روزانہ لکھنے کی عادت اختیار کرنا ایک ایسا ہنر ہے جو آپ کی زندگی میں نئی روشنی اور تازگی کا باعث بن سکتا ہے۔ لکھنا ایک فن ہے مگر روزانہ لکھنا بھی مستقل فن ہے ۔ میں خود پچھلے پندرہ سال سے روزانہ کچھ نہ کچھ لکھ رہا ہوں۔میری روزانہ کی یہ مفصل اور مختصر تحریریں کبھی سوشل میڈیا پر، کھبی سماجی رابطوں کی دیگر ذرائع پر، کبھی اخبارات میں، کھبی ویب سائٹس پر اور کبھی میری ڈائری کے اوراق میں درج ہوتی ہیں۔ اب میرے لیے لکھنا کسی مشکل کا باعث نہیں بنتا بلکہ لکھتے رہنے میں مزہ آتا ہے اور میں لکھنے سے خوب انجوائے کرتا۔ میرے احباب اور تلامذہ و قارئین اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اتنا زیادہ کیسے لکھ لیتا ہوں؟
آج میں اس موضوع پر کچھ تجربات، تجاویز، نکات اور مشورے آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں تاکہ آپ بھی لکھنے کی اس عادت کو اپنا سکیں اور اپنی تحریروں کو بہتر بنا سکیں۔
لکھنے کی عادت اپنانا ایک ایسا عمل ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ جیسے صبح کی نرم ہوا آپ کو تروتازہ کرتی ہے، ویسے ہی اگر دن کے کسی مخصوص حصے میں لکھنے کی مشق کو شامل کر لیں تو یہ آپ کے خیالات کو منظم اور آپ کی سوچ کو نکھارنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جس طرح چائے کا ایک کپ آپ کے ذہن کو بیدار کر دیتا ہے، اسی طرح لکھنے کا یہ عمل بھی آپ کی سوچوں کو ایک نئی جِلا دے سکتا ہے۔ آپ یقین کریں کہ اس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں اور گرما گرم بلیک ٹی کا مگ میرے سامنے پڑا ہے۔ یہ مگ اور اس میں موجود چائے میرے ذہن کو بیدار کررہا ہے اور میں لکھے جارہا ہوں۔
کسی بھی بڑے کام کی ابتدا چھوٹے قدموں سے ہوتی ہے۔ شروع میں اگر آپ روزانہ صرف ایک پیراگراف یا ایک صفحہ لکھنے کا معمول بنائیں تو یہ آپ کے لکھنے کی صلاحیت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ یہ عمل بالکل ویسا ہے جیسے کوئی کسان ایک چھوٹا سا بیج بوتا ہے جو آہستہ آہستہ ایک بڑے درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جیسے جیسے آپ اس عادت کو اپنائیں گے، آپ کی تحریریں بھی ایک مکمل داستان بن کر سامنے آئیں گی۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے، میرے ساتھ کیا ہر لکھاری کیساتھ یہی ہوتا ہے ۔
ایک اچھا دوست جو لکھنے کا شوقین ہو، آپ کے لیے بہترین حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ آپ دونوں ایک دوسرے کی تحریروں کا جائزہ لے سکتے ہیں، خیالات کا تبادلہ کر سکتے ہیں، اور ایک دوسرے کی ہمت بڑھا سکتے ہیں۔ یہ تعلق بالکل ویسا ہے جیسے دو کوہ پیماء، ایک دوسرے کا سہارا بن کر پہاڑ کی اونچائی کو عبور کرتے ہیں۔ یہ دوست آپ کا استاد بھی ہوسکتا ہے اور آپ کا کلاس فیلو یا شاگرد بھی۔ میری خوش قسمتی دیکھیے کہ استاد ابن الحسن عباسی اور استاد حبیب اللہ زکریا اور میرے کلاس فیلوز ابراہیم عابدی اور میرے کئی تلامذہ میرے ایسے ہی دوست تھے جن کی وجہ سے یہ سلسلہ چلتا رہا بلکہ اب دوڑ رہا ہے۔
اپنی تحریری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے بلاگ لکھنے یا کسی اخبار، میگزین، ویب سائٹ کا حصہ بننے کی عادت ڈالیں۔ یہ نہ صرف آپ کی تحریریں بہتر بنائے گا بلکہ آپ کے خیالات کو ایک نئے زاویے سے پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔ اپنی زندگی کے تجربات اور احساسات کو تحریر میں پروئیں، جیسے چاندنی جھیل کے پانی پر چمکتی ہے، تاکہ آپ کی سوچیں واضح انداز میں لوگوں تک پہنچ سکیں۔ میری زندگی میں کئی اخبارات، میگزین، ویب سائٹس آئے اور اب تک ہیں۔ میں ان کا حصہ ہوں۔ آپ بھی بن جائے، ویسے فیس بک ہی کافی ہے آغاز میں ۔
اگر آپ یکسانیت سے بچنا چاہتے ہیں تو مختلف طرز تحریر کا تجربہ کریں۔ کبھی افسانہ لکھیں، کبھی مقالہ نگاری کریں، کھبی اخباری کالم یا فیچر لکھیں، کھبی نیوز رپورٹ بنائیں، کھبی کوئی مزاح لکھیں، کھبی رپورتاژ اور سفرنامہ تحریر کریں تو کھبی کسی اور صنف کو تخت مشق بنالیں، اگر کچھ نہیں ہوسکتا تو عشق نامہ ہی لکھ لیں یعنی اپنے محبوب کو خط لکھیں، تاکہ آپ کے الفاظ میں نیا پن اور گہرائی پیدا ہو۔ یہ عمل آپ کی تخلیقی صلاحیت کو جلا بخشے گا اور قاری کو آپ کی سوچ کی وسعت کا اندازہ ہوگا۔
جب بھی لکھنے بیٹھیں، اپنی زندگی کے تجربات کو تحریر میں شامل کریں۔ آپ کی تحریر میں اگر آپ کے ذاتی احساسات و جذبات کی جھلک ہوگی، تو وہ قاری کو ضرور متاثر کرے گی۔ جیسے آپ اپنی زندگی کے ہر موڑ کی کہانی بیان کریں جہاں آپ کی خوشی، غم، کامیابی اور ناکامی شامل ہو۔ محبوب کی یادیں ہی لکھ لو یا اس کی ستم ظریفیاں۔
کبھی کبھار جب خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے تو دوسروں کے تجربات یا کتابوں کے الفاظ سے تحریک حاصل کریں۔ یہ عمل آپ کی سوچ کو نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور آپ کو مزید گہرائی میں لے جاتا ہے۔ کوئی کتاب، مقالہ کالم یا مضمون پڑھیں اور اسکا خلاصہ لکھیں یا پڑھ کر آئیڈیا حاصل کریں اور اس کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا لیں۔
روزانہ لکھنے کی مشق کو ایک عبادت کی طرح اپنائیں۔ ہر دن کا ایک لمحہ آپ کے تخلیقی سفر کو آگے بڑھاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے الفاظ اور جملے اور پیراگراف، بڑے خیالات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، اور جب آپ کی سوچ حقیقت کا روپ دھارنے لگے تو سمجھ لیں کہ آپ کا سفر کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ جہد مسلسل بہت ضروری ہے۔ یہی بات استاد ابن الحسن عباسی مرحوم نے مجھے سمجھائی تھی۔
یہی وہ راستے اور طور طریقے ہیں جو آپ کو ایک بہترین لکھاری بنا سکتے ہیں ، ایک ایسا لکھاری جو اپنی تحریر سے نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے بلکہ لوگوں کے دلوں کو بھی چھو لیتا ہے۔ لکھنا ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے، جس میں ہر موڑ پر ایک نیا منظر اور ایک نئی کہانی آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
اس مختصر تحریر میں کوشش کی ہے کہ آسان بھاشا(زبان) میں آپ کو بتا سکوں، امید ہے آپ سنجیدگی سے لیں گے۔