میں ایک فقیر ہوں!

صبح گھر سے نکلیں تو چاروں طرف فقیر ہی فقیر نظر آتے ہیں، کوئی اپنا آدھا بازو دکھا کر بھیک مانگتا ہے، کوئی کسی کم سن بچی کے کاندھے پر ہاتھ رکھے کالی عینک لگائے آپ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے، کوئی گڑگڑاتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے، کوئی زمین پر گھسٹتا ہوا آتا ہے اور بھیک کا طالب ہوتا ہے،

کئی عورتیں بڑی بوڑھیوں والا برقع پہنے اپنے جوان بازو آپ کے سامنے پھیلا دیتی ہیں، کئی بچے ایک میلا سا کپڑا آپ کی کار کی اسکرین کے ساتھ لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بھیگ مانگتے ہیں۔

کچھ نے ہاتھ میں ایکسرے پکڑا ہوتا ہے اور دوا کے لئے پیسے طلب کررہے ہوتے ہیں، کسی ’’مسافر‘‘ کی جیب کٹی ہوتی ہے اور وہ اپنے گاؤں تک کا کرایہ مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی آپ سے موٹر سائیکل یا کار پر لفٹ مانگتا ہے اور دوران سفر اپنی ’’درد بھری داستان‘‘ سنا کر خیرات کا طالب ہوتا ہے،

کوئی بچہ اپنا خوانچہ سڑک پر الٹا دیتا ہے جس میں بیس پچیس روپے کے بسکٹ وغیرہ ہوتے ہیں اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر رونا شروع کردیتا ہے اور یوں لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے ان سے مدد لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

کوئی کاندھوں پر کدال رکھے آپ کے پاس آتا ہے کہ گاؤں سے مزدوری کے لئے آیا تھا لیکن مزدوری نہیں ملی، کوئی پورے کنبے کو ساتھ لئے پھرتا ہے کہ یہ صبح سے بھوکے ہیں، ان کیلئے ایک وقت کی روٹی کے پیسے دے دیں۔

یہ بھیک مانگنے والے آپ کو صرف گلیوں اور بازاروں ہی میں نظر نہیں آتے یہ لوگ زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود ہیں اور اپنے اپنے انداز میں بھیک مانگتے ہیں۔

یہ فقیر آپ کو سرکاری دفتروں میں بھی مل جائیں گے، یہ آپ سے فائل کا پہیہ چلانے کیلئے نوٹ مانگتے ہیں، یہ فقیر دانشوروں میں بھی موجود ہیں اور غیرملکی دانشوروں سے دانش کی بھیک مانگتے ہیں۔

کچھ افراد اخبارات کے دفاتر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اپنی بھیک ’’لفافے‘‘ کی صورت میں وصول کرتے ہیں، بھکاریوں کی کثیر تعداد مشائخ میں بھی موجود ہے،

انہیں خفیہ فنڈ سے بھیک ملتی ہے، اس کیلئے انہیں صرف سڑک پر حکومت کی حمایت میں ایک بینر کو پکڑ کر کھڑا ہونا پڑتا ہے، علماء کی ایک تعداد دوست اور دشمن ممالک سے بھیک وصول کرتی ہے، محکمہ خارجہ اور اکنامک ڈویژن کے پالیسی ساز بھی امریکہ کے بھکاری ہیں۔

انہیں بہت سائنسی طریقے سے بھیک دی جاتی ہے اور یہ اتنے ہی سائنسی طریقے سے پاکستان کے بجائے امریکہ کے مفادکا خیال رکھتے ہیں۔

وزیر، مشیر اور مقتدر طبقے کے ارکان بھی بھکاریوں میں شامل ہیں۔ یہ بڑے بڑے سودوں میں اپنی بھیک بطور کمیشن وصول کرتے ہیں یہ تو وہ طبقہ ہے جوگنے کی ایک پور کے لئے کماد کا پورا کھیت اجاڑ دیتا ہے، ان کے بچے امریکہ میں امریکہ کے خرچ پرپڑھتے ہیں، ان کی بیویاں امریکہ میں امریکہ کے خرچ پر شاپنگ کرتی ہیں اور یہ خود امریکہ کا شکریہ پاکستان پر خرچ کرکے ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ محب وطن بھی کہلاتے ہیں۔

بھیک مانگنے والوں میں کئی سیاستدان بھی شامل ہیں، یہ وزارتوں ،ٹھیکوں اور قرضوں کی بھیک مانگتے ہیں، کوئی سیاسی بحران پیدا ہو تو اپنا ضمیر بھی فروخت کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ شاید اس لئے ایک صاحب زر نے کہا تھا کہ موجودہ اسمبلی کی قیمت دو ارب روپے سے زیادہ نہیں،

بہرحال ان اسمبلیوں میں سب نہیں کچھ فقیر ایسے ہیں جو حکومتیں بنانے اور گرانے کے لئے دستِ طلب اور زبانِ طمع دراز کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے ساتھیوں کو بھی بدنام کرتے ہیں۔

بھیک مانگنے والوںمیں صاحبانِ اقتدار اور صاحبانِ حزبِ اختلاف بھی ہیں، یہ الیکشن کے دنوں میں ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں جب اس بھیک کے نتیجے میں انہیں حکومت ملتی ہے تو یہ بائیس کروڑ عوام کو بھکاری بنا دیتے ہیں، انہیں گھی اور آٹے جیسی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لئے قطاروں میں کھڑا کردیتے ہیں،

انکے ہاتھوں میں نوکریوں کی درخواستیں تھما دیتے ہیں اور ان کی زبانوں میں ہکلاہٹ پیدا کرتے ہیں، اتنی خوبصورت قوم کو بدصورت بنانے والے جب قیامت کے روز اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو ان کا اقتدار ان کی پیشانیوں پر داغ دیا جائیگا۔ قوم کو بھکاری بنانے والے یہ لوگ قوم کو ’’قومی‘‘ ہی نہیں ’’بین الاقوامی‘‘ بھکاری بھی بناتے ہیں۔

یہ کشکول ہاتھ میں پکڑ کر ملکوں ملکوں پھرتے ہیں، قوم کے نام پر بھیک مانگتے ہیں، اسے قوم پر خرچ بھی نہیں کرتے اور قوم کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا غلام بنا دیتے ہیں،

جب کوئی اللہ کا بندہ یہ کشکول توڑنے کا عزم کرتا ہے تو امریکہ کی بھیک پر پلنے والے ’’مقتدر‘‘ طبقے اپنے آقاؤں سے ملکر اسکے خلاف سازش کرتے ہیں۔ بھکاری سیاستدانوں، بھکاری مولویوں، بھکاری صحافیوں اور بھکاری دانشوروں کا تعاون حاصل کرتے ہیں اور اسے اٹھا کر اقتدار سے باہر پھینک دیتے ہیں تاکہ ملک کا نقشہ آقاؤں کے دئیے ہوئے نقشے سے تبدیل کردیا جائے۔

سو مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ جو ہمیں چاروں طرف فقیر ہی فقیر نظر آتے ہیں، یہ فقیر ہیں کہ میر جعفر اور میر صادق؟ اگر یہ میر جعفر اور میر صادق ہیں تو پھر یہ ہم لوگوں میں حب الوطنی کی سندیں کس حیثیت سے بانٹتے ہیں اور ہم ان سے یہ سندیں کس حساب میں وصول کرتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے