اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ وہ توہین رسالت کے قوانین پر نظرثانی کرنے کو تیار ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد خان شیرانی نے کہا کہ وہ اس حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں اس قانون کے تحت دی جانے سزا انصاف پر مبنی ہے یا نہیں۔
اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو باضابطہ طور پر توہین رسالت کے قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوانا چاہیے، اس مسئلے پر متعدد علماء مختلف قسم کی رائے کے حامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بھجوائے جانے کے بعد کونسل تجویز دے سکتی ہے کہ آیا اس قانون کو اسی شکل میں رکھا جائے یا مزید سخت کیا جائے یا پھر اس میں نرمی کی جائے۔
ماضی میں اسلامی نظریاتی کونسل کم عمری میں شادی پر پابندی کو غیر اسلامی قرار دے چکی ہے تاہم شیرانی نے انٹرویو میں اس حوالے سے اپنے موقف سے آگاہ نہیں کیا۔
پارلیمنٹ میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کی نمائندگی کرنے والے مولانا شیرانی کا موقف ہے کہ شادی کے معاملے پر ریاست کو ایک حد تک ہی مداخلت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بلوغت کی عمر پر پہنچنے کے بعد ہر شخص کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی یونین کو مسترد کردے۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تین فیصد لڑکیوں کی شادی 15 سال سے بھی کم عمر میں کردی جاتی ہے جبکہ 21 فیصد 18 سال سے قبل بیاہ دی جاتی ہیں۔
شیرانی کے مطابق پاکستان کے متعدد قوانین، اسلامی قوانین سے مماثلت نہیں رکھتے اور وہ حکومت کو ان پر نظرثانی کرنے کی تجویز دیتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر کی جانب سے قتل کے مجرمان کو معافی کا اختیار دینا انہی قوانین میں سے ایک ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت مغربی ممالک کے مفادات کا دفاع کرتی ہے، حکومتی نظریے اور اسلام قوانین کو ایک نہ سمجھا جائے۔