دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا اب کوئی نہیں کہتا

گذشتہ روز سوشل میڈیا کی وساطت سے ایک کالم نظر سے گزرا انتہائی اچھے انداز میں حکومت اور اداروں پر خاموش سوالات کی بھرمار کی گئی تھی، گزشتہ دہائی کی ان ویڈیوز پر بات کی گئی تھی جو ایک وقت میں میڈیاکے ذریعے اس حد تک نمایاں کی گئیں کہ اداروں اور حکومت کی جانب سے ان پر ایکشن کیلئے بیانات کیساتھ ساتھ تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنائی گئیں لیکن اب وہ ویڈیوز نہ صرف عوام کے اذہان سے نکل چکی ہیں بلکہ حکومت اور اداروں نے بھی ان ویڈیوز کو قصہ پارینہ سمجھ کر داخل دفتر کر دیا ہے۔ تحریر کی ہیڈلائن ”دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا“ دی گئی تھی۔

عفت رضوی سے معذرت کیساتھ ! جس پیرائے میں انھوں نے تحریر لکھی اور بین السطور گذشتہ جن واقعات کو اجاگر کیا انکا تعلق حکومت یا ریاستی اداروں کیساتھ تھا۔ لیکن معاشرہ اس حد تک بے حس ہو چکا ہے کہ اب تو کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ دیکھ کر ڈیلیٹ کردینا۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی یلغاراور ہماری نوجوان نسل نے اس سوشل میڈیا سے وہ کچھ کر دیا کہ ہمارے ہی گھروں کے بزرگوں کواگر اس کی بھنک بھی پڑ جائے تو یقینا انکی روح انکے جسموں کا ساتھ چھوڑ دے گی ، جوان نسل نے وہ گل کھلائے ہیں کہ خدا کی پناہ ! پچھلی دہائی میں جب سوشل میڈیا کے ذریعے جوانوں سمیت ہر عمر کے افراد کو ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملا تو بند کمروں کی روشنی میں خاموشی سے تصویری پیغامات بھیجنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا ، جس کے ساتھ ہی میسج جاتا ہے (دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا)۔

لیکن یقین کیجئے اب یہ کوئی نہیں کہتا ، نوجوان لڑکیاں اور لڑکے جس دھڑلے سے اپنی نیم لباسیوں اور بے لباسیوں کی تصاویر اور ویڈیوز ایک دوسرے کو ارسال کر رہے ہیں اگر انکے موبائلز کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تو اس حمام میں شائد سب ہی ننگے نظر آئیں اور رہی سہی کسر چھوٹی سوچ اور پرگندہ ذہن والے ان دراز قد بونوں نے پوری کردی جو ان ویڈیوز کو دیگر گروپوں میں بھیج رہے ہوتے ہیں ، حد تو یہ کہ اخلاق باختگی سے محظوظ ہونے والوں میں بھی اب کوئی عمر و جنس کا امتیاز و لحاظ نہیں رہا ۔ ان ساری خرابات کی بنیاد بننے والے بے باک مگر نادان محبتوں سے بیزار کسی شاعر نے جزباتی جدتوں پر اقدار و احساس کی کیا خوب چوٹ کی ہے ۔۔۔

لباس تن سے اتار دینا

کسی کو بانہوں کے ہار دینا

پھر اسکے جذبوں کو مار دینا

اگر محبت یہی ھے جاناں تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے

لیکن آجکل کی محبت کی تعریف، انداز اور معیار سب کچھ اور ہی ہو چکے ۔۔۔

گویا یوں کہا جائے کہ یہ تبدیلی بھی آ نہیں رہی، آچکی ہے ۔۔۔

اب نہ تو وہ جھکی نگاہیں، نہ اظہار میں تردد ۔۔۔ نہ انکار کا خوف ۔۔۔ نہ حیا کی لالیاں ۔۔۔ نہ ہی تیز دھڑکیں ۔۔۔ اب تو ایک ہی کلک پر دیدار ، اظہار، ہیجان اور عہدو پیمان ۔۔۔ اور پھر دوسرے ہی اسٹیپ پر سپردگی و وارفتگی کچھ دیر کی رفاقتیں ، پھر تیزرفتار حماقتیں، دوریاں ، قطع تعلق اور کسی سوشل میڈیا پر پھر کسی نئے عارضی آئیڈیل اور کھوکھلی انڈر اسٹینڈنگ کی تلاش ۔۔۔ جس کا سلسلہ شہرت نما بدنامیاں ۔۔۔۔ بربادیوں میں ڈھلنے کے بعد ہی شائد کہیں تھمے تو تھمے ۔۔۔ ورنہ شیریں آغاز اور تلخ انجام کے سارے پتھر چاٹ کر بھی یہ مچھلیاں آگے ہی آگے پھسلتی چلی جاتی ہیں ۔۔۔ اس دلدلی جدت میں ۔۔۔

اوہ ۔۔۔ معاف کیجیے گا ، بات پھسل کر کہیں سے کہیں جانے لگی ۔۔۔ تو واپس آتے ہیں بنیادی موضوع پر ۔۔۔

کہ پہلے پہل چند ٹیلی ویژن اداکاراوں کی ویڈیوز جب سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی حلقوں تک پہنچیں تو انہوں نے ان کو جعلی قراردیکر خود کو الگ کر لیا ، لیکن حالیہ چند ماہ میں وہ طوفان بدتمیزی اٹھا کہ لفظ ہی خاموش ہو گئے ، لاہور کے سینما کی ویڈیو ، پھر موٹروے پر سفر کے دوران خلوتی عشرت کے جلوں کی ایک ویڈیو ، اسکے بعد ایک بینک افسر کی لڑکی کیساتھ ویڈیو اور تو اور حد اس مولوی کی ویڈیو جو بچے کو قرآن پڑھاتے ہوئے انتہائی نازیبا حرکات کر رہا تھا اور آخری اطلاع تک پولیس حراست میں تھا ، ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ رابی پیرزادہ زبان زد عام ہوئی لیکن رابی کی جانب سے پردہ پوشی کی درخواست کی گئی۔ حالانکہ ان ویڈیوز کو سوشل میڈیا سے ہٹانا پاکستان کے سائبر کرائم ونگ کیلئے تقریبا ناممکن ہی نظر آتا ہے

لیکن جناب ۔۔۔ زینب زیادتی اور قتل کیس، قصور اور ڈارک ویب سائٹس میں ملوث افراد کی درندگی کی ویڈیوز تو ابھی تک عوام تک پہنچی ہی نہیں کہ اگر انکو ایک عام انسان دیکھ لے تو شاید اپنے حواس کھو بیٹھے۔ یہ بھی معاشرے کا ہی حصہ ہے۔ تاریک حصہ ۔۔ ڈارک سوسائیٹی ۔۔۔

حکومتی اقدامات اور اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانا بھی ضروری ہے کہ لیکن بات وہی کہ کہ پہلا پتھر وہی مارے جو خود اس میں ملوث نہ ہو۔ من حیث القوم بد تہذیبی کے جس گٹر میں ہم گر چکے ہیں وہاں سے خود کو نکالنا تو دور کی بات نکالنے کیلئے تھامنے والے کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اور اس گندگی میں دوسروں کو بھی کھینچ کر بدبودار بنا دیتے ہیں ۔۔۔

افسوس سوشل میڈیا کی چکا چوند ۔۔۔ ڈارک سوسائیٹی کی تاریکیوں کو بجلی کی رفتار سے سیاہ تر کیے جا رہی ہے ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے