عاشق گھنگرواں والا اور نسیم سیٹی

’’ڈیڑھ ماہ، مگر اب میں ہمیشہ کے لئے واپس جا رہا ہوں‘‘۔تبھی آپ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں، ویسے آپ اگر ان ملکوں میں رہے ہوتے تو ان لوگوں کی اچھی اور بری باتوں کے علاوہ اپنے لوگوں کی اچھائیوں اور برائیوں سے بھی واقف ہوتے۔ آپ کو تو نہ خوبیوں کا علم ہے نہ خامیوں کا۔ آپ صرف احساس کمتری کے مارے ہوئے ہیں۔ میری مانیں تو آپ اب بھی یہ کوٹ ، اوور کوٹ اور ہیٹ اتار لیں، کافی فرق پڑے گا اور ہاں یہ جو آپ کی ناٹ ہے میرے ہاں بھی اور آپ کے ہاں بھی ان دنوں آئوٹ آف فیشن ہے۔مجھے محسوس ہوا کہ یہ جو نسیم سیٹی ہے کوئی خاصا گھٹیا سا شخص ہے لہٰذا اس کے منہ نہیں لگنا چاہیے چنانچہ میں نے اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے ظاہری ملائمت سے کہا،’’لگتا ہے تم ایک آدھ دفعہ باہر گئے ہو‘‘۔

’’ایک آدھ دفعہ تو تم باہر گئے ہو‘‘۔ اس دفعہ عاشق گھنگرواں والا کڑوے لہجے میں بولا ’’بلکہ مجھے تو شبہ ہے کہ تم یہ ڈیڑھ ماہ بھی کراچی میں لیاری نالے کے کسی قریبی علاقے میں گزار کر آ رہے ہو۔ مجھے تو تمہارے اوور کوٹ میں سے بھی لنڈے کے کپڑوں کی بو آ رہی ہے۔‘‘ اس پر عاشق گھنگرواں والے اور نسیم سیٹی نے مل کر بھرپور قہقہہ لگایا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ قوم واقعی ترقی نہیں کرسکتی اور اس کی حالت پر کڑھنا خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔ ’’سنیے جناب‘‘ نسیم سیٹی نے مجھے مخاطب کیا اس دفعہ وہ خاصا سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔’’ میں بیس سال انگلینڈ میں رہا ہوں۔ ان پڑھ آدمی ہوں مگر وہاں محنت سے اپنی روزی کماتا رہاہوں، اب پاکستان میں ہوں اور یہاں بھی اللہ کے فضل سے بچوں کی روزی کما لیتا ہوں‘‘۔’’تم بیس سال انگلینڈ میں رہے ہو، وہاں تو تمہارے پاس سب کچھ ہوگا تم اس ملک میں دھکے کھانے کے لئے واپس چلے آئے۔ تمہیں وہاں کس چیز کی کمی تھی، کیا تمہارا دماغ صحیح ہے؟‘‘۔ مجھے اب اس احمق شخص پر ترس آ رہا تھا۔

’’ میرے بچے بڑے ہوگئے تھے جناب! ‘‘نسیم سیٹی نے پرسکون لہجے میں کہا،’’ میں صرف آسائشوں کے لئے اپنے بچوں کی قومیت اور ان کی روحانی پہچان تبدیل نہیں کرنا چاہتا تھا، آپ کو یاد ہے کسی زمانے میں گڑھی شاہو میں اینگلو انڈین رہا کرتے تھے دو متضاد کلچروں میں پھنسے ہوئے ان لوگوں کو ہم حقارت سے ’’کرنٹے‘‘کہا کرتے تھے، انگریز معاشرے میں میرے بچوں یا ان کے بچوں پر یہ برا وقت آنے سے پہلے میں اپنے وطن واپس آگیا ہوںمگر میں اپنے ساتھ ایک بہت بڑی دولت لایا ہوں یہ دولت جو مجھے برطانوی معاشرے نے بخشی ہے، دیانت اور محنت کی دولت۔ میرے پاس کتنی ویگنیں اور ٹیکسیاں ہیں مگر اس کے باوجود میں خود بھی محنت کرتا ہوں اور میرے بچے بھی میرے ساتھ محنت کرتے ہیں۔ اب میرے پاس یہاں وہ سب آسائشیں ہیں جو انگلینڈ میں میرے پاس تھیں کچھ تکلیفیں بھی ہیں جنہیں میں ایمان اور پاکستان کا صدقہ سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہوں مگر آپ کے پاس کیا ہے؟ کوٹ، اوورکوٹ، ہیٹ اور ٹائی ۔ ان کی حالت بتاتی ہے کہ یہ بھی ایک سیزن کی مار ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے نسیم سیٹی اور عاشق گھنگرواں والے نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور پھر وہ دیر تک ہنستے ہی چلے گئے۔اس پر مجھے رتی بھر شبہ نہیں رہا کہ یہ قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ میں نے قہر آلود نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور پھر بریف کیس میں سے اپنے دورہ یورپ کی وہ تصویریں دیکھنے میں محو ہوگیا جو میں نے راہ چلتی میموں کے ساتھ کھڑے ہو کر اتروائی تھیں۔ (17جولائی 1989ء)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے