بہت سے نوجوان بہتر تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہیں۔ یہ تجربات ان کے لیے ترقی کے مواقع لاتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ، وہ اپنی اسلامی اقدار اور اصولوں کو بھولنے لگتے ہیں۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا اور اس کے حل کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہے۔
سب سے پہلے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیوں بیرون ملک جانے والے نوجوان اسلامی اصولوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک کی ثقافت اور معاشرتی ماحول اکثر اسلام سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ جب ہمارے نوجوان ان ثقافتوں میں گھل مل جاتے ہیں، تو وہ اکثر ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ غیر مسلم تہوار منانا، ان کے طرز زندگی کو اپنانا اور ان کی روایات کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا عام بات ہو جاتی ہے۔
اس مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ اکثر والدین اپنے بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ جب بچوں کو اسلام کی بنیادی باتیں سکھائی نہیں جاتیں، تو وہ آسانی سے غیر ملکی ثقافتوں کے اثرات میں آ جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں” (التحریم 66:6)
اس آیت سے والدین کی ذمہ داری واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات فراہم کریں اور ان کی تربیت کریں تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بچوں کا حق ہے کہ والدین ان کو اچھی تربیت دیں اور اچھے آداب سکھائیں” (سنن ابن ماجہ)
یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں اور ان کو اسلامی آداب سکھائیں۔
ایک اور حدیث میں ہے: "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔” (صحیح بخاری)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے جوابدہ ہیں۔
والدین کو اپنے بچوں کو نماز، روزہ، زکوة اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی اصول بھی سکھانے چاہئیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن اور حدیث پڑھنے کی ترغیب دیں اور انہیں اسلامی تاریخ اور اصولوں سے واقف کرائیں۔
والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے اور انہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ اگر بچوں کو شروع سے ہی مضبوط اسلامی تعلیم دی جائے، تو وہ بیرون ملک رہتے ہوئے بھی اپنی اسلامی شناخت برقرار رکھ سکیں گے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں” (صحیح بخاری)
یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بچوں کی ابتدائی تربیت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔
بچوں کی تربیت میں والدین کے ساتھ ساتھ اسکولوں اور مساجد کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اسلامی مراکز، مساجد، اور طلبہ کی انجمنیں تعلق کا احساس فراہم کر سکتی ہیں اور روحانی رہنمائی کر سکتی ہیں۔ یہ کمیونٹیز مذہبی تقریبات، مطالعہ کے حلقے، اور سماجی اجتماعات کا اہتمام کر سکتی ہیں جو اسلامی اقدار کو مضبوط کرتی ہیں اور تنہائی محسوس کرنے والوں کے لیے مدد کا نیٹ ورک فراہم کرتی ہیں۔
آج کی ڈیجیٹل دنیا میں، ٹیکنالوجی اور میڈیا مذہبی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے طاقتور اوزار ہو سکتے ہیں۔ اسلامی ایپس، آن لائن لیکچرز، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم مسلسل دینی تعلیم اور یاد دہانی فراہم کر سکتے ہیں۔ ان وسائل کے استعمال کی حوصلہ افزائی نوجوان مسلمانوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنے ایمان سے جڑے رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، نوجوان مسلمانوں کو اپنی ایمان کے ساتھ تنقیدی طور پر مشغول ہونے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ سوالات اور سمجھنے کی کوششوں کا خیرمقدم کرنے والا ماحول بنانا۔ اسلام کے ساتھ گہرا، ذاتی تعلق قائم کر کے، وہ اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جب متصادم ثقافتی اصولوں کا سامنا ہو۔
آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اسلامی اقدار کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری پوری کمیونٹی پر عائد ہوتی ہے۔ والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما، اور نوجوان افراد خود مل کر کام کریں تاکہ اسلام کی بھرپور وراثت غیر ملکی ثقافتوں کے پرکشش ہونے کے باوجود ضائع نہ ہو۔ اسلامی تعلیم کی مضبوط بنیاد فراہم کر کے اور گھر اور بیرون ملک دونوں جگہ معاون ماحول بنا کر، ہم اپنے نوجوانوں کو غیر مسلم ممالک میں رہنے کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جبکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ سچے رہیں۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ مضبوط کریں اور انہیں ایک روشن مستقبل کی طرف رہنمائی کریں۔ اگر ہم اپنے فرائض کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں، تو ہم اپنے نوجوانوں کو اسلامی اقدار کے ساتھ جوڑ کر ایک مضبوط اور بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔