شام پر حملہ:ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان

واشنگٹن: امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلکن ارکان نے شام پر حملے کے بعد ترکی پر پابندیاں لگانے کا بل پیش کرنے کا اعلان کردیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق شام پر ترک حملے کے بعد کانگریس رکن لز چنے نے اپنے بیان میں کہا کہ ترکی کو شام میں ہمارے کرد اتحادیوں پر بے رحمانہ حملے کے انتہائی سنجیدہ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ترکی یہ چاہتا ہے کہ اس سے اتحادیوں کی طرح سلوک کیا جائے تو وہ اسی طرح سے برتاؤ بھی کرے۔

لزچنے نے مطالبہ کیا کہ شام میں ہمارے کرد اتحادیوں پر حملے پر ترکی پر پابندیاں لگائی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کو اردگان حکومت کے امریکا کے مخالفین کے ساتھ تعاون پر تحفظات ہوا کرتے تھے۔

ایوان نمائندگان کے ایک اور رکن جوڈی آرنگٹن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ اگر ترکی شام میں اپنی حدود کو پار کرتا ہے تو وہ اس کی معیشت کو مکمل طور پر برباد کردیں گے اور یہ قانون سازی امریکا کو اس وعدے پر بہتر عملدرآمد میں مدد دے گی۔

گزشتہ روز ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم ڈیموکریٹک سینیٹر کرس وین کے ساتھ پابندیوں کا ایک بل سامنے لائے تھے جو ترکی کے خلاف کئی پابندیوں کے لیے تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایوان نمائندگان میں 29 ری پبلکن ارکان کے گروپ نے قانون سازی کا اعلان کیا جس سے ترکی پر پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔

امریکی کانگریس رکن کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ٹرمپ اس مسئلے میں ثالثی کے لیے پر امید ہیں۔

ترکی نے امریکا کی جانب سے افواج نکالنے کے بعد شام میں کرد باغیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں شام میں ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر کے فیصلے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہےکہ امریکا کی شام سے روانگی نے ترکی کو سرحد پر حملے کے لیے گرین سگنل دیا۔

سیرین ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) کی کرد ملیشیا سرحدی علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے جب کہ ترکی کی کاکہنا ہےکہ یہ ایک دہشتگرد گروپ ہے جو ترک مخالف کارروائیوں میں معاونت کرتا ہے۔

خیال رہے کہ کرد ملیشیا آزاد ملک کے قیام کیلئے سرگرم ہے، عراق میں کردستان کے نام سے ایک خودمختار علاقہ کردوں کو دیا گیا ہے تاہم وہ شام اور ترکی کے کچھ علاقوں کو بھی کردستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ترکی کرد ملیشیا کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

2014 میں امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔

امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کردش ملیشیا اور جنگجوؤں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔

20 دسمبر 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں داعش کو شکست دینے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے