پیرس نشانہ کیوں؟

یہ وہ شہر ہے جس میں آج سے تقریباً ڈھائی سو سال قبل لاکھوں لوگ سڑکوں پر امڈ آئے تھے، یہ بھوکے ننگے اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگ تھے۔ عوام کی طاقت سے بادشاہت کو گرانے کا مظاہرہ دنیا نے پہلی دفعہ اسی شہر میں وقوع پذیر ہوتے دیکھا تھا۔ یہ لوگ اپنی نفرت اور انتقام کی انتہا پر تھے۔ کارلائل ان لوگوں کی تصویر کھینچتے ہوئے لکھتا ہے ’’محنت و مشقت کرنے والے عوام کی حالت مسلسل ابتر تھی، بدقسمت لوگ جن کی تعداد دو سے ڈھائی کروڑ کے درمیان تھی۔ ہم ان سب کو ایک دھندلی اکائی یا انسانوں کا ایک ڈھیر سمجھتے ہیں۔ اتنا بڑا ہجوم مگر کمزور لوگوں کا ہجوم، کم ذات اور کمینے، اچھے لفظوں میں انھیں عوام کہہ لو، بظاہر عوام نام کی ایک اکائی، سارے فرانس میں اپنے مٹی کے گھروندوں اور چھپروں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہر گھر کے اپنے دکھ تھے، اپنے مسائل تھے، ان گھروں میں پائی جانے والی مخلوق اپنی ہڈیوں پر محض کھال اوڑھے ہوئے تھی… کھال بھی خستہ حال کہ چٹکی بھرو تو اس میں سے خون رسنے لگے‘‘۔

یہ 1789ء کا فرانس تھا جس کی تصویر کارلائل بیان کر رہا تھا۔ کئی سالوں سے فرانس کے یہ حالات تھے اور دن بدن ابتر ہو رہے تھے۔ وہ 1777ء سے ہنگامے اور بغاوتیں کر رہے تھے۔ اسی سال سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ فرانس میں گیارہ لاکھ بھکاری ہیں۔ لیکن دس بارہ سالوں میں یہ لوگ اسقدر بڑھے کہ لوگوں کا بازاروں میں چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔ پھر ایک دن چودہ جولائی 1786ء میں عوام کا بپھرا ہوا ہجوم پیرس کی سڑکوں پر نکل آیا۔ انھوں نے سب سے بڑے جیل خانے بیسٹائل پر قبضہ کر لیا۔ وہ تمام قیدی جو بادشاہ کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں قید کیے گئے تھے رہا ہو گئے۔ 14 جولائی آج بھی فرانس کا قومی دن ہے۔ یہ آغاز تھا، انجام تو بہت ہی خون آشام تھا۔ جگہ جگہ عدالتیں لگی ہوئی تھیں۔ بپھرے ہوئے لوگ انسانوں کو روکتے، ان کے ہاتھ دیکھتے، اگر وہ نرم ہوتے اور ان پر محنت کے نشان نہ ہوتے تو انھیں قتل کر دیتے، ان کی قمیض کا کالر اور آستین دیکھتے، اگر ان پر میل نہ ہوتا تو گردن اڑا دیتے۔ بادشاہ کو جس طرح کھینچ کر اس بلند مقام پر لایا گیا جہاں ایک بہت بڑا چھرا اس کی گردن کاٹنے کا منتظر تھا، وہ عجیب منظر تھا۔ جب یہ سروں کی فصل کٹ رہی تھی تو کوئی آنکھ اشکبار نہ تھی۔ پورے فرانس میں جشن کا ایک سماں تھا۔ رقص گاہوں میں رقص جاری تھے اور شراب خانوں میں جام لنڈھائے جا رہے تھے۔

انقلاب فرانس کی تاریخ لکھنے والے ان تمام واقعات کو اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ وہ سب اسے عوام کا غصہ، غضب اور انتقام تصور کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ول ڈیورانٹ جیسا شخص انقلاب فرانس کے دوران اس طرح لوگوں کی گردنیں اڑانے کا ایک جواز تحریر کرتا ہے۔ وہ اپنی کتاب Heros of History میں لکھتا ہے کہ انگلینڈ میں فرانس سے زیادہ غربت و افلاس تھی بلکہ انگلینڈ کے لوگ تو پرانے چمڑوں کو ابال کر سوپ تیار کر کے زندگی گزارتے تھے لیکن وہ سب لوگ فرانس کے عوام کی طرح سڑکوں پر نہیں نکلے، انھوں نے امراء اور رؤساء کا قتل نہیں کیا۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ انگلینڈ میں فرانس کے بادشاہوں کی طرح عوام کی غربت کا مذاق اڑانے والا کوئی نہ تھا۔ کسی ملکہ نے یہ الفاظ نہیں بولے تھے کہ ’’لوگوں کو اگر روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘ یا پھر انگلینڈ میں فوج کے کسی سپہ سالار نے فرانس کے روہان کی طرح یہ فقرہ نہیں کہا تھا کہ لوگ بھوکے ہیں تو پورے فرانس میں اسقدر گھاس اگی ہوئی ہے، وہ کیوں نہیں کھاتے۔‘‘ یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے پکڑا، اس کے منہ میں گھاس بھری اور پھر گردن کاٹ دی۔ حیرت کی بات ہے کہ لوگ بھوک اور افلاس برداشت کرتے رہتے ہیں لیکن اپنا تمسخر برداشت نہیں کرتے اور آتش فشاں کی طرح اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور قتل و غارت کی ایسی تاریخ رقم کرتے ہیں جس میں کوئی پوچھتا تک نہیں کہ کون قصور وار ہے اور کون نہیں۔ بس جو شکل و صورت یا لباس سے سرمایہ دار امیر نظر آتا ہے اس کی گردن اڑا دی جاتی ہے۔

یہ انقلاب فرانس تھا جس کی کوکھ سے دو چیزوں نے جنم لیا۔ ایک سیکولرازم اور دوسرا نپولین۔ ان کے اپنے اپنے اہداف تھے، ایک سلطنت کو وسعت دینا چاہتا تھا اور وہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان علاقوں پر چڑھ دوڑا اور سیکولرازم نے مذہب سے ایسی آزادی کو جنم دیا جس میں ہر اس تصور کا تمسخر اڑایا گیا جو مذہب سے وابستہ تھا۔ فرانسیسی ادب میں پادری اور نن کے حوالے سے جس قدر کہانیاں اور افسانے تراشے گئے وہ صرف اور صرف ان کی کردار کشی کے لیے تھے۔ لطیفوں کی ایک قطار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ فلموں میں چرچ کی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ‘یہاں تک فحش فلموں کے کرداروں میں بھی نن کو شامل کر کے رسوائی کا سامان مہیا کیا گیا۔ عیسائیت نے چونکہ صلیبی جنگوں کے بعد فرانس پر بذریعہ چرچ اپنا غلبہ قائم کیا تھا اور پادری وہاں کی سب سے بڑی طاقت تھے جو انسانوں کو مخالف نظریات کی بنیاد پر پکڑتے، فیصلہ صادر کرتے کہ ان میں شیاطین کی ارواح داخل ہو گئی ہیں۔ پھر ان کو اکٹھا کر کے آگ کے الاؤ میں جھونک دیا جاتا۔ فرانس کے سب سے بڑے سرمایہ دار اور جاگیردار پادری تھے کیونکہ انھوں نے صلیبی جنگوں کے نام پر عوام سے جو سرمایہ اکٹھا کیا تھا اسے اپنی جائیدادیں بنانے پر خرچ کیا۔ اسی لیے جب ان کے خلاف دو صدیاں نفرت اور تمسخر سے بھرا پراپیگنڈا کیا گیا تو کوئی ان کی ہمدردی میں نہ اٹھا۔ کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا بلکہ وہ خود بھی خاموش ہو کر بیٹھے رہے۔

چرچ کی اس خاموشی کو سیکولرازم کے کرتا دھرتا لوگوں نے آزادیٔ اظہار کی فتح قرار دیا اور یہ گمان کر لیا کہ کسی بھی مذہب یا اس کے ماننے والوں کی محترم شخصیت کا اگر کبھی مذاق اڑایا گیا تو کم از کم فرانس یا پیرس میں ہمارا سامنا کوئی نہیں کرے گا۔ ہم آزادیٔ اظہار کے نام پر سب کچھ اور سب کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے۔ ادھر فرانس کے مفتوح افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے افراد یہاں آباد ہونا شروع ہوئے جن کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مراکش، الجزائر، مصر، شام، لبنان اور دیگر ملک۔ ان سب نے پیرس کے اس رنگارنگ ماحول کو اوڑھ لیا جس نے سیکولرازم کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ اس ماحول کو ارباب اقتدار فرانسیسی تہذیب اور ثقافت کہتے ہیں اور اس کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسے ہرحال میں قائم رکھا جائے گا بلکہ ان سیکولر اخلاقیات کو بزور نافذ کیا جائے گا۔ اس کا پہلا شکار وہ 92 عورتیں ہوئیں جو پیرس شہر میں نقاب اوڑھتی تھیں۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ فرانسیسی تہذیب و ثقافت پر حملہ ہے۔ ان 92 عورتوں کے مقابلے میں فرانس کی اسمبلی کے کئی سو ارکان اکٹھا ہوئے اور نقاب پر پابندی لگا دی۔ یہ کسی شخص کے ذاتی انتخاب لباس پر قدغن ہی نہیں بلکہ اس کا تمسخر اڑانا بھی تھا۔ اس کے بعد چارلی ہیبڈو نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے کارٹون شایع کیے۔

اس اخبار کو بخوبی علم تھا کہ فرانس میں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ فرانس یورپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں اسلام اختیار کرنے والوں کی تعداد روزانہ تین سے چار افراد ہے جو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کسی کو یاد نہ تھا کہ لوگ غربت و افلاس اور بھوک اور بیماری برداشت کر لیتے ہیں لیکن تمسخر نہیں۔ 2015ء میں چارلی ہیبڈو کے کارکن قتل ہوئے۔ اسی پیرس شہر میں جہاں ڈھائی سو سال قبل انتقام سے بھر پور لوگوں نے اپنے تمسخر کا انتقام ہر قصور وار اور بے قصور سے بلا امتیاز لیا تھا۔ پورا یورپ وہاں اکٹھا ہو گیا۔ ان کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پیرس کی سڑکوں پر ایک ہجوم دوبارہ نکل آیا۔ لیکن اس دفعہ وہ تمسخر اڑانے والوں کی گردنیں کاٹنے کے حق میں نہیں تھا۔ بلکہ ان کے تحفظ اور ان کی حمایت میں کھڑا ہوگیا۔ اس ہجوم نے دنیا بھر کے دکھی اور رنجیدہ مسلمانوں کو ایک پیغام دیا کہ پیرس ہر اس شخص کا ساتھ دے گا جو تمہاری محبوب ترین شخصیت کا تمسخر اڑائے اور اگر وہ قتل کر دیا جائے تو وہ ہمارا ہیرو ہے۔ انتقام کی اپنی سرشت ہوتی ہے۔ الجزائر میں فرانسیسی افواج اتریں کہ وہاں اسلام پسند حکمران نہ بن جائیں، بلا امتیاز بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کیا۔ لیبیا کے پر امن ملک کو فضائی حملوں سے تباہ و برباد کر دیا گیا۔

عراق، بیروت، مصر اور شام میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ وہ سب کچھ روا رکھاگیا جو عام شہریوں کے قتل عام کا سبب تھا۔ جہاز کئی ہزار فٹ سے بم برساتے اور ان کے شور میں کسی کو معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی چیخیں تک سنائی نہ دیتیں۔ لوگ گھروں سے نکلے، ہجرت کرتے ہوئے سمندروں میں غرق ہوئے، دربدر خاک بسران لوگوں کی آنکھوں میں صرف ایک ہی آگ تھی جسے انتقام کی آگ کہا جاتا ہے جس شخص نے اپنے ہاتھوں اپنے پیاروں کو دفنایا ہو اسے اردگرد خوشیاں مناتے لوگ اچھے نہیں لگتے۔ وہ ذاتی اور نسلی انتقام کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔ وہ شام سے تعلق رکھتا ہے اور شام کا انتقام لیتا ہے۔ شام جس پر پورا مغرب اور روس سب ٹوٹ پڑے ہیں۔ لیکن فرانس کا شہر پیرس کیوں۔ اس لیے کہ یہی شہر تھا جہاں دنیا بھر کے حکمران تمسخر اڑانےوالوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے جمع ہوئے تھے اور ول ڈیوڑنٹ کے نزدیک لوگ بھوک برداشت کر لیتے ہیں، تمسخر نہیں۔

بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے