کیا مولانا کا دھرنا’ناکام سیاسی شو‘ تھا؟

مولانا فضل الرحمان کو سیاست میں ریلیونٹ رہنے کا فن خوب آتا ہے۔ طویل مدت بعد وہ مئی 2018 میں قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہوئے۔ ان کاکہنا یہ ہے کہ انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ہے۔

مئی 2018 کے الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمان نے انتخابات کو جعلی قرار دیتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حلف اٹھانے سے انکار کردیں۔ لیکن اس وقت ایسا نہ ہو سکا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین اور موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل اور عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد قوم کی تقدیر بدلنے کے اتنے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ جن کا جلد پایہ تکمیل تک پہنچنا ناممکن تھا۔ سو ایسا ہی ہوا، 100 دن میں انقلابی تبدیلی کا وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا،جب حکومت پر تنقید شروع ہوئی تو فوج کے ترجمان کو بھی کہنا پڑا کہ ”میڈیا مثبت رپورٹنگ کرے۔” پھر دن گزرتے گئے لیکن ایک بات واضح ہوتی چلی گئی کہ مدت بعد سول اورملٹری کا ”پیج“ ایک ہوا ہے۔

حکومت کے نمایاں مخالفین کو کرپشن کے کیسزمیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ یوں کہیے کہ نئے پاکستان کی دعوے دار حکومت کو ان کی مرضی کا پیلیئنگ فیلڈ بھی مہیا کر دیا گیا۔ اس ‘سہولت کاری’ کے باوجود حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اپنی انتخابی شکست پر بھرے بیٹھے تھے، حکومت کی خراب کارکردگی نے انہیں سرگرمی کا بھرپور جواز فراہم کر دیا۔ مولانا نے جب حکومت کے خلاف”آزادی مارچ“ کا اعلان کیا تواس کے بعد سے مارچ شروع ہونے تک مولانا ملکی سیاسی مباحثوں کامرکزی موضوع بن گئے۔

ملک میں رائج پاور پالیٹکس میں یہ بھی ایک کامیابی ہے کہ میڈیا کنٹرولڈ ہونے کے باوجود مولانا کی جانب توجہ دیے بغیر نہ رہ سکا۔ پھر 27اکتوبر کو یہ مارچ سندھ سے شروع ہوا اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں اس مارچ کے ہزاروں شرکاء نے پڑاؤ ڈال دیا۔شروع میں مولانا فضل الرحمان کا آہنگ بہت بلند اور فاتحانہ تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی بھی دیکھی گئی۔

اس مارچ میں،جو بعد میں دھرنے کی شکل اختیار کر گیا، کئی نئے پہلو دیکھنے کو ملے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو بہت زیادہ منظم نہیں سمجھا جاتا۔ جماعت اسلامی کو اس معاملے میں البتہ استثناء حاصل ہے کہ وہ ریلیوں اور جلسوں کا اچھا تجربہ اور تاریخ رکھتی ہے۔ لیکن اب کی بار مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام نے پاکستان کی سیاسی ثقافت میں چند نئے معیارات ضرورسیٹ کیے ہیں۔

لاہور میں مصروف ترین آزادی انٹرچینج پر ہزاروں لوگوں کے اجتماع کے باوجود میٹرو بس سروس کا رواں رہنا اہم مثال ہے۔ حالانکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس بس سروس کو کئی بار درجن بھر نابینا افراد نے احتجاج کرتے ہوئے روک دیا تھا۔ پھر کچھ مناظر ایسے بھی دیکھے گئے جہاں انصار الاسلام کے کارکن سڑک پر سے کارکنوں کو ہٹا کر ایمولینس کو راستہ دے رہے ہیں۔یہ نئی چیز تھی، اس کے علاوہ دھرنے کے شروع میں میڈیا کی خواتین اینکرز اور رپورٹرز کو کچھ مشکلات پیش آئیں،لیکن انہیں فوری حل کر دیا گیا اور اس کے بعد خواتین پوری آزادی کے ساتھ اس دھرنے کی کوریج کرتی رہیں۔

دھرنے کی کامیابی اگر وزیراعظم کے فوری استعفے کو کہاجائے تو اس اعتبار سے یہ دھرنا ناکام تھا، لیکن ملک میں جاری سول ملٹری کشمکش، انتخابی عمل کے معاملات ، عدلیہ کے مسائل اور انسانی حقوق سے جڑے امور کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسے مکمل طور پر لاحاصل مشق قرار دینا مشکل ہو گا۔

مولانا فضل الرحمان ہرشام مغرب کے بعد دھرنے کے کینٹینر پر جلوہ گر ہوتے اور اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے تھے۔ مولانا نے اس دھرنے کے دوران بعض اہم ترین مسائل پر جس طرح کھل کر بات کی، دیگر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے رہنما ابھی تک ان موضوعات پر محتاط آہنگ اختیار کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے ملکی معیشت کے زوال، عام آدمی کی بدحالی، آئی ایم ایف کے معاشی تسلط سمیت کئی اہم امور پر بات کی۔

ایک دائیں بازو کی جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے انہوں نے ملک میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے مبینہ طور پر شہریوں کوماورائے قانون اٹھانے اورکئی کئی سالوں تک لاپتا بنانے کے خلاف بات کی۔ انہوں نے دھرنے کے اسٹیج سے ان غیر سیاسی قوتوں کوبھی للکارا کہ جن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہیں۔ مولانا کی دھواں دھار تقریروں کے بعد فوجی ترجمان کو یہ وضاحت دینا پڑی کہ ”دھرنے سیاسی سرگرمی ہیں، فوج کا ان سے کوئی تعلق نہیں، مزید یہ کہ فوج غیر جانب دار قومی ادارہ ہے“۔

ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ مولانا نے دھرنے کے اسٹیج سے ملک میں سیاست دانوں کے احتساب کے نام پر جاری مُہم پر شدید تنقید کی۔انہوں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا اور اس حوالے سے غیر سیاسی قوتوں پر سخت تنقید کی۔

مولانا فضل الرحمان کی کامیابی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدگی کے باوجود انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور اسے کئی دن تک جاری رکھا۔کئی تجزیہ کار ان کے اس اعتماد کے پیچھے طاقتور حلقوں کی تھپکیاں تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کوئی واضح ثبوت نہ مل سکا۔ہاں کچھ دن بعد ایک اہم ملاقات کا مولانا کی جانب سے اعتراف ہوا لیکن اس کی تفاصیل مخفی ہی رہیں.

دوسری جانب دیگر مین اسٹریم پارٹیزخاص طور مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے میں کھل کر شرکت نہیں کی، مسلم لیگ نواز کے بعض پرجوش حامیوں نے اپنی قیادت پر اس حوالے سے سوالات بھی اٹھائے لیکن مولانا فضل الرحمان نے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے بارے میں کوئی ایسی غیر محتاط اسٹیٹمنٹ نہیں دی، جس سے یہ تأثر پیدا ہو کہ اپوزیشن تقسیم کا شکار ہے۔

مولانا کی حکمت عملی یوں بھی کامیاب رہی کہ انہوں نے اس مارچ یا دھرنے کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت پر مکمل انحصار نہیں کیا۔ ان کی جماعت کے کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد اس دھرنے میں شامل تھی، جن کے ہوتے ہوئے مارچ اور دھرنے کو بے رونق قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔

پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی مسلسل دھرنے کے اسٹیج پر موجود رہے، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور کارکن بھی اس میں شامل رہے لیکن مولانا فضل الرحمان نے کلی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت پر انحصار نہ کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ اکیلے بھی احتجاج اور دھرنے کی سیاست کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

دھرنے کے دوران مولانا فضل الرحمان کی جانب سے عوام کی بالادستی اور الیکشن سے فوج کو الگ رکھنے کے مطالبات سن کر بہت سے ایسے لوگ، دانشور اور رائے ساز بھی ان کے حق میں ہو گئے جو جمہوریت، ووٹ کی بالادستی اورسرکاری محکموں کی سیاست میں عدم مداخلت کے پرجوش وکیل ہیں۔ دھرنے کے دوران جب جب مولانا فضل الرحمان اپنی ‘کور آڈئینس’ کو مطمئن کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان اور حکومت کے خلاف بعض مذہبی نوعیت کے حساس الزامات لگاتے تو ان کے حامی جمہوریت پسند سوچنے پر مجبور ہو جاتے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے، لیکن یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ مولانا کی حتمی پہچان تو ایک مذہبی سیاسی رہنما کی ہے، سو وہ اس پہلو کو کیونکر نظر انداز کر سکتے ہیں۔اور ان کی سیاسی فکر کے اس پہلو سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان ، آزادی مارچ اور دھرنے کے نتیجے میں وزیراعظم کا استعفا تو نہ لے سکے لیکن اسمبلی سے باہر ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی سیاسی اہمیت منوانے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اس دھرنے کے دوران ان تمام امور پر کھلے لفظوں میں بات کی جن سے متعلق گفتگو کامیڈیا پر نشر ہونا اب تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

ایک اور چیز یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے میڈیا بلیک آؤٹ کے متبادل کے طور پر سوشل میڈیا کا بھرپور اور مؤثر استعمال کیا۔ ٹی وی چینلز پر مولانا کے دھرنے کی خبریں بہت کم چلیں لیکن سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگ ان کے تقریریں لائیو سنتے رہے۔ بعض صحافیوں نے یوٹیوب چینلز پر مولانا کے انٹرویوز بھی نشر کیے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ مولانا کی ٹیم اس صورت حال کے لیے پہلے سے تیار تھی۔

اب اسے ‘فیس سیونگ’ کہیے یا کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ۔۔۔، مولانا فضل الرحمان نے اپنے آزادی مارچ کے پلان بی کا اعلان کر دیا ہے اور ان کے کارکنوں نے ملک کے کئی اہم شہروں کی رابطہ سڑکوں پر دھرنے شروع کر دیے ہیں۔ مولانا کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت گرانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو کس طرح مسلسل چارجڈ رکھ سکتے ہیں اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ کس قسم کا رویہ روا رکھتی ہیں،اور حکومت اس پلان بی سے نمٹنے کے لیے کس حد تک جاتی ہے، مولانا کے پلان بی کی کامیابی کا انحصار اس طرح کے کئی اہم عوامل پر ہے ، تاہم اتنا طے ہے کہ مولانا اس وقت حکومت کے خلاف اپوزیشن کی سب سے مؤثر آواز کے طور پر اپنی حیثیت منوا چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے