مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

مدیحہ شام ڈھلنے سے تھوڑا قبل اپنی والدہ سے 10 روپے لے کر دکان سے ٹافیاں لینے کےلیے گھر سے نکلی اور پھر لوٹ کر نہ آئی۔ جب اس کی واپسی میں تاخیر حد سے زیادہ بڑھ گئی تو گھر والوں نے پریشانی کے عالم میں گاؤں کی مساجد میں گمشدگی کے اعلانات کرائے اور کہیں سے خبر نہ ملنے پر مقامی تھانے میں رپورٹ درج کرادی۔ اگلے روز فجر کی نماز کےلیے جانے والے نمازیوں نے جھاڑیوں کی اوٹ میں ایک بچی کی لاش دیکھ کر تھانے میں اطلاع دی۔ اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ وہی ننھی کلی ہے دکان سے ٹافیاں لے کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوچکی ہے۔

یہ کہانی ملک کے طول وعرض میں روزانہ کی بنیاد پرغیرت کے نام پر قتل ہونے والی، ونی کی بھینٹ چڑھنے والی، تیزاب گردی اور ہراسمنٹ کا شکار ہونے والی اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بیٹیوں میں سے ایک بدنصیب مدیحہ کی ہے، جسے خیبرپختونخوا کی تحصیل ٹل کے ایک گاؤں سروخیل میں قتل کرکے جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا۔ ڈی پی او شاہد احمد خان کے مطابق قاتل اس کا چچا زاد بھائی الیاس ولد رحمان گل ہے، جسے 19 فروری 2020 کو گرفتار کرلیا گیا۔ ملزم نے مدیحہ سے زیادتی کے بعد تشدد، گلا دبا کر اور گولی مار کر قتل کرنے کا اعتراف جرم کرلیا ہے جبکہ اس واردات میں استعمال ہونے والی پستول بھی برآمد کرلی گئی ہے۔

خواتین پر تشدد اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کے اعداد و شمار بہت خوفناک ہیں۔ ایشیا اینڈ دی پیسیفک پالیسی سوسائٹی کے مطابق خواتین کی سیکیورٹی انڈیکس کے لحاظ سے پاکستان کا عالمی سطح پر 167 میں 164 واں نمبر ہے۔ اس رینکنگ میں پاکستان سے نیچے تین ممالک شام، افغانستان اور یمن ہیں، جو کہ جنگی صورتحال سے دوچار ہیں۔ جبکہ جینڈر انڈیکس کے حوالے سے پاکستان کا عالمی سطح پر 129 میں سے 113 واں نمبر ہے۔ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے سروے کے مطابق خواتین کےلیے خطرناک ترین ثابت ہونے والے ممالک میں پاکستان دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے۔

پاکستان میں 70 فیصد (نوکری پیشہ) خواتین کو زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی یا جسمانی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے سالانہ ایک ہزار واقعات پیش آتے ہیں۔ باقی صوبوں کے حالات خیبرپختونخوا سے بھی برے ہیں۔ پنجاب پولیس کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے اعداد و شمار آبادی کے تناسب سے بھی زیادہ ہیں۔ 2014 سے 2019 تک خواتین کے ساتھ زیادتی اور قتل کے کیسز میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور اس دوران خواتین پر تشدد، زیادتی، قتل اور تیزاب پھینکنے کے 15 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔

2014 میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے 2228، 2015 میں 2618، 2016 میں 2746، 2017 میں 2998، 2018 میں 2937 جبکہ 2019 کے 10 ماہ میں 3387 کیسز رپورٹ ہوئے۔ 2018 میں 198 جبکہ 2019 کے 10 ماہ میں 149 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 2018 میں تیزاب گردی کے 37 جبکہ 2019 کے 10 ماہ میں تیزاب گردی کے 36 واقعات ہوئے۔ پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق 2004 سے 2016 تک 7734 خواتین کو جنسی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

پولیس سرجن رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں 2019 کے دوران خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے 407 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سال 2019 کے دوران زنا بالجبر کے واقعات میں 160 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق ادارے کو سال 2019 میں خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق 7 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔

پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور تیزاب گردی جیسے دیگر واقعات کے تدارک کےلیے بہت سے قوانین موجود ہیں، جن میں سے وومن پروٹیکشن بل، ایسڈ اینڈ برن کرائم بل، پری وینشن آف اینٹی وومن پریکٹسز ایکٹ، ڈومیسٹک وائیلنس، کریمنل لاء (غیرت کے نام پر قتل) ایکٹ 2016 اور خواتین کے کام کی جگہ پر ہراسمنٹ سے تحفظ کا بل قابل ذکر ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنا قانوناً جرم ہے۔

جنسی زیادتی کرنے پر زیادہ سے زیادہ تین سال قید یا پانچ لاکھ تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ عورتوں کو کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون کے تحت ہر کمپنی کو تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی ہوگی جس میں ایک عورت کا ہونا لازمی ہوگا اور کمیٹی درج کی گئی شکایات سے 30 دن کے اندر نمٹے گی اور سات دن کے اندر کمپنی کو کمیٹی کے نتائج کا نفاذ کرنا ہوگا۔

ان سب سخت قوانین کی موجودگی میں بھی ایسے واقعات میں اضافہ حکومت کےلیے لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ اصل مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں پیچیدگیاں بھی ایسے پے در پے واقعات کا موجب بن رہی ہیں۔ مقتول مدیحہ کے والد عمر خان کے حکومت سے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کے مطالبے نے سوشل میڈیا پر پھر سے نئی بحث کا آغاز کردیا ہے، جس نے ایسے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کے بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد جنم لیا تھا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوائے، کیونکہ ملک کی 48.76 فیصد آبادی کو نہ تو ایسے مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی عدم توجہی کی بدولت انہیں غیر فعال کرکے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں وزارت برائے انسانی حقوق کی آگاہی مہمات قابل ستائش ہیں۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جنہیں تشدد کا سامنا ہو وہ ہماری وزارت کی فری ہیلپ لائن 1099 پر کال کرکے اپنی شکایت درج کرائیں تاکہ اس کا ازالہ کیا جاسکے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے بعض قانونی معاملات میں صوبائی حکومتوں کے عدم تعاون کا شکوہ بھی کیا۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وفاق کے ایسے اقدامات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں بلکہ انسانیت کی خاطر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے بالاتر ہوکر بھرپور تعاون بھی کریں اور اسکولز کی سطح پر ایسی کلاسز کا اہتمام کریں جس سے ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے۔

سب سے اہم اور بڑی ذمے داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے، کیونکہ ان کی شراکت اور فرض شناسی کے بغیر حکومت کے تمام قوانین کے ثمرات عوام کی پہنچ سے ہمیشہ دور رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے