ایک نعرہ ، جس کا گلی گلی میں شور ہے

ہر سوچنے والا ذہن سوال کی زد پہ ہے اور یہ کوئی مسئلہ نہیں البتہ بات صرف سوال تک کی نہیں ہے، گالی طعنہ الزام دشنام بہتان سب چلے آ رہے ہیں ، ایک نعرے کو لے کر یوں شور مچایا جا رہا ہے، جیسے جسم کا لفظ سرِ عام استعمال کرنا کوئی جرم ہے اور جرم کی سنگینی بڑھ گئی ہے، جب جسم کے ساتھ مرضی بھی شامل ہے وہ بھی اپنی نہ کہ کسی اور کی۔ کسی نے باپ بھائیوں کو گھسیٹ لیا، کوئی شوہر تک جا پہنچا، کسی نے زبانی کلامی بستر میں روند دینے کی حسرتوں کو زبان دی کسی نے تھوکنا چاہا اور کسی نے تو تھوکنا بھی پسند نہ کیا۔ مزے کا سین وہاں ہے، جن بیبیوں کے حالات سے ہم واقف ہیں اور وہ معتدل ہونے کا ثبوت دینے واسطے ایسی چولیں مار رہی ہیں کہ بات کرتے ہوئے آپ اپنے حواس کھو بیٹھیں یا غصے میں اپنا ہی سر دیوار میں دے ماریں ۔ اس سے بھی زیادہ خوبصورت معاملہ ان کا ہے جو ذاتی معاملات میں انتہائی گراوٹ کا ثبوت دیتے رہے ہیں اور ایسی پیاری باتیں کر رہے ہیں کہ پڑھ کے یقین نہیں آ رہا یہ وہی آدمی ہے جس نے ایسا گھٹیا جملہ بولا تھا یا اپنے گھر میں کیا کیا، گرے ہوئے کام کر چکا ہے۔ جان پہچان اسی لیے امتحان کا سبب بن جاتی ہے کہ ہم آپ کی طرح ہو نہیں سکتے اور آپ شاید آئینہ دیکھنا بھی چھوڑ گئے ہیں۔

ہماری ایک پیاری معتدل بہن کا کہنا ہے کہ گومل یونیورسٹی و دیگر جامعات میں ہونے والے واقعات کے چرچے سے ان کے گاؤں کی بچیوں کے لیے مسائل ہوں گے جنہیں پہلے ہی پڑھنے کی اجازت مشکل سے ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ روکنا کسی نیچ آدمی کو چاہیے جو کسی بڑے عہدے پہ پہنچ کر اپنے اختیار کے زور پہ لڑکیوں کو ہراساں کرے یا بات اس لیے نہیں ہونی چاہیے تاکہ دو چار اور لڑکیاں پڑھ سکیں؟ تو یہ جو ہراساں ہو رہی ہیں یہ کیوں چپ رہیں؟ اس لیے کہ کل کو آپ کے گاؤں کی لڑکیوں کو بھی ہراساں کیا جائے؟ مختلف جامعات کی نامور شخصیات اپنے شعبے میں جو گُل کھلا رہی ہیں ان سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ، سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پہ ان ہستیوں کی آراء و تبصرے اتنے بہترین ہیں کہ آپ سوچ نہیں سکیں گے یہ کیسے کیسے گھٹیا کاموں میں ملوث رہے ہیں۔

یہ تو ہو گئی اعتدال پسندی کی ایک مثال اب دوسری مثال کا ذکر کرتے ہیں، یہ وہ خاتون ہیں جن کی زندگی میں کوئی فیصلہ لینے کا اختیار ان کو نہیں دیا گیا اور اب یہ اس سب سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں، گو کہ ان کا المیہ یہی رہا کہ فیصلے کا اختیار انہیں نہیں ملا پر انہیں بھی لگتا ہے کہ فیصلے کا اختیار مانگنا تھوڑی سی بددیانتی ہے کہ آخر ہمارے لیے اتنا کچھ کرتے ہیں کچھ سہہ لینا چاہیے اور اگر مانگنا بھی ہے تو نعرے لگانے سے کیا ہو گا؟ سہنے کی حد کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے اور کیوں کرنا چاہیے؟ ایک لڑکی کو پچھلے ہفتے پسند کی شادی کے جرم کی کیا سزا دی گئی اس سے سبھی واقف ہیں ، اب بندہ گولی کھائے یا جان سے جائے یا تھپڑ کھائے ؟ کیا سہے؟ یا وہ جملہ سہے جو ایک مدت کی رفاقت پہ سوالیہ نشان بن جائے؟

اچھا چلو یہ بھی بات نہیں کرتے ہم اس سے آگے چلتے ہیں جہاں ہماری وہ بہنیں ہیں جو جبری گمشدگی کا شکار اپنے پیاروں کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتی ہیں، احتجاج کرتی ہیں، چار لوگ ان کا ساتھ دیتے ہیں کمیشن بن جاتا ہے اور جب وہ کمیشن کے حضور عرضی لے کر پہنچیں تو انہیں شادی کی آفر کرائی جاتی ہے ان کی مدح سرائی کی جاتی ہے بس وہ کام نہیں کرتے کمیشن والے جو انہیں کرنا چاہیے۔ اب بتاؤ ایسی لعنتی حرکتیں کرنے والوں کی اعتدال سے مذمت کی جائے؟ ان کے خلاف کاروائی ہو؟ یا یونہی چلنے دیا جائے معاملہ؟

یہ مارچ ہر اس عورت کا ہے جو اپنے لیے آواز نہیں اٹھا سکتی کیونکہ آپ نے اُسے مار دیا یا اس نے یہ سوچنا ہی چھوڑ دیا کہ اس کا بھی زندگی پہ آپ جتنا ہی حق ہے۔ یہ مارچ اس بچی کا ہے ، جسے محلے کے چار بندوں نے کئی برس تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ، یہ مارچ اس لڑکی کا ہے، جسے پانچ گز کی چادر میں لپٹے ہونے کے باوجود کسی اوباش لونڈے نے ایسے چھوا کہ وہ آج تک سڑک پہ اکیلی چلتے ہوئے ڈرتی ہے کہ کوئی پیچھے سے آ کر ویسے ہی نہ چھوئے، یہ مارچ اس عورت کا ہے، جس نے پانچویں بیٹی کی خبر پہ دائی سے اسقاطِ حمل کرانے کی کوشش کی اور مر گئی کیونکہ اسے طلاق نہیں چاہیے تھی، یہ مارچ اس ماں کے لیے ہے جو اپنی بیٹیوں کو خود پالنے کا حوصلہ نہیں کر رہی ، یہ مارچ اس بیوی کا ہے جس نے گھر چلانے اور نوکری کی خاطر تھپڑ بھی کھایا ذلت بھی سہی اور تنخواہ بھی شوہر کے ہاتھ میں دی، یہ مارچ اس نوکری پیشہ خاتون کا ہے، جسے اپنی اہلیت ثابت کرنے کا امتحان آئے روز دینا ہے، یہ مارچ اس عورت کا ہے، جس کے بھائی کو آپ اٹھا لے گئے اور اسے سڑکوں پہ احتجاج کرتے کئی سال بیت گئے۔ آپ مارچ کا ذکر سنیں تو اس بچی کو یاد کریں جسے پڑھنے لکھنے کا حق نہیں اور چودہ سال کی عمر میں اسے بیاہ دیا گیا تاکہ وہ اگلے دس سال محض بچے جنتی رہے اور پھر آخری بچے کی پیدائش کے دوران چل بسے، اسے اور خود کو شعور آگہی اور تعلیم سے دور رکھنے والوں کو ایسے کسی دن سے ، جسم کے لفظ سے اور مرضی سے تکلیف ہے۔

عورت کے جسم سے یوں مراد لی جا رہی ہے جیسے وہ گناہوں کی دعوت، جنسی تلذذ کا باعث اور اولاد جننے کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن وہ ایک عورت جس کے شوہر نے اسے دو سال پھکیاں کھلا کھلا کر اس کی چھاتی کا سرطان اتنا بڑھا دیا کہ وہ ناقابلِ علاج اور پھر جان لیوا ہو گیا مگر ڈاکٹر کے پاس نہیں جانے دیا اُس کے جسم پہ اُس کی مرضی نہیں ہونی چاہیے تھی؟ اگر ہم پبلک ٹرانسپورٹ پہ سفر کریں اور آپ پیچھے بیٹھے بار بار اپنے ہاتھوں پیروں کو زحمت دیتے رہیں تو ہمیں چیخنے کی اجازت ہے بولنے کی نعرہ لگانے کی یا چپ چاپ پانچ گھنٹے کا سفر کرنے کی تاکہ باقی لوگ ہم پہ نہ ہنسیں؟

کیا اب ہمیں یہ سکھانے کی اجازت ہے کہ یہ میرا جسم ہے آپ اسے اپنی مرضی سے نہیں چھو سکتے؟ ہم آدھی رات کو آپ کی ماں کو مرنے سے بچا رہے ہیں اور آپ ایمرجنسی خالی دیکھتے ہی موقع پہ چوکا مارتے ہوئے ہمارا ہاتھ تھام لیں تو کیا آپ کو فارسی میں سمجھایا جائے ایمرجنسی سے نکالا جائے یا اپنے ہونے پہ شرمندہ ہوا جائے؟ آپ رات بھر ڈیوٹی ڈاکٹر کو گھورتے رہیں اور اتنی بار گھوریں کہ وہ تنگ آ کر کہہ دے دو منٹ اپنے بیمار پیو نوں وی ویکھ لا تو آپ کی خاطر کس نعرے سے کرنی چاہیے؟ آپ کے پاس کوئی چیک اپ کے لیے آئے اور آپ جھک کر اس کے ہونٹ چومنے کی کوشش کریں تو غالبا اسے چاہیے کہ سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنے کا بیان دے لیکن میرا جسم میری مرضی جیسی لغویات نہ بکے ۔

پچھلے سال بھی بہت کچھ تھا اور اس برس بھی بہت کچھ ہو گا لیکن کسی بات کا بتنگڑ اس لیے بنایا جائے گا تاکہ اپنے دماغوں کے تعفن سے ہمارا سانس لینا دشوار کیا جا سکے۔ جسم ، لباس، اٹھنے بیٹھے، رہن سہن، تعلیم، تربیت، میل ملاپ ہر چیز پہ ایسے تضحیک و تذلیل کی جائے گی کہ اگر دل پہ لگائیں تو پھر کبھی کسی سے بات کرنے یا الجھنے کا حوصلہ نہ کر سکیں۔ یہ جدوجہد مگر ایک دن کی بات نہیں، یہ کئی برس پرانی ہے اور کئی سال تک چلے گی سو جیت ہار کا فیصلہ تو تب ہو جب لڑائی فریقین کی ہو، یہ غلط رویوں کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنے حق کی بات ہے سو یہ جبر کی ہر صورت کے خلاف یونہی رہے گی سو بہتر ہے کہ آپ ہمیں گالیاں بکنا چھوڑیں اور اپنے رویوں پہ غور کریں کیونکہ ہمارے عرض کرنے پہ آپ کو تکلیف لاحق ہو جاتی ہے کہ لہجہ خراب ہے، انداز درست نہیں، بات کرنے کا سلیقہ نہیں، الفاظ کا چناؤ ٹھیک نہیں۔ نہیں غور کرنا تو بس اس بات پہ نہیں کرنا کہ مسئلہ کیا ہے، ساری توجہ اس پہ دی جا رہی ہے کہ مسئلہ تو بھاڑ میں جھونکو جو بھی ہے یہ عورتوں کو جسم اور مرضی کا لفظ چوک چوراہے پہ استعمال کرنے کا حق کس نے دیا؟

جس معاشرے میں بچے بچیاں بھی محفوظ نہیں، جہاں انسان اولاد کو جنم دینے سے اس لیے بھی ڈرنے لگے کہ کوئی نہیں چاہتا اس کا بچہ خبروں میں ایسے آئے وہاں کے لوگوں کو بھی تکلیف ہے کہ ہر فرد کا اپنے جسم پہ حق کیوں تسلیم کیا جائے ؟ اسے مہذب ترین الفاظ میں بھی ہماری بدبختی اور آپ کی ستم ظریفی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سو مساوی اجرتوں، جبر کے زاویوں اور فیصلے کے حق کو چھوڑیں کم از کم بچوں کو تو اپنے گند سے دور رکھیں تاکہ آپ کے مؤقف میں تھوڑی مضبوطی آ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے