کیا ساس کوئی ’لعنت‘ ہے؟

[pullquote]انڈیا میں ساس پر ہوئی تحقیق سے کیا نتائج سامنے آئے ہیں؟[/pullquote]

’چالاک‘ بیویاں اور ’زن مرید‘ مرد ہوتے ہیں لیکن شاید ان میں سے کوئی بھی خوشدامن (ساس) کے مبینہ جابرانہ اور منافقانہ رویے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

برطانیہ کے معروف مصنف جی کے چیسٹرٹن نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کامکس میں ’خراب ترین ساس کو عفریت کے طور پر دکھایا جاتا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بہترین ساس ایک مسئلہ ہے۔‘

انڈیا میں بھی ساس کو بے رحم طنز اور مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھیں ہر چیز پر ’کنٹرول رکھنے کا خبط‘ پالنے والا کہا جاتا ہے۔ یہاں چونکہ زیادہ تر خواتین شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر رہنے جاتی ہیں اس لیے ان کی ساس کے ساتھ ان کا رشتہ بہت اہم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ان کی زندگی کے تجربات ساس کی مثالی خراب ساکھ میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

اس طرح انڈیا میں ساس کو ہمیشہ بالی وڈ کی سدا مشکلات سے دو چار درد غم سہنے والی ماں کا متضاد کہا جاتا ہے۔ اس کی حاکمانہ شخصیت ہوتی ہے جو اپنی بہو سے سارے اختیارات لے لیتی ہے، اور اپنے بیٹے اور مشترکہ کنبے پر مضبوط گرفت رکھتی ہے۔

وہ انڈیا کے سب سے زیادہ دنوں تک چلنے والے ٹی وی سیریل ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا قدرے گھمایا ہوا عنوان بھی ہے۔

لیکن اب ساس ایک سنجیدہ اکیڈمک تحقیق کا موضوع ہے اور یہ اپنی قسم کی شاید پہلی تحقیق ہے۔

سنہ 2018 میں بوسٹن اور دہلی کے محققین نے اترپردیش کے قدامت پسند ضلعے جونپور کے 28 گاؤں کی 18 سے 30 سال کی 671 شادی شدہ خواتین سے بات کی۔ اترپردیش شمالی انڈیا کی ایک گنجان آباد ریاست ہے جہاں کی آبادی برازیل جیسے ملک کے برابر ہے۔

جن خواتین سے بات کی گئی ان کی اوسط عمر 26 سال جبکہ ان کے شوہروں کی اوسط عمر 33 سال تھی۔ ان میں سے اکثریت ہندو مذہب اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان تھے۔ 60 فیصد کے گھروں کے پاس کاشتکاری کی زمین تھی اور تقریبا 70 فیصد خواتین اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھیں۔

تحقیق کرنے والوں نے ان خواتین سے ان کے سماجی رشتوں، رشتے داروں، گھر کے باہر کے دوستوں/سہیلیوں کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کیے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ان کے سماجی رشتے میں ان کی ساس کا کتنا کردار ہے؟ ان کی آزادی، طبی سہولیات کے حصول اور دیکھ بھال پر اس کے اثرات کتنے ہوتے ہیں؟

تحقیق کرنے والوں کو جو پتا چلا اس نے حقیقت اور فسانے کو تقسیم کرنے والی لکیر کو مدغم کر دیا تھا۔

انھیں پتا چلا کہ جو خواتین اپنی ساس کے ساتھ رہتی ہیں انھیں نقل و حرکت اور اپنے گھر یا کنبے سے باہر سماجی رشتے بنانے کی بہت کم آزادی ہے۔ زیادہ نقل و حرکت سے انھیں زیادہ معلومات، اپنے جیسوں کے ساتھ رشتے بنانے، خود اعتمادی حاصل کرنے اور حوصلے کو تقویت دینے میں مدد ملتی۔ ان ذرائع سے انھیں صحت کے متعلق، زرخیزی اور پیدائش پر کنٹرول کے متعلق زیادہ معلومات حاصل ہوتیں۔

لیکن جتنی خواتین سے بات کی گئی ان میں سے تقریبا 36 فیصد خواتین کے پاس پورے ضلعے میں کوئی بھی قریبی دوست/سہیلی یا رشتہ دار نہیں تھا اور ان میں سے 22 فیصد کے پاس تو کہیں بھی کوئی قریبی دوست یا رشتہ دار نہیں تھا۔ صرف 14 فیصد خواتین کو تنہا صحت کے مراکز تک جانے کی اجازت تھی اور صرف 12 فیصد کو گاؤں میں اپنی دوست، سہیلی یا رشتے دار کے گھر تنہا جانے کی اجازت تھی۔ اپنے شوہر اور ساس کے علاوہ جونپور میں اوسطا خواتین اہم معاملوں میں دو سے کم ہی افراد سے رابطہ کرتی نظر آئیں۔

تحقیق کرنے والوں نے خواتین کے دو گروپ بنائے۔ ایک جو اپنی ساس کے ساتھ رہتی ہیں اور دوسری جو ساس کے ساتھ نہیں رہتی ہیں اور انھوں نے ان کے درمیان اوسط قریبی سہیلیوں اور رشتہ داروں کی تعداد کا موازنہ کیا۔ قریبی سکھی یا سہیلی وہ خواتین تھیں جن کے ساتھ وہ اپنی صحت، زرخیزی اور بچے کی پیدائش کے بارے میں بات کرتی تھیں۔

انھیں پتا چلا کہ جو اپنی ساس کے ساتھ رہتی ہیں ان کے پاس ان کے گاؤں میں 18 فیصد کم سہیلیاں تھیں۔ ان کی ساسوں کی جانب سے انھیں ’فیملی پلاننگ کے لیے‘ تنہا کہیں آنے جانے پر پابندی کی وجہ سے ان کے سماجی رشتے بننے میں روکاوٹیں آئیں۔

بعض اوقات ساس کو بہو کی خواہش کے برعکس زیادہ بچے چاہیے ہوتے ہیں بطور خاص زیادہ بیٹے۔ 48 فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کی ساس نے فیملی پلاننگ کو نامنظور کر دیا۔ اگر شوہر باہر کام کرتا ہے اس صورت میں ساس اپنی بہو کی نقل و حرکت، میل جول اور آزادی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔

بوسٹن یونیورسٹی اور دہلی سکول آف اکنامکس، نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی اور بوسٹن کالج کے محققین کا کہنا ہے کہ ’ساس کا پابندیاں عائد کرنے والا رویہ ان کے بچہ پیدا کرنے اور فیملی پلاننگ کے متعلق ان کے نظریے کا نتیجہ ہوتا ہے۔۔۔ جن خواتین کے پاس کنبے یا گاؤں سے باہر کم سہیلیاں یا رشتے دار ہوتے ہیں ان کے بارے میں قوی امکان ہے کہ انھیں عمل تولید، بچہ پیدا کرنے یا فیملی پلاننگ اور مانع حمل کے جدید طریقوں کے متعلق طبی سہولیات کم میسر ہوں گی۔‘

انڈیا کے دیہاتوں میں زیادہ تر نوجوان خواتین اپنے شوہر یا اپنی ساس کے مقابلے میں اپنے ذاتی معاملات اور ذاتی خدشات کے بارے میں کم لوگوں سے باتیں کرتی ہیں۔ مطالعے میں جن خواتین کو نمونے کے طور پر شامل کیا گیا ہے انھوں نے بتایا کہ جونپور ضلع میں ان کی دو سے کم ہی قریبی سہیلیاں یا رشتے دار ہیں۔

اس کے مقابلے میں امریکہ میں سنہ 2004 میں ہونے والے گیلپ سروے میں یہ پایا گیا تھا کہ عام طور پر وہاں کسی خاتون کے اوسطا آٹھ قریبی دوست ہوتے ہیں۔ چونکہ صرف 33 فیصد خواتین کے پاس انڈیا میں موبائل فونز ہیں اس لیے دور دراز کے رابطے ویسے ہی محدود ہیں۔

ایسا نہیں کہ ساس کے ساتھ رہنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ تحقیق میں پتا چلا ہے کہ دوران حمل صحت کی دیکھ بھال جیسے بعض معاملوں میں ان کی موجودگی فائدہ مند رہی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ ساس کی موجودگی بہت حد تک خاتون کی خودمختاری پر قدغن ہے۔

ایسے میں یہ جائے حیرت نہیں کہ انھوں نے اپنے مطالعے کا عنوان ’کرس آف ممی جی‘ یعنی ساس کی لعنت رکھا ہے۔ اس اصطلاح کو اکانومسٹ میگزین نے طنزیہ طور پر سنہ 2013 میں شائع ہونے والے انڈین ساس پر اپنے ایک مضمون میں استعمال کیا تھا۔

وہ مضمون زیادہ مثبت لہجے پر ختم ہوا تھا۔ میگزین نے نیوکلیر فیملی میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’رو بہو کے حق میں بہہ رہی ہے۔‘ لیکن انڈیا کے زرخیز گاؤں میں تبدیلی منجمد ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے