غار حرا اور پاکستانی زائرین کا کچرا

سال2019 یکم جولائی کو عمرے کی ادائیگی کے بعد مقامات مقدسہ کی زیارات کا ارادہ ہوا- ہمارا سب سے پہلا انتخاب غار حرا تھا ۔ یہ وہ غار ہے جس میں اعلان نبوت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلوت کے لئے جایا کرتے تھے ۔ اور اسی غار میں آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی ۔ یہ غار جبل نور پر تقریبا 2100 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

بچوں کے ہمراہ عقیدت کا یہ سفر صبح آٹھ بجے شروع ہوا۔ موسم گرم تھا ۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والےٹیکسی ڈرائیور گل خان نے مرکزی سڑک سے کافی اونچائی پر جا کر ایک مقام پر ہمیں اتارا – جہاں سے پہاڑی پر چڑھنے کا راستہ شروع ہوتا ہے۔ جبل نور پر چڑھنے کے لئے کچی پکی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں جنہوں نے اس سفر کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

بہرحال سفر کے دوران دوسرے مسافروں سے گفتگو کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ان میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔ ایک ساٹھ سے ستر سالہ خاتون نظر آئیں جو ہاتھ میں لاٹھی ٹیکے انتہائی مشکل کے ساتھ اوپر جا رہی تھیں۔ ایک نوجوان پر نظر پڑی جو اپنے سات سالہ بچے جس کی ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا تھا کو اٹھائے اوپر کی طرف رواں دواں تھا۔ ان کی یہ عقیدت دیکھ کر مزید حوصلہ بلند ہوا۔

لیکن جوں جوں میں بلندی کی طرف جا رہا تھا ۔ اپنے ارد گرد کا ماحول دیکھ کر میرے غصے اور شرمندگی کے جذبات عقیدت پر غالب آ رہے تھے ۔ میں ان ہی سوچوں میں غلطاں تھا ۔ کہ میری آٹھ سالہ بیٹی نے کہا ۔ بابا جانی ، ہمیں اپنے ساتھ کچھ خالی تھیلے لانے چاہئے تھے ۔ اگرچہ میں اس کی بات کو سمجھ گیا تھا لیکن پھر بھی میں نے سوال کیا کہ کیوں؟ تو اس نے کہا کہ آپ اس پہاڑ کو دیکھ رہے ہیں۔ اس پر کتنی گندگی ہے ۔ یہ لوگ پلاسٹک کی بوتلیں ، شاپر ، چپس کے پیکٹ یہاں کیوں پھینکتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اگلی دفعہ ہم اپنے ساتھ خالی بیگ لائیں گے اور یہ سارا کچرا بیگز میں بھر کر نیچے لے جائیں گے۔

غار حرا پر جانے کے لئے تقریبا ہر ایک اپنے ساتھ پلاسٹک بیگز میں تین چار پانی یا جوس کی بوتلیں ، اور کھانے پینے کا سامان ضرور لے جاتا ہے ۔ لیکن یہ سارا سامان واپس نہیں آتا ۔ لوگ یہ سارا گند ارد گرد راستوں میں پھینک دیتے ہیں ۔ کچھ منچلے پانی کی بوتل خالی کر کے اونچائی سے نیچے پھینک کر اس کے لڑھکنے کا مزا لیتے ہیں ۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ان میں اکثر پاکستانی زائرین تھے۔

14 اگست کے بعد اسلام آباد میں انتظامیہ کی طرف سے پلاسٹک بیگز پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔ کچھ لوگ اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ یہ صرف اسلام آباد کا مسئلہ نہیں ہے ۔ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ آپ جس گلی ، محلے یا سڑک پر سفر کریں ۔ کچرے میں سب سے نمایاں چیز پلاسٹک کے یہ شاپر ہیں ۔ پلاسٹک شاپر ایسے مواد سے تیار ہوتا ہے ۔ جو پانچ سو سال تک بھی باقی ریتا ہے اور ماحول کو آلودہ کرتا ہے ۔

پلاسٹک شاپر کے علاوہ بھی عمومی طور پر ہمیں ہر جگہ کوڑا کرکٹ پھینکنے کی عادت ہے ۔ اور یہ عادت ہم عقیدت کے سفر میں بھی برقرار رکھتے ہیں ۔ خدارا اپنے ملک کے ساتھ ساتھ غار حرا جیسے مقدس مقام کو کچرے سے نجات دلائیں۔ اپنے عمرے اور حج کی عبادات کو مقدس مقامات پر کوڑا پھینک کر ضائع نہ کریں ۔

سویٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والی میری ایک کولیگ جو پراجیکٹ مکمل کر کے واپس جا رہی تھیں ۔ ان کے چار سالہ بچے سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان کو یاد کریں گے۔ بچے نے جواب دیا کہ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے ۔ مجھے بہت یاد آئے گا ۔

میں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں یاد کریں گے ؟ تو اس نے ناراضگی والے انداز میں کہا کہ نہیں۔ بلکل بھی نہیں۔ مجھے آپ لوگ اچھے نہیں لگتے ۔ کیونکہ آپ لوگ اپنے ملک سے پیار نہیں کرتے ۔

میں نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا۔؟
تو اس نے جواب دیا : کیونکہ آپ لوگ اپنا کچرا ، کار سے باہر پھینکتے ہیں ۔
اور میں لاجواب ہو گیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے