صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کیا جائے. امریکی کانگریس کا فیصلہ

بریکنگ: امریکی کانگریس نے صدر ڈانلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ تیسرے امریکی صدر ہیں جن کا امریکی کانگریس نے مواخذہ کیا ہے۔ اب امریکی سینٹ میں ان کے مواخذے کی کارروائی ہو گی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی دو قراردادیں امریکی ایوان نمائندگان میں منظور کر لی گئی ہیں۔امریکی صدر پر الزامات ہیں کہ انھوں نے یوکرین پر ذاتی سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور کانگریس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔امریکی ایوان نمائندگان میں ووٹنگ کے عمل کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ریاست میشیگن میں ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔

صدر ٹرمپ پر اب امریکی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں مقدمہ چلایا جائے گیا جس کی بنا پر وہ نومبر میں اپنے صدراتی عہدے کی معیاد ختم ہونے سے پہلے اقتدار سے برطرف بھی کیے جا سکتے ہیں۔لیکن ایسا ہونے کا امکان بہت کم پے۔

[pullquote]ڈونلڈ ٹرمپ کی برطرفی کیوں ممکن نہیں؟[/pullquote]

صدر کی برطرفی کے لیے سینیٹ کی دو تھائی اکثریت کو ان کے خلاف ووٹ دینا ہو گا۔ صدر ٹرمپ کی حکمران ریپبلکن پارٹی کو سو ارکان پر مشتمل ایوان بالا یعنی سینیٹ میں 53 نشستیں حاصل ہیں اور حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کو صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے 67 ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کو کم از کم 20 ریپبلکن ارکان کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا اور اس کے علاوہ انھیں دو آزاد نمائندوں کے ووٹ بھی حاصل کرنا ہوں گے۔

ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اور یہاں صدر کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی منظوری کے لیے دو تھائی کی شرط بھی نہیں ہے لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سینیٹ میں صورتحال بالکل مختلف ہو گی۔بی بی سی کے شمالی امریکہ کے امور کے مدیر جان سوپل کا کہنا ہے سینیٹ کے بارے میں زیادہ پختہ یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ریپبلکن ارکان کی اکثریت صدر ٹرمپ کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے حق میں ووٹ نہیں دے گی۔

سینیٹ میں حزب اقتدار کے رہنما مچ میکونل نے مواخذے کو ایک جانبدانہ اقدام قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ وہ مواخذے کے حق میں دلائل سنتے ہوئے غیر جانبدار نہیں رہ سکیں گے۔انھوں نے کہا ’وہ کوئی غیر جانبدار منصف نہیں ہوں گے۔ یہ ایک سیاسی عمل ہے یہ کسی طرح بھی انصاف کا یا عدالتی عمل نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ایوان نمائندگان کا صدر کے مواخذے کا ایک جانبدارنہ سیاسی فیصلہ ہے اور مجھے توقع ہے کہ سینیٹ میں اس کا ایک جانبدرانہ فیصلہ ہی ہو گا۔

[pullquote]خطرناک قدم[/pullquote]

امریکہ کی سیاسی تاریخ میں اس سے قبل دو صدور کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی گئی ہے جو سنہ 1868 میں اینڈریو جانس اور 1998 میں بل کلنٹن کے خلاف ہوئی تھیں۔ ان دونوں صدور کو سینیٹ سے ان پر عائد کیے گئے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے صدارتی انتخاب کے سال میں صدر ٹرمپ کو ان کے عہدے سے ہٹایا جانا سیاسی طور پر خاص خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔مواخذے کی کارروائی کے دوران صدر ٹرمپ کے لیے دوسری مدت کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہو سکتا ہے لیکن اس سے ان ڈیموکریٹ ارکان کے لیے اپنے حلقوں سے دوبارہ منتخب ہونا بھی مشکل ثابت ہو سکتا ہے جہاں صدر ٹرمپ کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے۔لیکن ان کے مخالفین نے یہ حکمت عملی اختیار کر کے سیاسی خطرات مول کیوں لیے ہیں؟

[pullquote]آئین کی بالادستی[/pullquote]

ڈیموکریٹ پارٹی کی عالمی امور سے متعلق شعبے کی سربراہ جولیا برائن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت واضح ہے کہ صدر کا مواخذاہ کرنے کے لیے الزامات کافی ہیں اور اگر وہ ان الزامات پر کارروائی نہیں کرتے تو وہ مستقبل کے لیے انتہائی غلط روایات قائم کریں گے۔جولیا برائن جو ڈیموکریٹ پارٹی کی نیشنل کمیٹی کی رکن بھی ہیں، نے مزید کہا کہ یہ ان کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس ان ثبوتوں سے نظر نہیں چرا سکتی جو اتنے واضح ہیں اور غیر جانبدار لوگوں نے ان کے سامنے پیش کیے ہیں۔صدر ٹرمپ اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ انھوں نے یوکرین کے صدر سے چار سو ملین امریکی ڈالر کی فوجی امداد کے عوض سابق امریکی نائب صدر جو بائڈن کے بیٹے کی کمپنی کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پولسی کو ایک غصے سے بھرے خط میں صدر ٹرمپ نے اپنے اختیار کے ناجائز استعمال کے الزام کو رد کرتے ہوئے نینسی پولسی پر الزام لگایا کہ انھوں نے جمہوریت کے خلاف کھلی جنگ شروع کر دی ہے۔انھوں نے کہا ’آپ نے ایک بدصورت لفظ مواخذے کی اہمیت کو انتہائی کم کر دیا ہے۔‘

[pullquote]انتخابی تعلق[/pullquote]

امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے ڈائریکٹر پروفیسر ٹوڈ ایل بیلٹ نے کا کہنا ہے کہ اس سب کا تعلق لازمی طور پر انتخابات سے ہے۔ان کے مطابق ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے حامی مواخذے کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ اگر انھوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا تو ہو سکتا ہے کہ ان کا انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔بالکل اسی طرح پروفیسر بیلٹ کے خیال میں ریپبلکن بھی یہی سوچ رکھتے ہیں کہ اگر انھوں نے صدر ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا تو ان کو ریپبلکن پارٹی کے حامیوں سے ووٹ نہیں ملے گا۔پروفیسر بیلٹ نے کہا کہ اسی بنا پر اس معاملے پر سیاسی بنیادوں پر تقسیم بڑھ رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ قدامت پسند حلقوں سے منتخب ہو کر آنے والے قانون سازوں کے لیے اسی لیے مواخذے کے حق میں کھل کر بات کرنا مشکل ہو گیا ہے۔میچیگن ریاست سے منتخب رکن کانگرس الیسا سلوتکن کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی کے فیصلے کے مطابق ووٹ ڈالیں گی اور یہ اعلان کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔انھوں نے کہا کہ وہ یقین سے کہہ رہی ہیں کہ جو وہ کر رہی ہیں درست کر رہی ہیں، ہو سکتا ہے کہ سنہ 2020 کے انتخابات میں ووٹر انھیں اپنا نمائندہ منتخب نہ کریں لیکن وہ امید کرتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

[pullquote]صدر کو دباؤ میں رکھنا[/pullquote]

ڈیموکریٹ کی طرف سے ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ مواخذے کی تحریک ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس سے صدر کو سیاسی دباؤ میں رکھا جا سکتا ہے۔مواخذے کی تحقیقات سے صدر ٹرمپ کے کاروبار اور ان کے رفقا پر کڑی نظر رکھنے میں مدد ملی ہے خاص طور پر ان کے ذاتی وکیل اور نیو یارک شہر کے سابق میئر روڈولف جولیانی۔جولیانی نے یوکرین میں سابق امریکی سفیر میری یوونواچ کی برطرفی میں اہم کردار ادا کیا کیوں انھوں نے محسوس کیا کہ وہ صدر کے خلاف ہیں۔پروفیسر بیلٹ نے کہا کہ انھیں بڑی حد تک یقین نے صدر، روڈولف جولیانی اور یوکرین میں ان کے شراکت داروں کے خلاف بہت سے مقدمات عدالتوں میں لائے جائیں گے۔ ’غالباً صدر کے کاروباری سودوں کے متعلق بھی کئی اور مقدمات۔‘انھوں نے کہا کہ مواخذے کے علاوہ بھی بہت سے ایسے طریقے موجود ہیں جن سے ڈیموکریٹ صدر ٹرمپ اور ان کے معاملات پر قوم کی توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں جو مزید ثبوت بھی سامنے آئیں گے وہ صدر کے لیے سیاسی طور پر انتہائی نقصان دہ ہوں گے۔

[pullquote]کیا اس کا اثر امریکی ووٹروں پر ہو گا؟[/pullquote]

ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ مواخذے کی کارروائی کا اگلا مرحلہ قوم کی زیادہ توجہ حاصل کرے گا۔عوامی رائے عامہ کے جائزے صدر ٹرمپ کو برطرف کیے جانے یا نہ کیے جانے کے بارے میں انتہائی منقسم رائے پیش کر رہے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ اور نشریاتی ادارے اے بی سی کے ایک مشترکہ جائزے میں جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق 49 فیصد لوگ اس حق میں ہیں کہ صدر کا مواِخذہ کیا جائے اور عہدے سے برطرف کیا جائے جبکہ 46 فیصد کی رائے اس کے خلاف ہے۔عوام کی مخالفانہ رائے کی وجہ سے صدر نکسن کو سنہ 1974 میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا کیونکہ ان کا مواخذہ اور عہدے سے ہٹایا جانا بالکل یقینی تھا۔لیکن پروفیسر بلیٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی ایوان بالا میں اکثریت اور ان کی مواخذے کو مکمل طور پر سیاسی انتقام ثابت کرنا ان کی اقتدار سے علیحدگی کو بعید از امکان بنا دیتا ہے۔صدر نکسن کی دفعہ ڈیموکریٹ نے آہستہ آہستہ اور قطرہ قطرہ کر کے حقائق کو عوام کے سامنے پیش کیا تھا جس کے نتیجے میں انھیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔اس عمل کو طول دینے سے ہو سکتا ہے کہ ڈیموکریٹ کچھ اور جرائم اور زیادہ ٹھوس شواہد سامنے لا سکیں لیکن وہ اس سارے معاملے کو جلد از جلد نمٹانا چاہ رہے ہیں تاکہ وہ دوسرے امور پر بھی توجہ دیں سکیں جن سے ان کو انتخابات میں مدد حاصل ہو سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے