بونگیوں اور بڑھکوں کے مارے لوگ

میں بخوبی سمجھتا ہوں کہ پری انڈسٹریل زمانے کیسے تھے، انڈسٹریل سوسائٹی کیسی ہوتی ہے؟ پوسٹ انڈسٹریل معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟ اور مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ڈیجیٹل عہد انسانوں اور انسانی رشتوں کے ساتھ کیا کررہا ہے اور کیا کرنے جارہا ہے اور یہ بھی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس’’ہونی‘‘ کو ٹال نہیں سکتی کہ یہی انسان اور انسانیت کے محیرالعقول سفر کا خلاصہ ہے۔

دنیا کا سکڑتے سکڑتے’’گلوبل ویلیج‘‘ بن جانا تو چھوڑیں، وہ وقت بھی دور نہیں جب ہر انسانی معاشرہ بنیادی طور پر ’’تھرو ا وے‘‘”Throw away”قسم کے معاشروں میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔ ’’روٹی‘‘ سے لے کر ’’رشتوں‘‘ تک ہر شے کی نوعیت بدل جائے گی۔

پروفیشنز ہی نہیں پیشنز تک کی دنیائوں میں انقلاب نہیں انقلابات پائپ لائن میں ہیں۔ایک زمانہ تھا جب ایک صدی جوہراً ہزاروں سال پر محیط ہوتی تھی پھر بتدریج یہ دورانیہ تبدیل ہونا شروع ہوا اور ایک صدی، ایک صدی کے برابر آگئی اور اب انسان اک ایسے عہد میں داخل ہوچکا ہے جہاں ایک صدی کا سفر شاید سکڑ کے دس سال سے بھی کم کا رہ گیا ہے اور مستقبل قریب میں صدی کا سفر سال کا بھی نہ رہ جائے گا۔

گزشتہ صرف ایک 100سال میں انسان کے سفر کی رفتار ہی نہیں سمت بلکہ سمتیں ہی تبدیل ہوچکی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کو کوئی جتنا بھی ’’نان سیریس‘‘ سمجھے لیکن ہے وہ ایک سپر پاور کا صدر اور سپر پاور بھی ایسی جسے فی الحال دور تک کوئی چیلنج نہیں۔ چین وہاں پہنچا بھی، اگر پہنچا تو اسے بڑا وقت لگے گا۔ اسی ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے قبل جو کہا، اس کا یہاں تو کسی نے نوٹس نہیں لیا جبکہ میں نے اسے خوب’’انجوائے‘‘ کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ٹویٹ کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ’’خلاء میں جو برتری ہمیں حاصل ہے اس پر کسی قسم کا کوئی کومپرومائز نہیں کیا جائے گا۔‘‘

یہ محض اک ٹویٹ نہیں، مستقبل کا روڈ میپ ہےجس کے معنی کھوجنے بیٹھیں تو چودہ نہیں چودہ ہزا ر طبق روشن ہوجائیں لیکن میں اس کی تفصیل میں نہیں جائوں گا کہ فی الحال میرا موضوع ہی کچھ اور ہے۔کیا وہ زمانے، وہ’’غیر ترقی یافتہ‘‘ زمانے بہتر نہیں تھے جب دادا، باپ، پوتے اور کبھی کبھی پڑپوتے پڑپوتیاں ایک ہی گھر میں رہتے تھے اور کئی کئی نسلیں قبروں میں بھی اک دوجے کے آس پاس ہوتی تھیں۔

ایک ایک گھر سے کئی کئی نسلوں کی خوشبو آتی تھی جبکہ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ والدین بچوں کو جنم ہی اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں ترقی یافتہ دنیا کے حوالے کردیا جائے، واٹس ایپ زندہ باد!میرے اردگرد کزنز سے لے کر قریبی دوستوں تک کے بچے زیادہ تر بیرون ملک سیٹل ہوچکے اور اسے روگ کہہ لیں یا رواج، بہت تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔

میرے پھپھی زاد مصباح بھائی کزن کم دوست زیادہ تھے۔ انتہائی قابل ا ک ایسا شخص جس نے میٹرک کے بعد ہر سال دو مہینے سیاحت کی اور یہ روٹین پچھلے برس ان کی موت تک جاری رہی۔

ان کے چاروں بیٹے اپنے اپنے شعبوں میں ٹاپ کے پروفیشنلز ہیں، ان کی اولادیں بھی باہر پیدا ہوئیں اور ظاہر ہے وہیں پروان چڑھ رہی ہیں اور پاکستان سے ان کا تعلق اتنا ہی ہے جتنا ہوسکتا ہے، میں نے ایک بار پوچھا۔’’بھائی جان! سوائے ایک کے سارے بیٹے آپ کے دنیا میں بکھرے ہوئے سال میں ایک دو بار چند دنوں کے لئے آتے ہیں تو آپ کو عجیب سا نہیں لگتا؟‘‘آنکھیں بھیگ گئیں بولے’’ان کی تعلیم اور تربیت جیسی تھی تم جانتے ہو لیکن سچ بتائو کیا وہ یہاں کھپ سکتے تھے؟ جب تیسرا باہر گیا تو تیری بھابی بہت روئی، میں نے اندر اندر روتے اسے اک شعر سنایا، تم بھی سن لوچکور خوش ہے کہ بچوں کو آگیا اڑنااداس بھی ہے کہ رت آگئی جدائی کی یہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ یہ کہانی تو گھر گھر کی کہانی بنتی جارہی ہے۔ہر وہ شخص جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھجوانا افورڈ کرسکتا ہے، انہیں’’گنوانا‘‘ بھی اس کا مقدر بن جاتا ہے۔

مستثنیات کو چھوڑ کر بھاری ترین اکثریت اسی المیہ کا سکار دکھائی دیتی ہے۔ ’’برین ڈرین‘‘ والی ٹریجڈی تو بالکل ہی اک مختلف جہت ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں میں مبالغہ کا شکار تو نہیں لیکن پھر جب اپنے اردگرد امیر افضل، جاوید گتہ، ابرار بھٹی، صوفی شاہد حسن(ٹیٹو)، یوسف ہونڈا جیسے بیشمار دوستوں کو دیکھتا ہوں تو دل تھام لیتا ہوں۔

ان میں حفیظ خان اور صلو درانی جیسے انمول دوست شامل نہیں جو دو، دو ڈھائی ڈھائی عشروں پہلے خود ہی باہر سیٹل ہوگئے تو ظاہر ہے ان کے بچوں نے وہیں تعلیم پائی کیرئیرز شروع کئے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن وہ بہت سے دوست احباب جو خود یہیں ہیں، وہ تو میرے نزدیک کہیں کے نہ رہے حالانکہ یہی مسئلہ کل کلاں خود میرے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور اگر ہوگیا تو میں کسی کی ماں کو ماسی کہوں گا؟میں خود اس صورتحال سے اتنا خوفزدہ کہ اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے بیرون ملک بھیجنے سے گریزاں ہوں اور جب وہ چھٹیوں پر باہر خصوصاً امریکہ جاتے ہیں تو انہیں کہتا ہوں وہاں مختلف قسم کے شارٹ کورسز کرلیا کرو تاکہ تمہارا ایکسپوژر بھی ہوجائے، شوق بھی پورا ہوجائے لیکن ممکن ہے کل بات میرے ہاتھ سے نکل جائے۔

’’دور جانا تھا اسے مجھ کو کمان بننا پڑا‘‘ہمارا جو بچہ چند سال باہر پڑھ لیتا ہے وہ یہاں کے قابل نہیں رہتا یا لاتعداد مکروہات کے باعث یہاں کا ماحول اس کے قابل نہیں رہتا تو سوچتا ہوں کہ بنے گا کیا؟عمران خان نے جتنے دعوے کیے تھے، مرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ خوب صورت اور بامعنی دعویٰ یہ تھا کہ’’ملک وہاں لے جائیں جہاں پاکستانی تلاش رزق میں بیرون ملک نہیں، بیرون ملک سے لوگ نوکریوں کی تلاش میں پاکستان آیا کریں گے۔‘‘

یہ ایک کھوکھلا، فضول اور ہوائی قسم کا دعویٰ تھا لیکن اس ہدف کا حصول بہرحال ممکن ہے کہ کم از کم اک ایسا ماحول ضرور بنایا جائے کہ ہمارے جو بچے بیرون ملک اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کریں اس پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی باعزت طور پر کھپ سکیں۔

ایسا نہ ہوا تو آنے والے پچیس پچاس سال میں یہاں صرف کچرا ہی باقی رہ جائے گا کہ یہاں تو ابھی سے عمدہ راج، ترکھان، مستری، پلمبر، الیکٹریشن وغیرہ ملنے مشکل ہوگئے ہیں لیکن حکمرانوں کو تو بونگیوں اور بڑھکوں سے ہی فرصت نہیں اور ہم سب کو بھی شاید بونگیاں اور بڑھکیں ہی پسند ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے