ماحولیاتی آلودگی:ہماری آئندہ نسلوں کے لئے خطرہ

گذشتہ چند سالوں میں موحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بننے والا پلاسٹک ہماری آئندہ نسلوں کے لئے مسائل کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 55ارب پلاسٹک کے غیر ضروری استعمال سے گلی محلے سڑکوں بازاروں اور کوچوں میں گندگی کا ڈھیر لگ گیا ہے ۔پلاسٹک کے استعمال سے پیدا ہونے والے نقصانات سے تا حال ہمارا معاشرہ بے خبر ہے۔زہریلے کیمیات کا پلاسٹک سے اخراج کینسر ، پیدائشی اور جلدی مسائل کا سبب بن رہاہے ۔ پلاسٹک کے بے انتہا مسائل میں سب سے اہم درپیش مسئلہ انسانوں میں بیماریوں کا پھیلاؤ ہے۔پلاسٹک بیگ کے استعمال سے شہرو دیہات کے ندی نالوں میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔جس کے باعث سیورج کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔

پلاسٹک کا مجمع دنیا کے مشہور جزیروں میں جمع ہونا شروع ہو گیا ہے چاہے جزیرہ ہینڈرسن ہو یا بحرِ اوقیانوس، دنیا کے ہر سمندر میں پلاسٹک آلودگی پھیلا رہا ہے ۔جس کے باعث انسان تو ایک طرف جانور بھی محفوظ نہیں رہے ۔ پلاسٹک کا ذخیرہ دنیا کے90 فیصد پرندوں،50 فیصد سے زائد سمندری کچھووں اور تقریباً 70 فیصدوَیل مچھلیوں میں پایا جاتا ہے ۔ جس رفتار کے ساتھ پلاسٹک دنیا کے سمندروں میں اکٹھا ہو رہا ہے یہ خیال کیا جاتاہے کہ سال 2050 ءتک یہ دنیا کے سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ تعداد میں پایا جانے لگے گا۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پلاسٹک کے سمندر میں ذخیرے سے 700 سمندری جانداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ مچھلیوں اور سمندری جانوروں کے عملِ انہضام کی نالی میں جمع ہو کر انہیں موت کے منہ میں ڈال رہاہے ۔یہ جانور نہ چاہتے ہوئے بھی پلاسٹک کو اپنی خوراک کے طور پراستعمال کر کے زہریلے کیمیات کو نگل لیتے ہیں ،جس کے باعث وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔

پلاسٹک بیگ اپنے آسان استعمال کی بدولت لوگوں میں خاصہ مشہور رہا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات عوام پر مرتب ہونے لگے ۔حال ہی میں مختلف تحقیقات سے یہ بات منظرِ عام پر آئی کہ پلاسٹک کا استعمال زرعی اور معاشی لحاظ سے بھی خا صہ خطرناک ہے۔2013ءمیں ملائشین یونیورسٹی کے پروفیسر کی تحقیق کے مطابق زرعی فصلوں کو تباہ کرنے میں پلاسٹک بیگ کا ایک اہم کردار ہے۔غیر بوسیدہ پلاسٹک بیگ زرعی پیداوار کو نقصان پہنچاتا ہے ،پلاسٹک بیگ کی ایک باریک تہہ درختوں کی پیدا وار میں رکاوٹ بنتی ہے۔پلاسٹک بیگ کا ایک چھوٹا سا مجمع بھی زمین کی زرخیزی میں کمی پیدا کر سکتا ہے۔نتیجتاً پلاسٹک بیگ ہماری غذائی قلت میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جس پلاسٹک بیگ میں آپ بازار سے اشیائے خوردو نوش خرید کر لاتے ہیں وہی بیگ دنیا میں غذائی قلت میں اضافہ کرتا ہے۔

2014 میں یمن کے شہر صنعاپر مبنی تحقیق نے یہ بات ثابت کی کہ ایک پلاسٹک بیگ کے اندر شامل ہزاروں کی تعداد میں بیکٹیریا ہماری فضا کو آلودہ کرنے میں خاصہ اہم کردارا دا کرتا ہے۔یمن کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسرز جو اس تحقیق میں شامل تھے، اس بات پر اتفاق کرنے لگے کہ پلاسٹک بیگ کی جگہ کپڑے کا بیگ استعمال کیا جائے جو ماحول کو آلودگی سے پاک کرتا ہے۔
2016 میں یونیورسٹی آف جارڈن کے پروفیسرز نے پلاسٹک کے ماحول اور دیگر شعبہ جات پر اثرات پر ایک تحقیق کی۔تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ہر سال اُردن میں تین ارب پلاسٹک بیگ کے استعمال سے سیاحت اور معیشت کے شعبے متاثر ہو رہے ہیں ۔نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے، اس لئے مناسب ہو گاکہ ایک پالیسی ترتیب دی جائے اور پلاسٹک کے استعمال کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔

گزشتہ سالوں کی تحقیقات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پلاسٹک کا استعمال عوام کے لئے نفع بخش نہیں ۔مختلف تحقیقاتی اداروں اور تحقیق دانوں نے دنیا کے سربراہان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ پلاسٹک کا استعمال دنیا کی تباہی کی طرف ایک قدم ہے۔لیکن سربراہان کی جانب سے مثبت اقدامات نہ اٹھانے کے باعث مختلف ممالک میں جلوس اور ریلیاں نکالی جانے لگ گئی ہیں ۔اس ضمن میں سویڈن کی رہائشی سولہ سالہ ”گریٹا تھن برگ“ کا نام سر فہرست ہے جو ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھانے کی طرف سربراہان کی توجہ دلانے کے لئے اپنے گھر سے نکل پڑی ہیں اور مختلف ممالک میں ریلیاں منعقد کرتی ہیں۔البتہ چند ممالک اور شہروں میں پلاسٹک پر پابندی عائد ہونا شروع ہو چکی ہے ۔ امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں پلاسٹک اسٹراز پر پابندی لگائی جا چکی ہے ۔ کینیا،مالی، کیمرون ،تنزانیہ ،یوگنڈا،ماروکو،الاوی ،افریقہ کے وہ چند علاقے ہیں جہاں پلاسٹک کا استعمال ممنوع کر دیا گیا ہے۔کینڈا کے شہر مونٹری آل میں بھی پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ 2002 میں بنگلہ دیش وہ پہلا ملک تھا جس نے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کی ۔ اس سال بھارت نے بھی پلاسٹک پر پابندی کے لئے پالیسی ترتیب دی۔ رواں سال میں ہی پاکستان نے بھی دارلحکومت اسلام آباد میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ممنوع قرار دیا۔

پلاسٹک کے استعمال پر پابندی سے پاکستان کے ان پڑھ طبقے میں الجھن پیدا ہو چکی ہے ۔ ایک طرف پاکستانی عوام پلاسٹک سے ہونے والے نقصانات سے بھی غافل ہیں ،دوسری طرف اس کے متبادل راستوں کو اپنانے سے بھی قاصر ہیں ۔ماحولیاتی آلودگی کو روکنے، غذائی قلت سے بچنے،معیشت،سیاحت،اور زراعت جیسے شعبوں کی بہتری کے لئے پلاسٹک کے متبادل راستے اپنانے ہوں گے۔
انفرادی سطح پرمناسب اقدامات کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے ۔پلاسٹک بیگ کی جگہ کپڑے یا کاغذ کے بنے ہوئے بیگ استعمال کئے جا سکتے ہیں جو فضا کو صاف بھی رکھتے ہیں اور قابلِ استعمال بھی رہتے ہیں ۔ یہ بیگ زہریلے کیمیات سے پاک اور دیر پا ہوتے ہیں ۔پلاسٹک اسٹراز کی بجائے سٹیل اسٹراز کا استعمال ماحولیاتی آلودگی میں روک تھام کا باعث بن سکتا ہے۔ سٹیل اسٹراز پلاسٹک اسٹراز کی نسبت زیادہ مفید ہیں۔یہ ایک سے زیادہ دفعہ استعمال کیے جا سکتے ہیں اور بر طرف کرنے کے قابل(Biodegradable) ہیں۔پلاسٹک بوتلیں اپنے اندر موجود کیمیات اور بیکٹیریا کے باعث زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ان کی جگہ سٹیل سے بنی ہوئی بوتلیں استعمال کرنے سے ماحولیاتی تبدیلی میں کمی لائی جا سکتی ہی ۔نیز اشیاءکی ری سا ئیکلنگ کرنا انتہائی ضروری ہے ۔بطور شہری ،یہ ہمارافرض ہے کہ ہم اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی پوری کوشش کریں ۔انفرادی سطح پر انتظامات کے ساتھ ساتھ ضلعی اور صوبائی سطح پر ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لئے اقدامت کرنا لازمی ہیں۔ اگر دارلحکومت اسلام آباد کی طرح باقی تمام شہروں میں بھی پلاسٹک بیگ پر پابندی لگا دی جائے تو ہم آئندہ چند سالوں میں رونما ہونے والی بڑی موحولیاتی تباہی سے بچ سکتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے