پشتونوں اورپنجابیوں کے مابین اڑھائی سو سال سے جاری نسلی تعصب

پشتونوں اورپنجابیوں کے مابین اڑھائی سو سال سے جاری نسلی تعصب کو ہمیشہ حکمرانوں ، انگریزوں ، قوم پرست سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اس طرح استعمال کیا کہ دونوں فریقین کے مابین فاصلے ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے اور ان ہی اختلافات سے اقتدارکے سنگھاسن پربیٹھے افراد نے فائدہ اٹھایا، پاکستان میں یکجہتی کے متعدد دعوؤں کے باوجود عوامی سطح پر آج بھی پنجابی اورپشتون کے مابین ایک بہت بڑاخلاء موجود ہے، جس سے مزید غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں۔

[pullquote]پنجابی اورپشتون ایک دوسرے کو نسلی تعصب کے پیرائے میں کس نام سے پکارتے ہیں؟[/pullquote]

نسلی تعصب کے شکار پنجابی پشتونوں کےلئے کابلے،خردماغ،کشتری،بیٹیوں کوبیچنے والے،بچہ باز اور نشئی جیسے ناموں کااستعمال کرتے ہیں ، اسی طرح تعصب کے شکار پشتونوں نے بھی پنجابیوں کے متعلق ناموں کی ایک طویل فہرست بنائی ہے، جس میں وہ کسی بھی پنجابی کو دال خور،کل مونہی،روجہ خور،ٹیزمار،بے غیرت اور ہیرامنڈی کی اولاد کے ناموں سے پکارتے رہتے ہیں، ان ناموں کے مسلسل استعمال کے باعث دونوں نسلوں کے مابین فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں، ان فاصلوں کے خاتمے کےلئے کبھی بھی موثر انداز میں کوششیں نہیں کی گئیں۔ ان غلط ناموں کااستعمال قوم پرست سیاستدان دھڑلے سے جلسوں میں کرتے ہیں جس کے باعث عام ورکر بھی اس تعصب کاشکاررہاہے۔

[pullquote]پنجابی اورپشتون نسلی تعصب کاآغازکب ہوا؟؟؟[/pullquote]

تقریباًاڑھائی سوسال قبل جب احمدشاہ ابدالی نے 1760ء سے 1763ء تک ہندوستان پرمتعدد حملے کئے، توانہوں نے پنجاب کی سرزمین پر سکھوں کاقتل عام کیا، تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہے کہ سکھوں کےساتھ مشہور لڑائی وڈاغلوگارہ اور ہری مندر (گولڈن ٹیمپل) کے قریب لڑائیوں میں ہزاروں کی تعداد میں سکھوں کوماراگیا، محقق ڈاکٹرنفیس الرحمن کہتے ہیں ہری مندرجوسکھوں کےلئے سب سے مقدس گوردوارہ تصورکیاجاتاتھا، کواحمدشاہ ابدالی کی فوج نے بارود سے اڑادیا، دیوالی کے موقع پر کئے گئے اس حملے میں ہزاروں کی تعدادمیں سکھ مارے گئے تھے، ان کے مطابق اگرچہ سکھ اپنی نسل کے لاکھوں افرادکے قتل کادعویٰ کرتے ہیں ، لیکن یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ وہ مزیدبتاتے ہیں کہ سکھ مذہب کی جنم بومی پنجاب ہے ، اس لئے سکھوں کی بیشترتعدادکاتعلق بھی پنجاب سے ہی ہے اور احمدشاہ ابدالی کے حملوں کے بعد ان کے بیٹے تیمور اور اگلی نسلوں نے بھی ہندوستان پر قبضے کو برقراررکھنے کےلئے پنجاب میں سکھوں کاقتل عام کیا، سکھوں کے کئی مقدس تاریخی کتابوں کے مطابق احمد شاہ ابدالی کے حملوں میں ایک لاکھ سے زائد سکھوں کو مارا گیا تھا۔

1820ءکے بعد جب ہری سنگھ نلوااوررنجیت سنگھ نے پشاورپرقبضہ کیا تو سکھ احمدشاہ ابدالی کے حملوں کو نہیں بھولے تھے اور انہوں نے کئی عشرے گزرنے کے باوجود پشتونوں سے اپنابدلہ لیا، پشاورمیں تعینات سکھوں کے انگریز گورنر ابو طبیلہ نے پشتونوں کے قتل عام میں وہ داستانیاں رقم کیں کہ جسے سن کر دل پسیج جاتا ہے، سکھوں کاخیال تھاکہ ہرپشتون احمدشاہ ابدالی کی نسل سے ہے، جب کہ دوسری جانب ہرپشتون سکھ کو پنجابی کے نام سے پکارتاتھا اور یوں مذہبی بنیادوں پر پیداہونے والی نفرت نے نسلی تعصب کی شکل اختیار کی۔ انگریزمحققین کے مطابق برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے سکھ فوجیوں کو پشتونوں اور اس کے مقابلے میں ان کے پشتونوں فوجیوں کو سکھوں کے خلاف پنجاب میں استعمال کیا تاکہ نسلی تعصب برقراررکھ سکے۔

[pullquote] انگریزوں نے نسلی تعصب کو ہوا دینے کےلئے کیا کردار ادا کیا؟؟؟[/pullquote]

سرونٹسن چرچل اپنی کتاب ”دسٹوری آف د ملاکنڈفیلڈفورس“میں لکھتے ہیں کہ سکھ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق لمبے بال رکھتے تھے جبکہ پٹھان سنت نبویﷺ پر عملدرآمد کرتے ہوئے سر کے بالوں کو کاٹتے تھے ، پشتون شراب نوشی سے نفرت کرتے تھے اس کے مقابلے میں سکھ دل کھول کر شراب پیتے تھے ۔ سکھ اپنے مردوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد جلاتے اور پشتون اسے نہ صرف براسمجھتے بلکہ انکاخیال تھاکہ اگر وجود مسخ ہوجائے تو وہ جنت نہیں جاسکتے۔ چرچل اپنی کتاب میں مزیدلکھتے ہیں کہ پشتون ایک اچھا سپاہی ، نشانہ باز اور سخت گیر رویے کامالک ہے ، پشتون پہاڑوں میں چلنے کو ترجیح دیتاہے، لیکن ان کی خامی یہ ہے کہ وہ تعلیم وتجربے کے بجائے اپنی جبلت پریقین رکھتاہے، جنگ اس کے خان کو حصہ ہے، لیکن وہ نفاست پسندبھی نہیں ہے اور کنجوس بھی بہت ہے۔

انگریزمحققین مزید بتاتے ہیں کہ 1897ء میں جب موجودہ خیبرپختونخواکے مختلف علاقوں میں انگریزوں کےخلاف بغاوت کاسلسلہ شروع ہوا تو سکھوں نے پشتون نسل کشی میں انگریزوں کی بھرپورمعاونت کی، مہمند قبائل نے جب شبقدرکے قلعے پر حملہ کیا اور اپنے ساتھیوں کو چڑا کر لے گئے، تو پٹیالہ کے راجہ راجندرسنگھ نے مہمنداورباجوڑمیں بغاوتوں کوکچلنے کےلئے انگریزوں کو بھرپور فوجی مدد فراہم کی حتیٰ کہ راجندرسنگھ نے خودمہمند کی تحصیل پنڈیالی اور باجوڑ میں کئی دیہات کو اپنے ہاتھوں سے جلایا، اس مالی اور عسکری معاونت پر انگریزوں نے پٹیالہ کے مہاراجہ کو سٹارآف انڈیا کاتمغہ بھی دیا، کہاجاتاہے کہ365 بیویوں کے شوہر راجندرسنگھ جب مہمند اور باجوڑ میں میں دیہات کو جلا رہے تھے تو ساتھ ہی یہ نعرے لگاتے رہے کہ انہوں نے ہری مندر کے قتل عام کا بدلا لے لیا۔

اسی طرح پنجاب میں سکھوں نے کئی مقامات پرجب پشتونوں کو شکست دی تو عنان حکومت سنبھالنے کے بعد مقامی پشتونوں کو یہ پیشکش کی کہ یا تو مرنے کےلئے تیار ہو جائیں یا سکھ مت اختیارکرلیں ، بعض محققین کہتے ہیں پشتونوں اورسکھ حکمرانوں نے اپنے ادوارحکومت میں بڑی تعداد میں مخالف فریق کی خواتین کی اپنے فوجیوں سے شادی رچائی ، اس دوران مذہب کے نام پر قائم ہونے والی سید احمد شہید بریلوی نے بھی سکھوں کےساتھ کئی لڑائیاں لڑیں ،جس کے باعث سکھوں اور پشتونوں کے مابین فاصلے مزید بڑھ گئے۔

[pullquote]قیام پاکستان کے بعد کیاہوا؟؟؟[/pullquote]

تین جون 1947ء کے منصوبے کے تحت جب پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا تو مغربی پنجاب پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ ٹھہرا،اس دوران جب پشتون قوم پرستوں کی بجائے مسلم لیگ کے خان عبدالقیوم خان کی خیبرپختونخواحکومت میں قائم کی گئی ، تو انہوں نے قوم پرستوں کے خلاف شدیدمعاندانہ رویے اپنائے رکھا، اس وقت کے قوم پرست رہنما باچاخان اوردیگرپشتون خان عبدالقیوم خان پنجاب کااعلیٰ کارکہتے تھے۔

اگست1947میں باچاخان کی زیرصدارت چھپنے والے پختون میگزین میں طوفان سرحدی پٹھانستان کے نام سے اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں کہ پشتونوں کاپنجابیوں کےساتھ زندگی گزارنامحال ہے، بہت مشکل ہے، کیونکہ پاکستان کی دی ہوئی میٹھی گولیاں زہرکے برابر ہیں، کہاجاتاہے کہ اس دوران پختون قوم پرستوں نے کھل کرپنجابیوں کی مخالفت کی، تودوسری جانب پنجابی قوم پرستوں نے بھی پشتونوں کے متعلق مخالف رویے اپنائے رکھا ، اس دوران دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے اور عوام کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کوہوا دی گئی ، پختون قوم پرستوں کاخیال تھاکہ آبادی میں اضافے کے باعث پنجاب نے پورے پاکستان کے وسائل پرقبضہ کیاہواہے، پن بجلی کی سب سے زیادہ پیداوارکے باوجود واپڈا ہاؤس لاہور میں بنایاگیا۔ پنجاب نے ہمیشہ پختونخوا کے حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

اسی طرح پنجاب استعمار کالفظ استعمال کرکے پشتون قوم پرست سیاستدانوں نے اپنے ورکرزکوبتایاکہ نہ توہمیں اپنے وسائل پرحق دیاجارہاہے اور نہ ہی ہمیں ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کےلئے قانون سازی ہورہی ہے، افغان روس جنگ کے دوران پختون قوم پرستوں نے دل کھول کر اس جنگ کی مخالفت کی، تاہم پنجابیوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ کو پاکستان کی بقا کی جنگ کہتے تھے ، رہی سہی کسر پنجاب پولیس کے معاندانہ رویے نے پوری کردی ، جو کسی بھی پشتون کو گرفتارکرکے اس کی نسل کو تھانوں میں گالیاں دیتے تھے اور معمولی جرائم پر پشتونوں کو حراست میں لیتے تھے، 2017ءمیں پنجاب کے مختلف علاقوں میں مارکیٹوں کے باہر اشتہارات لگائے گئے کہ اگر پٹھان شکل و صورت یا لباس میں کوئی مشکوک بندہ نظر آئے تو فوراً پولیس کو اطلاع دی جائے۔ 2008ءکے قبائلی علاقوں میں شروع کئے جانےوالے فوجی آپریشن کے بعد پنجاب حکومت نے بے گھر ہونےوالے افراد کے پنجاب داخلے پر پابندی عائد کی جس کے باعث رویوں میں مزید سختی آگئی ۔

[pullquote]کیاپنجابیوں کے دل میں شمال کاخوف اب بھی موجود ہے ؟؟؟[/pullquote]

ہندوستان پرہمیشہ حملے شمال مغرب کی جانب سے ہوئے ہیں ، جو محمد غوری کے دور سے لیکر مغلوں تک جاری رہے ۔ ان تمام جنگوں کے دوران پنجاب میں قتل عام کا بازارگرم کئے رکھا۔ تجزیہ کار اورمحقق غلام دستگیر کہتے ہیں کہ پنجاب پرہمیشہ شمال کی طرف سے حملے ہوئے ہیں، انگریزوں نے صرف ایک حملہ جنوب مشرقی علاقوں سے کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی ذہنوں میں شمال کی جانب سے حملوں کا خوف ہمیشہ سے موجود رہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں روابط کے فقدان کے باعث پشتونوں اور پنجابیوں کے مابین ایک بہت بڑی خلیج قائم رہی ، لیکن جدید دورمیں روابط کے باعث ان فاصلوں پر کافی حد تک قابو پایاگیاہے، ان کے مطابق پشتون قوم پرستوں نے ہمیشہ جس پنجابی استعمارکانعرہ استعمال کیاہے ، ان کو ان جماعتوں کے سیاسی ورکرز نے استعمارکی بجائے ہرپنجابی سے تعبیرکیاہے اور ہر ورکر کو پنجابی استعمارکی شکل میں نظرآتارہا ۔

اس دوران گریٹرپختونستان اور لراوربر پشتون کے نعرے جولگائے گئے ، اس نے اسٹبلشمنٹ کو جواز فراہم کیا کہ پشتونوں کواپنے حقوق اس طریقے سے نہ دیئے جائیں، جس طرح انکاحق ہے اور یوں اسٹبلشمنٹ میں پنجاب کا پلڑابھاری رہا، لیکن پنجابیوں کی ایک بہت بڑی تعداد جس میں فیض احمدفیض اورحبیب جالب جیسی شخصیات سرفہرست رہی ہیں ، انہوں نے ہمیشہ پنجابی اسٹبلشمنٹ کی کھل کر مخالفت کی ہے ، ان کے مطابق حبیب جالب نے جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا کا نعرہ لگا کر دوسری قوموں کےلئے پنجاب میں آواز اٹھائی۔ غلام دستگیر مزید بتاتے ہیں اگر روابط کو مزید بڑھایاجائے ، تو پنجاب اورپشتونوں کے مابین نسل تعصب کافی حد تک ختم ہوسکتا ہے۔

[pullquote]پشتون قوم پرست سیاستدانوں کے پنجابیوں کے ساتھ تعلقات کیسے رہے؟؟[/pullquote]

جلسوں کے دوران قوم پرستوں کی جانب سے پنجابی استعمار کے نعرے لگانے کے باوجود پشتون سیاستدانوں کے پنجابیوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق خان عبدالولی خان خاندان کے علاوہ بلور خاندان کے شریف خاندان کے ساتھ انتہائی قریبی اور ذاتی نوعیت کے تعلقات رہے ہیں۔ حتی کہ بعض پشتون سیاستدانوں کی پنجابی سیاستدانوں کے ساتھ خاندانی رشتے بھی قائم ہوئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے