گاندھی جی آپ بیتی

[pullquote]انگلستان میں تعلیم : [/pullquote]

انگلستان میں تعلیم کے لئے جانے پر ان کی برادری کے لوگ ان کو برادری سے خار ج کردیتے ہیں ، ان کےدھرم میں سمندر پار جانے کی ممانعت ہے ، وہاں آدمی دھرم کے خلاف کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، اسے انگریزوں کے ساتھ کھانا پڑتاہے ، اکثر لوگ ادھر جاکر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دوسری اقوام کے حوالے سے بے بنیاد خیالات اور اپنے مذہب میں توہمات پر مبنی تعلیمات آج بھی ہمارے اندر پائی جاتی ہیں ۔ آدمی میں آنے والی تبدیلیاں واقعی دھرم اور ملک کے خلاف ہوتی ہیں یا وہ ایک نئی دنیا کو دیکھ کر بعض چیزیں اپنانا ضروری سمجھتا ہے ، گاندھی جی میں کس نوعیت کی تبدیلیاں آئیں اور کن چیزوں میں انہوں نے بالکل کمپرو مائز نہیں کیا اس کا وہ آپ بیتی میں ذکرکرتے ہیں ۔

گاندھی جی عہد کرتے ہیں وہ کبھی گوشت نہ کھائیں گے ، شراب نہ پییں گے ، عورت کو ہاتھ نہ لگائیں گے ۔ اپنی ماں کے ساتھ کیے ہوئے اس وعدے کی ان کے ہاں اس قدر اہمیت ہوتی ہے کہ وہ انگلستان کے سخت موسم میں اپنی طاقت کی بحالی کے لئے بھی گوشت نہیں کھاتے ہیں ، ان کے دوست ان کو بہت مجبور کرتے ہیں ، ابتداء میں مرضی کا کھانا ملنا بھی مشکل ہوتاہے لیکن اس دوران وہ تمام سخت حالات برداشت کرتے ہیں لیکن اپنا وعدہ نہیں توڑتے ہیں ۔ صرف اس لئے کہ انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کر رکھا ہے ۔ انگلستان کے ماحول میں شراب اور عورت سے بھی ان کو سابقہ پڑتاہے لیکن وہ ان سب چیزوں سے بچے رہتے ہیں۔ گناہوں سے بچنے اور اپنی ماں سے کیے وعدے کا پاس رکھنے کے حوالے سے ان کی جدوجہد قابل تعریف و تحسین اور لائق اتباع ہے ۔

[pullquote]وکالت کی ڈگری :[/pullquote]

گاندھی جی انگلستان میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، لیکن اس ڈگری کی حیثیت کے بارے میں حقائق کو بالکل بے جھجک لکھ دیتے ہیں ۔ بیرسٹری کا نصاب تعلیم بہت آسان تھا اور بیرسٹروں کو لوگ مذاق میں دو ڈنر بیرسٹر کہتے تھے ۔ ہر شخص جانتا تھا کہ امتحان کی کوئی وقعت نہیں ، کتابوں کا امتحان کئی بار کرکے دیا جاسکتا تھا ، شاید ہی کوئی شخص ان کتابوں کو پڑھتا تھا ۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگوں نے محض خلاصہ اور شرح پڑھ کر رومی قانون کا امتحان دو ہفتے میں اور عام قانون کا دو تین مہینے میں پاس کرلیا ۔ سوالات کے پرچے سہل ہوتےتھے ، اور ممتحن دل کھول کر نمبر دیتے تھے ۔ رومی قانون کے امتحان میں پچانوے سے ننانوے فیصد اور آخری امتحان میں ستر فیصد بلکہ اس سے زیادہ امیدوار پاس کئے جاتے تھے اس لیے فیل ہونے کا خوف بہت کم تھا اور امتحان سال میں ایک بار نہیں بلکہ چار بار ہوتا تھا ۔جن ہندوستانی لیڈروں کی انگلستان سے وکالت کی اعلی تعلیم پانے کے حوالے سے شہرت ہے اوراس کو ان کی قابلیت گردانا جاتاہے اس کی حقیقت عیاں ہوجانی چاہیے ۔

وکالت کی ڈگر ی حاصل کرکے روزگار کمانے کے حوالے سے گاندھی جی کو کافی مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں کیونکہ وکالت ان کے ذہن اور طبیعت سے میل نہیں کھاتی اوردھوکہ وجھوٹ کا وہ کبھی سہارا نہیں لینا چاہتے تھے ، لیکن قانون کے فہم کو وہ لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ہیں ۔

شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ناول "ہیلمٹ ” کا ہیرو جب اوفیلیا سے محبت کا دعویٰ اور اظہار کرتاہے تو اوفیلیا کا باپ اور بھائی سے ایک زبردست اور مزیدار مکالمہ ہوتا ہے ۔ لائر ٹس اس کا بھائی ہے اور پولونیس باپ ہے ۔

لائرٹس : رہی ہیملٹ کی محبت جو آجکل تمہارے ساتھ وہ ظاہر کررہا ہے تو اس کو محض وضع کی پابندی یا جوانی کی ترنگ سمجھو ۔ یہ محبت تو ایسی ہے جیسے ابتدائے بہار میں نرگس کا پھول قبل از وقت کھلے ۔ اور اسے ثبات نہ ہو ۔ حسین اور خوشنما ہو مگر قیام نہ ہو ۔ ایک لمحہ کے لئے مہکتا رہے اور اس سے زیادہ نہ ہو ۔

اوفیلیا : ہاں میں بھی اس سے زیادہ نہیں سمجھتی ۔

لائرٹس : اس کی محبت کا خیال ترک کردو ۔ کیونکہ فطرت جب نموپذیر ہوتی ہے تو وہ صرف گوشت پوست ہی میں نہیں بڑھتی بلکہ یہ خاکی جوں جوں نشوونما پاتا ہے تو اس کے اندر طبیعت اور عقل بھی ترقی پکڑتی جاتی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس وقت اسے تم سے عشق ہو اور اس کے قصد و ارادے میں کوئی بات حارج و مخل نہ ہو ۔ مگر اس کی عالی نسبی کا خیال کرکے تم کو ڈرنا چاہیے ۔ وہ اپنے قصد و ارادے پر قادر نہیں ، اپنے اونچے نام و نسب کا تابع ہے ، وہ معمولی طبقے کے آدمی کی طرح نہیں ہے کہ اپنے لئے جو طریقہ چاہے وضع کرے ۔

اگر تم نے اس کی میٹھی میٹھی باتوں کا یقین کیا اور اپنا دل اس کے پیچھے کھو بیٹھیں تو پھر جس حالت میں کہ خود اس کو اپنے افعال پر قدرت نہیں اور تم نے اپنی پاکدامنی کی دولت بھی اس پر قربان کردی تو سمجھ لو کہ ایسی صورت میں تم اپنے عزت و ناموس کو کس درجے نقصان پہنچا ؤ گی ۔ میرے پیاری بہن ۔

اس سے تم ڈرو اور خوف کرو ۔ اور اپنی محبت کو اتنا پیچھے رکھو کہ ہوائے نفس کی زد اور خطرے سے وہ بچی رہے ، وہ محتاط سے محتاط لڑکی بھی بے شرم ہے جو اپنا حسن ماہ فلک کو دکھائے کیونکہ نیکی و عفت بھی دشنام و بہتان کے صدموں سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ کلیوں میں بھی جبکہ وہ کھل کر ابھی پھول نہیں ہوئی ہیں کیڑ الگ جاتاہے ۔ جوانی جو گل سحر گاہی کی طرح شبنم میں تر نظر آتی ہے ، گرام ہواکے جھونکے اسے غارت کردیتے ہیں ۔ مضرہوائیں لگنی ضروری ہیں ۔ بس ہوشیار رہو ۔ اور سب سے بڑی احتیاط یہی کہ ہے ڈرتی رہو ۔ جوانی کے ولولے خود طبیعت پر ضبط رکھنے میں مانع آتے ہیں ۔ خواہ کوئی بہکانے پھسلا نے والا موجود ہو یا نہ ہو ۔

اوفیلیا : آپکی پند و نصیحت کے اثراپنے دل پر پاسبان بٹھاؤں گی ۔ لیکن اچھے بھائی کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ایک ناصح مہربان کی طرح جو سب کو تو نصیحت و نیک ہدایت کرتا ہے مگر خود نیک نہیں ہوتا ۔ مجھے تو عرش پر پہنچنے کا بلند اور خاردار راستہ بتاتے ہو لیکن خود کہیں کسی رند خرابات کی طرح عیش و عشرت کے پندار میں آکر غلط راہ پر جس میں پھول بکھرے پڑے ہیں بے سوچے بوجھے نہ چلنے لگنا ۔

باپ سے مکالمہ :

اوفیلیا : اس زمانے میں شہزادے نے کئی بار محبت کا اظہار کیا ۔

پلونیوس : محبت کی بھی خو ب کہی ۔ بیٹی تو کچی لکڑی ہے ۔ تجھے ان خطرناک معاملات کا خاک تجربہ نہیں ۔ کیا تجھے اس کی محبت اور الفت کی باتوں کا جیسا کہ تو کہتی ہے یقین ہے ۔

اوفیلیا: بابا جان مجھے نہیں معلوم کہ ان کی باتوں کو میں کیا سمجھوں ۔

پلونیوس : سن میں بتاتا ہوں ۔ تو دودھ پیتی بچی بن جا ۔ اور جان لے کہ اس کی جھوٹی محبت کی باتوں کو تونے کھری چاندی سمجھ لیا ہے ۔ مگر جانے رکھ کہ وہ چیز کھری اور سچی نہیں ۔ تو اپنا نرخ بڑھا دے ور نہ سمجھ لے کہ تو مجھے بیوقوف بنوائیگی ۔

اوفیلیا : بابا جان ۔ شہزادے نے میرے ساتھ عشق نہایت معزز طریقے سے ظاہر کیا ۔

پلونیوس : تو اسے معزز طریقہ سمجھتی ہوگی ۔ اری احمق ۔

اوفیلیا : باباجان ۔ جو کچھ وہ زبان سے کہتا تھا اس پر سچے دل سے آسمان اور خدا کی قسمیں بھی کھا تا جاتا تھا ۔

پلونیوس : یہ قسمیں اور وعدے تو چڑیاں پکڑنے کے پھندے ہوتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ جب انسان کا خون گرم ہوتا ہے تو اس کا ل زبان پر بڑے بڑے وعدے اور اقرار لانے میں فیاض ہوجاتاہے ۔ بیٹی عشق و محبت کی ان باتوں کو تو محض ایک بھڑک ہی سمجھ ۔ اس میں چمک ہی چمک ہے ۔ گرمی نہیں ہے ۔ بلکہ سچ پوچھو تو چمک اور گرمی دونوں ندارد ہیں ۔ اپنی قدر و قیمت کو بیٹی اتنا نہ گھٹا کہ جب وہ بات چیت کی درخواست کرے تو تو اس کو حکم سمجھ کر اس کی بجا آوری سے انکار نہ کرسکے ۔ شہزادہ ہیملٹ کو بس اتنا سمجھ لے کہ وایک نوجوان ہے ۔ شوق اور تلون دونوں چیزیں اس میں موجود ہیں ۔ اسے عشق کرنے کے لئے اتنا وسیع میدان حاصل ہے تجھے عشق قبول کرنےکے لئے نہیں ہے ۔ اس کے وعدوں پر نہ جا ۔ یہ وعدے ایسے دلال ہیں جو اپنے اصلی رنگ میں نہیں بلکہ ایسی باتوں کے حامی اور وکیل بنتے ہیں جن کا نتیجہ بے عزتی ہے ۔ ان وعدوں کو سپید پوش قرش سمجھ جو معقول مگر فریب دہ تقریر کرکے زیادہ دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔

[pullquote]جب ہیملٹ کا جنون نظر آنے لگتا ہے [/pullquote]

اوفیلیا : میں نے آپ کے حکم کے بموجب اس کے خطوط لینے بند کردیے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مجھ سے ملنے کی آئندہ کوشش نہ کرنا ۔

پولونیس : اسی صدمہ نے اسے پاگل بنادیا ہے ۔ مجھے بڑی تکلیف ہورہی ہے کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا مجھے ہوشیاری کے ساتھ اس کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ آوارہ مزاج نوجوانوں کی طرح اپنے جھوٹے وعدوں سے تم کو بیوقوف بنارہاہے اور اس کا نتیجہ کسی دن تمہاری تباہی ہوسکتی ہے ۔ لعنت ہے میرے اس شک و شبہ پر ہم بوڑھوں کو جلد بازی قدرتی ہوتی ہے ۔ جب ہم اچھے برے کو کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتے تو اپنے آپ کو زیادہ چالاک سمجھ کر اور ہی راستہ اخیار کرتے ہیں ۔ جو ہمارے خیال میں صحیح رہتاہے حالانکہ نوجوان بیچارے اس برائی سے الگ ہوتے ہیں ۔

پلونیوس اپنے بیٹے لائرٹس کو رخصت کرتے ہوئے کچھ نصیحتیں کرتاہے ۔ پلونیوس شیکسپیئر کے ناول ہیملٹ میں بادشاہ کا وزیر ہے ۔

پلونیوس : جس ارادے کو بھی اچھی طرح جانچ نہیں لیا ہے اس پر کبھی عمل نہیں کرو ۔ لوگوں سے بے تکلف ہوجاؤ مگر دہقانیت کے درجے تک نہیں ۔ جن دوستوں کی دوستی کو آزماچکے ہو ان کو اپنی روح و رواں کے ساتھ فولاد کے بندوں سے کسے رکھو ۔ لیکن ہر کس و ناکس کے ساتھ جن کا تجربہ نہیں ہے کہ وہ کیسے آدمی نکلیں گے مصافحہ کرتے کرتے ہاتھ سن نہ کرو ۔ کسی جھگڑے میں پڑنے جہاں تک ممکن ہو پرہیز کرو ۔ لیکن جب شریک ہولئے تو پھر وہ طریقہ اختیار کرو کہ مخالف تم سے خوف کھائے ۔ ہر شخص کی بات سنو لیکن کم لوگ ایسے ہوں جن سے اپنی بات کہو ۔ ہر شخص سے جو کچھ وہ تمہاری نسبت کہنا چاہتا ہے سنو لیکن جو کچھ اس کی نسبت تمہاری رائے ہے اسے اپنے ہی تک رکھو ۔ لباس حسب مقدور و قیمتی پہنو ۔ صاف ستھرا اچھا سلا ہو لیکن اس میں بھڑک نہ ہو ۔ لباس سے انسان کی حیثیت معلوم ہوتی ہے ۔ فرانس کے شرفا اورعالی نسب اس معاملہ میں خاص طور پر خوش مذاق اور سلیقہ شعار ہیں ۔ نہ کسی کے قرضدار بنو اور نہ قرض خوا ہ ۔ کیونکہ قرضہ میں روپیہ کے ساتھ دوست بھی ہاتھ سے جاتا ہے ۔ قرضہ لینے کا شوق کفایت شعاری میں کمی پیدا کرتاہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اپنی ذات کے ساتھ دیانت برتو ۔ اگر ایسا کیا تو پھر جیسے دن اور رات کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا لازمی ہے تم بھی دوسروں کے ساتھ بددیانتی نہ کرو گے ۔ خدا حافظ لے ارتیز ۔ تمہارے لئے میری دعائے نیک ان نصیحتوں کو تمہارے دل میں زیادہ پختہ و مستحکم کرے ۔

[pullquote]گاندھی جی اور مذہب : [/pullquote]

اس سلسلے کی دو اہم قسطیں جن میں گاندھی صاحب کے مذہبی تصورات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔

گاندھی ایک خدا کو مانتے ہیں ، ہندو مختلف بتوں کو پوجتے ہیں لیکن اس میں بھی مظاہر قدرت جن میں خدا نظر آتاہے کی عبادت کرتے ہیں ۔ اصل میں ان کے ہاں ساری کائنات کی اصل ایک ہی ذات ہے ۔ خدا کے حوالے سے گاندھی جی اپنے عقیدے کو واضح کرتے ہیں ۔ ایک مرتبہ سمندر میں سفر کرتے ہوئے طوفان آجاتا ہے ، اس کیفیت کونقل کرتے ہیں کہ ہندو ، مسلمان ، عیسائی سب کے سب آپس کے اختلافات بھول گئے تھے اور اس خدائے واحد کو جو سب کا معبو د ہے یاد کررہے تھے ۔

حق وہ روح کلی ہے جو ساری کائنات میں جاوی و ساری ہے انسان اس کے جلوے کی تاب تبھی لاسکتا ہے جب وہ ادنی مخلوق کو اپنی جان کے برابر عزیز رکھتا ہو ۔ ہندو چونکہ مظاہر میں ذات حق کو دیکھتے ہیں ، کسانوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کہتے ہیں مجھے ان کے ساتھ خدا کا نور ، اہمسا اور حق کا جلوہ نظر آیا ۔گاندھی جی کے مذہبی خیالات میں انسانیت کی خدمت کو سب سےبنیادی اہمیت حاصل ہے ۔

ان کو عیسائیت متاثر کرتی ہے وہ یہودیت سے بالکل متاثر نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس کو اپنے مذہب سےمتضاد سمجھتے ہیں ،یہودیت میں اسلام کی مانند ہی خالص توحید پائی جاتی ہے اس لئے ان کے مذہبی خیالات اس مذہب کے ساتھ مطابقت نہیں پیدا کرسکتے ہیں ۔

گاندھی جی کا زمانہ وہ ہے جس میں ہندوستان میں عیسائیت کے مشنز کام کرتے تھے ، اور وہ تعصب اور تشدد سے کام لیتے ہیں اس لئے یہ ان کو دل وجان سے برا سمجھتے ہیں ۔ لیکن انگلستان میں عیسائیت کے مطالعہ اور مختلف عیسائی پادریوں اور مذہبی لوگوں کے ساتھ میل جول سے یہ عیسائیت سے آشناہوتے ہیں ، ان کوعیسائیت کی اخلاقیات اور رہبانیت پسندی وسادگی بہت بھاتی ہے ۔ دراصل عیسائیت میں یہ چیزیں ان کے اپنے فلسفہ زندگی اور ہندو ازم سے قریب نظر آتی ہیں تو اس طرح وہ عیسائیت کو اس لحاظ سے اچھا جاننے لگتے ہیں ۔ لیکن عیسائیت کا عقیدہ کفارہ ان کو حیرت میں ڈالتا ہے جس میں ماننے والے اپنے نبی پر اپنے گناہوں کا بوجھ ڈال دیتے ہیں ، اسی طرح خدا کا بیٹا ایک خاص قوم میں ہونا اور انہی کی بخشش کا ذریعہ ہونا ان کے لئے قابل قبول نہیں ۔ جب خدا سب کا ہے تو بخشش صرف ایک قوم کے لئے کیوں ؟ ساری انسانیت کے لئے یہ رحمت کیوں نہیں ۔

گاندھی جی کہتے ہیں کہ میں گناہ کے عذاب سے نجات نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو خود گناہ سے بلکہ اس کے خیال سے نجات کی جستجو ہے ۔آریائی مذاہب ہندو مت ، جین مت ، بدھ مت ان تمام میں یہ خیالات مشترک ہیں ، یہ روح کے چھٹکارے کےلئے محنت کرتے ہیں اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک گناہوں سے بالکل پیچھا نہ چھڑا لیا جائے ، کیونکہ گناہ سے روح ملوث ہوجاتی ہے اور چھٹکارہ نہیں حاصل کرپاتی ۔

ہندو مذہب کے بارے گاندھی جی کہتے ہیں ،ہندو دھر میں جتنی دقت نظر ، نزاکت خیال ، روحانی بلندپروازی اور کشادہ دلی ہے کسی مذہب میں نہیں ۔ہندو مذہب ایک فلسفی مذہب رہاہے ، ہندوستان کی فلاسفی قدیم شہرت رکھتی ہے انہی فلسفیانہ خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ ہندومذہب کے بارے یہ کہتے ہیں ۔
ہندو مذہب اس حوالے سے یقینا بہت کشادہ دل ہے کہ اس سے بہت سے مذاہب نے جنم لیا لیکن اس نے کسی کو بھی اپنے سے باہر نہیں کیا بلکہ سب کو ہندو ازم کا حصہ ہی سمجھا ۔ بدھ مت ، جین مت ، یا سکھوں کے جس قدر بڑے گزرے ہیں ان کو ہندو بھی بڑ ا سمجھتے ہیں ۔ اصل میں تو حیدی مذاہب سے قبل دنیا میں موجود مذاہب خود کو حق کہنے کے ساتھ دیگر کو باطل کہنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ، اور ہندوا زم بھی انہی مذاہب میں سے ہے ۔

گاندھی مسلمانوں کے ترجمہ قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں ،تورات کے مطالعے سے ان کو نیند آنے لگتی ہے ، انجیل ان کو متاثر کرتی ہے ،اس میں اخلاقیات اور رحمدلی کا ذکر ملتاہے حضرت عیسی کا پہاڑی کا وعظ وہ بہت پسند کرتے ہیں ۔

حضرت عیسی اور گوتم بدھ کا تقابل کرتے ہوئے کہتے ہیں ، گوتم بدھ کے دل میں اوروں کا کتنا دردر تھا ان کی ہمدردی انسانوں تک محدود نہ تھی بلکہ ساری مخلوق کو محیط تھی ۔ یعنی جانورو ں اور دیگر مخلوقات کے حوالے سے ہندو تصورات کا تقابل کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے ہاں ان کو کھانے کی اجازت نہیں ۔

گاندھی جی کے مطابق مذہب اور اخلاقیات دو الگ چیزیں نہیں ہیں ، بلکہ جو مذہب اخلاقیات نہ سکھائے وہ مذہب نہیں ہے مذہب کا وظیفہ ہی اخلاقیات سکھانا ہے ۔ حسن اخلاق ستیا گری کی جان ہے ۔ حسن اخلاق سے مراد محض ظاہری شیریں کلامی نہیں بلکہ باطنی شیریں مزاجی اور اپنے مخالفوں کی دلی خیر خواہی ہے ۔ مذہب سے ہٹ کر بھی اخلاقیات ہوسکتی ہیں کہ نہیں یہ آج کی دنیا کی بڑی بحثوں میں سے ہے ، یورپ آج مذہب کومعاشرتی زندگی سے جد ا بھی کردے لیکن اس کی اخلاقیات مذہب سے ہی پھوٹی ہیں ، یہ عیسائیت سے اخذکردہ اخلاقیات ہیں۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ آج کی دنیا میں اخلاقیات کی مسلمہ اقدار وہی ہیں جو مذہب نے متعارف کروائی تھیں ، اچھائی اور برائی کے حوالے سے مذہبی اقدار میں تبدیلی کی بہت بات کی جاتی ہے اور انسانی معاشروں میں کافی تبدیلی آچکی ہے لیکن اخلاقیات کا سوطہ مذہب ہی ہے جس کی بنیادوں سے انسانیت آج بھی ہٹ نہیں سکی ۔

گاندھی مذہب اور سیاست میں تفریق کے قائل نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ حق کی جستجو ہی مجھے سیاست میں کھینچ لائی ۔ میری ناچیز رائے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو سیاست سے کوئی تعلق نہیں وہ مذہب کے مفہوم کو ناآشنا ہیں ۔ لیکن یہاں پر گاندھی کے ذہن میں مذہب کا خاص مفہوم انسانیت کی خدمت ہے اور سیاست بھی اسی کو کہتے ہیں ۔ میرے خیال میں سیکولر حکومت ہونی چاہیے یا مذہبی اور ہندو سٹیٹ ؟ گاندھی اس مقام پر اس سوال کو ایڈریس نہیں کررہے ۔

ہمارے صوفیاء کی مانند ہندوؤں میں ضبط نفس ، خواہش کو دبانا اور روحانیت کو حاصل کرنا ، ذات حق سے جا ملنا ایسی چیزیں ہی اصل مذہب ہیں ۔ گاندھی جی کی تمام مذہبی زندگی انہی چیزوں کے گرد گھومتی ہے ۔ وہ سادہ خوراک کھاتے ہیں اور خواہشوں کو دباتے ہیں ، آسائش نہیں اختیار کرتے ہیں ، بیوی سے دور رہتے ہیں ا ن کا مقصود ضبط نفس اور روح کا جسم پر غلبہ اور روح کی صفائی ہے تا کہ وہ نجات پاسکے ۔

[pullquote]کائنات قوانین سے چلتی ہے ؟ [/pullquote]

خدا براہ راست اس کائنات میں دخل دیتاہے یا اس نے قوانین بنادیے اور انہی کےمطابق یہ کائنات چل رہی ہے ۔ مسلم علم کلام میں یہ بہت اہم بحث رہی ہے ۔ مسلمانوں میں بھی اس حوالے سے مختلف مکاتب رہے ہیں جو کائنات کو چلانے کے حوالے سے مختلف نظریات کے قائل ہیں ۔ بعض نے تویہاں تک تشدد اور تعمق اختیار کیا کہ چھوٹی سے چھوٹی جزئیات میں بھی خدا کو لے آئے جبکہ بعض کے ہاں خدا اصول بناتاہے اور جزئیات انہی کے مطابق تشکیل پاتی ہیں ۔ گاندھی جی اپنے ملک کے مندروں کے مشاہدے پر کہتے ہیں کہ اگر کسی کو خدا کے بے حساب عفو اور رحم کی شان دیکھنا ہو تو ان مقدس مقامات کو دیکھے ۔ یہ جوگیوں کا داتا لوگوں کو اپنے نام سے کیسی کیسی ریاکاری اور بے دینی کرتے دیکھتا ہے اور درگزر کرتاہے ۔ اس نے مدت ہوئی ہمیں بتا دیا ہے کہ جیسا کرنا ویسا بھرنا ۔ ” کرم ” کے اٹل قانون سے کسی کو مضر نہیں ۔ پھر خدا کو دخل دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس نے تو قانون بنا کر گویا دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے ۔

کائنات میں جاری و ساری قوانین پر کسی کی حکومت ہے کہ نہیں ؟ موجودہ دور کا انسان سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس اس چیز کے شواہد نہیں کہ وہ قوانین کسی خاص ذات کے تخلیق کردہ ہیں اس لئے وہ اس کے انکاریا اثبات میں سے کسی پوزیشن پر نہیں ہے ۔مذاہب کے پیر و کار موجودہ دور کے انسان کی اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر اس کو مذہب کے سایہ میں لا سکتے ہیں جس کا ذہن بالکل کورا ہے ۔

[pullquote]توہم پرستی : [/pullquote]

گاندھی جی سانپوں اور زہریلی چیزوں کو بھی مارنے کے حق میں نہیں تھے ۔ کئی مواقع پر بے آباد جگہوں کی آباد کاری میں وہ ایسی چیزوں کو نہیں مارتے تھے اس کو توہم کہیں یا کچھ بھی لیکن ان کے مطابق ان چیزوں نے ہمیں کبھی نقصان نہیں پہنچایا ۔ میری چشم عقیدت کوا س میں رحمن رحیم کی کارسازی نظرآ تی ہے ۔ کوئی اس کو ضعیف الاعتقادی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ، کوئی اگر کہتاہے کہ خدا کو دخل دینے کی کیا ضرورت ہے تو کہتارہے لیکن میرا تجربہ تو یہی کہتاہے ۔ گاندھی جی جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں ایسی سو چ اور فکر عام ہونے جارہی ہے جو ان چیزوں کو توہم اور فضول سمجھتی ہے وہ ان خیالات سے واقف ہیں اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے تجربات تو میرے عقائد و نظریات کی تائید کرتے ہیں ۔

گاندھی کو کئی مرتبہ اپنے ذاتی ، اپنی بیوی یا بچے کے علاج میں ایسی صورت پیش آجاتی ہے کہ دودھ ، یخنی یا گوشت کے استعمال کی ڈاکٹر کی طرف سے سخت تاکید کی جاتی ہے لیکن گاندھی جی اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں ۔ موت کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ان چیزوں نہیں اپناتےہیں ۔

پانی کا علاج ، مٹی کا علاج اور گھریلو ٹوٹکوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور ان کے ذریعے خود ہی علاج کرتے ہیں ۔ باوجودیکہ مذہبی رہنما گوشت کے استعمال کی بوقت ضرورت یا بیماری اجازت دیتے ہیں لیکن گاندھی ان کی نہیں مانتے ہیں ۔ گاندھی ڈاکٹری علاج پر یقین نہیں رکھتے ہیں ۔ میرا عقید ہ ہے کہ انسان کو دواؤں کے استعما ل کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہزار میں سے نو سو ننانوے محض غذا میں احتیاط کرنے ، مٹی پانی کے علاج اوراسی قسم کے گھریلو چٹکلوں سے اچھے ہوسکتے ہیں ۔

گاندھی جی کی یہ سوچ اس لحاظ سے یقینا اہم ہے کہ روایتی علاجوں سے جس قدر فائدہ ہوسکتا اسے ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اسی طرح ہر معاملے میں ڈاکٹروں پر انحصار کرنے کی بجائے گھر میں معمولی علاج اور دواد ارو ہوناچاہیے ۔ لیکن جدید علاج کو اس قدر نظر انداز کردینا اور خالصتا توہم کے انداز میں ان کے بارے سوچناعجیب سا بھی لگتاہے ۔ شاید کچھ چیزوں کے بارے تہذیب بھی آڑے آجاتی ہے کہ گاندھی جی اپنے تہذیبی ورثے کو شدت سے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں ۔ اکثر اوقات تو انگریزوں کو دل سے خوش آمدید کہتے ہیں لیکن بعض جگہ وطن اور دھرم کی محبت ان کے آڑے آجاتی ہے ۔ میرے خیال میں اس میں بھی اصل دخل میلان طبع کو ہے ۔ جدید طرز علاج نے اب تو اپنی افادیت کو ہر ایک کے ہاں تسلیم کروالیا ہے لیکن ہر نئی چیز کو شک اور توہم کے انداز میں دیکھنے کی عادت یقینا قابل غور ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے