابیں، ستون، جھروکے اور طاق خاک میں مل رہے تھے، اب دیکھا جائے کہ وہ کس بلا کے خرابے میں مبتلا ہوں گے۔ دو ڈھائی گھنٹے کا راستہ تھا، مجھے خیال ہوا کہ قدرت ایسے موقع پر مجھے دلّی تک لے آئی ہے، ایک جست اَور سہی۔ اپنا جھولا کاندھے پر ڈالا اور سوئے سردھنا چل پڑا۔ پندرہ برس پہلے وہاں گیا تھا تو مظہر امام شاہ صاحب سے مراسم بڑھا آیا تھا۔ اب جو دوسری بار چلا تو وہ جھٹ میزبانی اور رہ نمائی کے لئے تیار ہوگئے۔ ابھی صبح کی دھوپ پھیکی ہی تھی میں سردھنا پہنچ گیا۔ میری نگاہ بے چین نہیں، مضطرب تھی ان ڈھہے جانے والے کھنڈروں کو دیکھنے کے لئے۔

مجھے بیگم سمرو کے بعد علاقے پر حکمرانی کرنے والے جاں فشاں خاں کا مقبرہ بھی دیکھنا تھا اور وہ پرانا قبرستان دیکھنا تھا جس میں بیگم کے قرابت دار اور ان کا وفا شعار شوہر لا وسو Le Vassoultبھی دفن تھا۔ مجھے مہا دیو مندر دیکھنا تھا جو مہابھارت کی خوں ریز لڑائی کے زمانے میں بھی موجود تھا اور جہاں کورو اور پانڈو نے محاذ پر جانے سے پہلے آخری عبادتیں کی تھیں۔ میری اتنی لمبی فہرست دیکھ کر مظہر امام شاہ نے اپنی موٹر سائیکل نکالی، مجھے پیچھے بٹھایا اور میں اپنے گرنے کے ممکنہ منظر سے نگاہیں چراتا ہوا ان کے ساتھ ہولیا۔

جب میں پہلی بار سردھنا آیا تھا تو ایک بڑی حوصلہ مند اور جرات مند خاتون ملی تھیں جو اپنی کھیتی باڑی کا سارا نظام چلا رہی تھیں اور جن کا ایک ہاتھ چارہ کاٹنے کی مشین میں آکر کٹ گیا تھا۔ میں نے پوچھا، کیا وہ خاتون زندہ ہیں؟ شاہ صاحب نے دل ہی دل میں میری یادداشت کو داد دی ہوگی۔ وہ مسکرائے اور بولے ’جی وہ سلامت ہیں اور وہ میری ساس بھی ہیں‘۔ اس کے ساتھ ہی موٹر سائیکل کا رُخ بدل گیا۔ وہ ناصرہ سلطان تھیں۔ ہم انہیں دیکھنے پہنچے تو وہ خوشی سے نہال ہوگئیں اور نوّے سال کی عمر میں بھی تن کر بیٹھ گئیں۔ سر پر دوپٹہ لپیٹا ہوا اور بدن پر جالی دار کرتہ۔ ان کی وضع داری دیکھنے کے قابل تھی۔ پندرہ سال پہلے میرا آنا خوب یاد تھا۔ آہستہ آہستہ باتیں کرتی رہیں۔

اب باری تھی ان کھنڈروں کی جن کی میں بہت سی تصویریں اتار کر لے گیا تھا، میں ان اینٹوں کی ڈھیریاں دیکھنے کے لئے بے چین تھا جن میں بیگم سمرو کے عہد کی شان و شوکت اور اس دور کا جاہ و جلال دبا پڑا تھا۔ میری یہ بات سن کر مظہر امام شاہ صاحب بولے ’حیران ہونے کے لئے تیار ہو جائیے‘۔ پھر جو منظر کھلا، ادھڑے ہوئے، ریزہ ریزہ کھنڈروں کے اسی علاقے میں دیکھا کہ نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ملبے کی ڈھیریوں میں جہاں اس روز جاڑے کی دھوپ میں بیٹھی عورتیں ایک دوسرے کے سروں سے جوئیں چن رہی تھیں، آج اسکول لگا ہوا تھا اور جدید شاندار لیکن وہی اسلامی طرز کی عمارت میں بیٹھے بچے انہماک سے پڑھ رہے تھے۔ یہ کون تھا جس نے اندھیرے میں علم کے دیے جلا کر شکست خوردہ، سر نیوڑھائے ویرانوں میں روشنی بھردی۔ شاہ صاحب بولے: ان سے ملئے۔ آغا محمد علی شاہ۔

میں شاہ صاحب کی موٹر سائیکل سے اتر رہا تھا کہ ایک نوجوان مجھے سہارا دینے کے لئے آگے بڑھا اور مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا ’میں ہوں محمد شاہ‘۔ چالیس سالہ محمد علی شاہ، جنہیں لوگ پیار سے علی کہتے ہیں، اسی شہر، اسی بستی اور اسی زمین کے باشندے ہیں لیکن ایک بڑی امریکی کمپنی کے ساتھ کام کرتے کرتے سردھنا سے چلے گئے تھے۔ پھر سنہ دوہزار پانچ میں واپس اپنی سرزمین پر آئے۔ بتانے لگے، اُس وقت یہ کھنڈر ویسے ہی تھے جیسے آپ دیکھ کر گئے تھے۔ میرے والد سیدالدین آغا خالد شاہ علاقے کی سرکردہ شخصیت تھے اور ہم انہیں سوشل انجینئر کہتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میری تمنّا ہے کہ اس جگہ بچوں کو ایسی تعلیم دی جائے کہ نسلیں سدھر جائیں۔

میں نے بھی ان کی خواہش پوری کرنے کی ٹھان لی اور حویلی کو ٹھیک کرنا شروع کردیا۔ مجھے ڈیڑھ پونے دو سال لگے، ہمیں آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس کی سرپرستی حاصل ہوگئی اور سرسید ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی سرزمین کے ایک اور فرزند، لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، فوج کے اعلیٰ منصب سے فارغ ہوکر تعلیم کے میدان میں اُتر آئے، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے اور یہ ان ہی کی تحریک تھی کہ وسائل کو فضول خرچی میں اڑانے کے بجائے یہ ساری رقم تعلیم پر لگائی جائے۔

اس پر سرسید فاؤنڈیشن سر گرم ہوئی اور وہ تحریک شروع ہوئی جسے اب علی گڑھ تحریک ثانی کہا جانے لگا ہے۔ اسی دوران مظفر نگر کے فرقہ وارانہ فسادات سے جان بچا کر جو لوگ جوالا میں اکٹھے ہوگئے تھے، سب سے پہلے ان کے لئے اسکول کھلا، دوسرا اسکول سردھنا میں آپ دیکھ رہے ہیں، تیسرا سہارن پور میں قائم ہوا اور چوتھا باغپت میں کھل چکا ہے۔ اس تحریک کے تحت پچاس اسکول قائم ہوں گے اور تین یونی ورسٹیاں بھی کھلیں گی۔میں سردھنا میں قائم اسکول کے بچوں میں گھل مل گیا۔ میں حیران ہوا کہ وہ اردو بھی پڑھ رہے تھے اور باقی تعلیم انگریزی میں ہورہی تھی۔ یہ رو داد ختم ہوئی تو میں چونکا۔ میں نے خواب پورے ہوتے بارہا دیکھے ہیں لیکن ایسے نہیں دیکھے۔ میں نے اُس روز اپنے آس پاس سر سید احمد خاں کی سانسیں سُنیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے