[pullquote]پرویز مشرف اس ملک کی سیاست اور صحافت کا آئینہ ہیں۔[/pullquote]
سیاست دان، فوج، اہلِ صحافت،سب کی چہرے اس آئینے میں صاف نظر آ رہے ہیں ۔دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے نقش و نگار میں انصاف پسند ی کتنی ہے اورآئین پسندی کی شرح کیاہے؟یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم نے دوسروں کو جانچنے کے لیے یاد کر رکھے ہیں اور حسبِ ضرورت دھرا دیتے ہیں۔آج چھاج چھلنی کو طعنے دے رہا ہے۔حالانکہ ان میں چھلنی کوئی نہیں،سب چھاج ہی ہیں۔عمران خا ن کو بھی ایک مصرع یاد آگیا۔آج تحریکِ انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت کی صفِ اوّل مشرف کے سابقہ ہم نشینوں سے مملو ہے۔نو ازشریف صاحب صاحب ان کی باقیات کو سینے سے لگائے ہو ئے ہیں۔زمینی حقائق کے سامنے سب بے بس ہیں۔خواہشات سینے میں دبی رہ گئیں اور مشروف ہوا ہو گئے۔احسن اقبال صاحب نے جس طرح عذرِ گناہ پیش کیا ہے،وہ بد تر از گناہ تو ہے ہی،ان کی بے بسی کی بھی دلیل ہے۔وہ کھمبا نوچنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔
مشرف صاحب ہماری تاریخ کے عجیب و غریب کر دار ہیں۔کمانڈو ہونے کا دعویٰ لیکن بھاگنے میں سب سے آگے۔کوئی ان کے ساتھ اپنی نسبت کو پسند نہیں کرتا لیکن ان سے جان بھی نہیں چھڑا سکتا۔فوج ایک ایسے شخص کو کیسے پسند کرے گی جس نے عوام اور فوج کے مابین محبت کے دائمی سمجھے جانے والے رشتے کو پامال کیا۔ان کے عہد میں ایک فوجی کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ دروی کے ساتھ عوام کا سامنا کر تا۔اس کے باوجود فوج کو انہیں عدالت سے بچانا ہے اور قانون سے بھی۔سیاسی جماعتیں بھی کیسے پسند کریں گی کہ ان کی صفوں میں ، بطورایک سیاسی قائد ایساشخص بیٹھاہو جو آئین شکن ہو اور اس پر اِتراتا بھی ہو۔(چوہدری شجاعت حسین صاحب کا استثنا ہے۔)مذہبی جماعتیں بھی کیا یہ گورا کریں گی کہ لال مسجد سانحے کا ذمہ دار ان کی ساتھ اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں شریک ہو۔ماضی میں لیکن سب نے انہیں برداشت کیا اور بعض اب بھی حمایت کرنے پر مجبور ہیں۔کیا یہ منظر بہت سے لوگوں کے لیے باعثِ عبرت نہیں ؟کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے؟
یہ سیاسی حقائق کیا ہیں۔جنہوں نے سب کو بے بس کر رکھا ہے؟ آئیے ان پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
1۔ ’مقدس گائے‘ کا تصور ابھی زندہ ہے۔ابھی ایک طبقہ مو جو دہے جو آئین اور قانون سے ما ورا ہے۔بادل نخواستہ ہی سہی لیکن اس حقیقت کوبرادشت کر نا پڑے گا۔چیرمین سینٹ آئین کی دفعہ۶ کا نوحہ تو پڑھ سکتے ہیں،اس کے سوا کچھ کر نہیں سکتے۔پھانسی اور جلا وطنی فی الحال سیاست دانوں ہی کے لیے ہے۔
2۔سب کمزور ہیں اور اپنی اپنی کمزوریوں سے خوف زدہ بھی۔ہر کوئی دوسرے کو اس کی کمزوریوں سے خوف ذدہ رکھ کر،اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔سیاست دانوں کو جب جمہوریت کا جوش چڑھتا ہے تو کبھی کہیں سے کوئی ڈاکٹر عاصم برامد ہو تا ہے اور کبھی نیب کو مہمیز مل جاتی ہے۔کوئی دھرنانمودار ہوتا ہے یا غیر ملکی جائدادیں اور اکاؤنٹس میں پڑے ہیروں کے ذکر سے ٹی وی سکرین جھگمگا اٹھتی ہیں۔اس کے بعد رات کی تاریکی میں کوئی مشرف اڑان بھرتا اور وطن کی فضاؤں سے نکل جا تا ہے۔
3۔سول ملٹری تعلقات کا اونٹ ابھی تک کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا۔ماضی کی تلخیاں بدستور ان تعلقات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔کسی گروہ میں یہ اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اس سے نکل سکے۔ورکنگ ریلیشن شپ ایک مجبوری ہے لیکن بات اس سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دے رہی۔مارشل لگانا،عالمی سطح پر قابلِ قبول ہوگا نہ عوامی سطح پر۔اہلِ سیاست کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ بنیادی امور پرفیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔یوں کھینچا تانی ہے مگر احتیاط کے ساتھ۔
4۔سیاسی جماعتیں بدستور افراد کی گرفت میں ہیں۔ان کا کلچر قدیم قبائلی معاشرت پر کھڑا ہے ۔ایک خاندان کی اجارہ داری ہے یا ایک فرد کا رومان۔جمہوریت کا سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام سے دور کاواسطہ نہیں۔سیاست دان اب بھی اقتدار کو ذاتی کاروبار اور مفادات سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔یوں وہ دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مفاہمت پر مجبور ہیں۔
۵۔ ایسے سیاسی کردار ابھی ختم نہیں ہو ئے جوحادثے کے منتظر ہوتے ہیں۔دوسری طرف ان کی پشت پناہی کا سلسہ بھی ابھی قائم ہے۔اس فضا میں سب کو حادثے کادھڑکا لگا رہتا ہے۔دھرنے کے بعد تو اسے محض مفروضہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔یوں سب ایک دائرے میں متحرک رہنے پر مجبور ہیں۔
5۔،طاقت کے اصل مرکز سے مذہبی جماعتوں کے رابطے ابھی ختم نہیں ہوئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی اسلام اور قومی مفاد کے لیے بروئے کار آ سکتے ہیں۔
6۔کراچی میں ایک نیا سیاسی تجربہ ہو رہا ہے۔اس کا دائرہ ملک بھر میں پھیلا یا جا سکتا ہے۔عمران خان اپنے حصے کا کام کر چکے۔وہ دوبارہ ویسی ہی خدمت سر انجام نہیں دے پائیں گے۔ملک میں ہر وقت کم ازکم ایک ایسی سیاسی قوت مو جود رہنی چاہیے جو کسی وقت حکومت پردباؤ کے لیے استعمال کی جا سکے۔
7۔ گورننس کے مسائل اپنی جگہ مو جودہیں۔حکومت انفراسٹرکچر تو بنا رہی ہے لیکن وہ بنیادی عوامی مسائل کا حل دینے میں پوری طرح کامیاب نہیں۔آبادی کے دباؤ کے باعث یہ ممکن بھی نہیں کہ سب شہریوں کو صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جاسکیں۔اس پر مستزاد نااہلی اور کرپشن کے مسائل ہیں۔ظاہر ہے کہ محض انفراسٹرکچر سے تو عوام کا
اطمینان نہیں ہو سکتا۔حکومت امن و امان فراہم کرنے میں کامیاب نہیں۔یوں مایوسی موجودہے جسے کسی وقت مہمیز لگا کرسڑکوں پہ لا یا جا سکتا ہے۔
8۔میڈیا سمیت رائے ساز حلقے سماج کی فکری تربیت کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔یوں آئین اورقانون کی حرمت کے بارے میں معاشرے کو حساس نہیں بنا جا سکا۔جتنا ذکر کرپشن کی ایک خاص صورت کا ہوا ہے، اگر اس سے کہیں کم آئین پسندی کا ہوتا تو کوئی مشرف صاحب کی بچانے کی کوشش نہ کرتا۔مشروف صاحب چلے گئے اور اس پر معاشرہ خاموش ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئینی شکنی کو سماجی سطح پر کوئی بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا۔
یہ چند ایسے زمینی حقائق ہیں جن کی مو جو دگی میں پرویز مشرف صاحب کو روکنا مشکل تھا۔سیاست میں دعویٰ کرتے وقت صرف جذبات کو دیکھا جا تا ہے، ان حقائق کو نہیں۔انہی جذبات کے تحت چھ ماہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر نے کا دعویٰ کیا گیا۔ان ہی کا شاخسانہ تھا کہ احسن اقبال نے آمروں کے پشت بان نظام سے لاتعلق ہو نے کا اعلان کر دیا۔بعد میں ظاہر کہ زمینی حقائق نے خود کو تسلیم کرا لیا۔اب 2018 ء میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی اور احسن اقبال صاحب بھی اسی تنخواہ پر کام کر تے رہیں گے۔
میرا خیال ہے عوام کی تربیت بھی انہی خطوط پر کرنی چاہیے۔یہ کام اہلِ سیاست کا ہے اور رائے ساز حلقوں کا بھی ہے۔مقبولت کے لیے ہم آئیڈیلز کی بنیاد پر اپنی قیادت کو پرکھتے ہیں اور عوام کی تو قعات کو بڑھاتے ہیں۔اس سے مایوسی جنم لیتی ہے۔پرویز مشرف صاحب کا معاملہ واضح کر رہا ہے کہ سیاست میں سب سے اہم زمینی حقائق ہوتے ہیں۔خواہشات اپنی جگہ لیکن وزیر اعظم جیسا طاقت در آ دمی بھی مجبور ہے کہ ان حقائق کے سامنے سر جھکا دے۔میرا خیال ہے سب کو یہی کرنا چاہیے۔چھاج کوبھی اور چھلنی کو بھی۔