مصیبت میں خیر کا پہلو

جو سب کچھ بند ہو رہا ہے اور لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ گھروں میں رہیں‘ یہ کوئی شوقیہ تو نہیں ہو رہا۔ مجبوری ہے اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ بطور ریاست یا معاشرہ جتنا ہم کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کو قوم کا سلام جانا چاہیے۔ صفِ اول میں وہ کھڑے خطرہ مول لے رہے ہیں۔ ہسپتالوں پہ تنقید بہت ہوتی ہے لیکن اس کٹھن گھڑی میں جہاں سب جگہیں بند ہو رہی ہیں ہسپتال ہی ہیں جو کھلے ہیں۔ ڈاکٹرز، نرسیں اور ان کے ساتھ دیگر عملہ‘ سب نہایت مشکل حالات میں اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ قوم کے ہیروز یہی لوگ ہیں۔

اِس آفت کی وجہ سے سوچ کے نئے پہلو اُجاگر ہو رہے ہیں۔ اس وہمی قوم کو بھی اتنی سمجھ تو آرہی ہوگی کہ اِس وبا کے سامنے کوئی تعویذ‘ دھاگے کارگر ثابت نہیں ہورہے۔ بچت ہے تو احتیاط میں اور حفاظتی تدابیر کے ساتھ۔ ٹوٹکوں اور پھونکوں سے کام نہیں چل سکتا۔ یہ قوم کیلئے ایک المیہ ہے کیونکہ ہمارے ہاں ٹوٹکوں اور پھونکوں کے وافر ذرائع موجود ہیں۔ آفت اور بیماری میں آبادی کا بیشتر حصہ انہی پہ بھروسہ کرتا ہے‘ لیکن جیسے ہم سب دیکھ رہے ہیں ایسے کوئی ذرائع کام نہیں آرہے۔ ٹوٹکوںسے کام چلتا تو چین اب تک مارا جا چکا ہوتا۔ وہاں تو ٹوٹکوں اور دھاگوں پہ یقین نہیں کیا جاتا، عملی طور پہ نہ نظریاتی طور پہ۔ ہم اپنی لاچاری میں بہت سی ایسی چیزوں اور رسومات پہ انحصار کرتے ہیں لیکن اس بدبخت بیماری نے سب کچھ عیاں کرکے رکھ دیا ہے۔ اٹلی میں چرچ بند ہو چکے ہیں۔ ہمارے کئی دوست ممالک ہیں جہاں باجماعت نماز سے منع کر دیا گیا ہے۔ عمرے کی سعادت بند ہو چکی۔ ایران سے آئے ہوئے زائرین کا حال ہمیں پتہ ہے۔ اس موضوع پہ زیادہ بات نہ کی جائے تو اچھا ہے کیونکہ ہمارے جذبات جلد مجروح ہو جاتے ہیں۔ لیکن مطلب تو عیاں ہے۔ کھلے ہیں تو ہسپتال۔ خطرہ مول لے رہے ہیں تو ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے۔

اس وبا کی زد میں جہاں انسان آئے ہیں وہاں ہمارے جیسے معاشروں کے سماجی رویوں پہ بھی سوال اُٹھ سکتے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسومات متاثر ہوئی ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ فضولیات اور فضول خرچی کے بغیر بھی یہ رسومات پوری ہو سکتی ہیں۔ شادی ہالوں پہ بندش‘ جو بہ اَمر مجبوری لگی ہے‘ دیرپا ثابت ہو تو اُسے بہت اچھا ہی سمجھنا چاہیے۔ ایک طرف ہم اپنی غربت کو روتے ہیں، دوسری طرف شاہ خرچیوں سے اجتناب کفر کے برابر سمجھتے ہیں۔ حالات نہ بھی اجازت دیں تو فضول خرچیاں ضرور کرنی ہیں۔ اس آفت نے بتلایا ہے کہ دوسرے راستے بھی ہو سکتے ہیں۔ میں کئی دنوں سے گاؤں میں بیٹھا ہوں۔ یہاں بھی یہ لت پڑ چکی تھی کہ شادی پہ لوگوں کو بلایا اور دوپہر تین چار بجے تک انہیں بھوکا بٹھا کے رکھا جاتا۔ پھر کہیں کھانا لگتا اور ظاہر ہے صبر کا امتحان دینے والے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے۔ اس بیماری کے بعد جو شادی بیاہ کی تقریبات ہوئی ہیں ان میں بروقت کھانا شروع کیا گیا، چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کو بھگتایا گیا اور ایک صحیح ٹائم پہ ساری دعوت چپکے چپکے ختم ہوئی۔ اگر یہ مجبوری دیرپا روایت بن جائے تو کتنا اچھا ہو۔

ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ ہم ہاتھ زیادہ ہی ملاتے ہیں۔ بات بات پہ پنجے آگے کر دیتے ہیں۔ کورونا نے اس عادت کو ختم نہیں کیا لیکن محدود ضرور کر دیا ہے۔ اور یہ جو ہمارا جپھیاں پانے والا رواج ہے، جہاں دل میں کدورت بھی ہو تین تین جپھیاں لگا رہے ہوتے ہیں‘ کورونا نے اس میں کمی کی ہے اور یہ جھوٹی جپھیاں محدود ہی ہو جائیں تو قوم کی اس میں بھلائی ہے۔ جیسے ہم خوشی کے موقعوں کو کچھ زیادہ ہی لمبا کر دیتے ہیں‘ غمی کے موقعوں پہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ دنوں تک لوگ تعزیت کیلئے آتے ہیں۔ شہروں میں اس حوالے سے کچھ بہتری ہو چکی ہے‘ لیکن دیہات وغیرہ میں اب بھی غمی پہ فضول خرچی کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ یہ وقت اور پیسے کا ضیاع تو بند ہونا چاہیے۔

یہ جو گزرے دور کے شیر شاہ سوری ثانی تھے، ان سے پوچھنا نہیں چاہیے کہ قوم کے محدود وسائل میٹرو بسوں پہ لگنے چاہئیں تھے یا ہسپتالوں پہ؟ تنقید کا پہلو یہی تھا کہ غریب قوم ہے، وسائل محدود ہیں، ترجیحات کا تعین ہونا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کون سی چیز ضروری ہے اور جب ضرورت پوری ہو تو پھر بیشک دیگر چیزوں پہ توجہ دی جائے۔ لیکن نہیں، اپنی سیاست چمکانے کیلئے ایسے منصوبوں پہ انہوں نے قوم کا پیسہ برباد کیا۔ جتنے ہسپتال ہونے چاہئیں اتنے ہیں نہیں۔ اس بیماری کیلئے جو ٹیسٹنگ کٹ ضروری ہیں‘ وہ اور وینٹی لیٹر چین سے آ رہے ہیں۔ ہسپتالوں کے عملے کیلئے مطلوبہ تعداد میں حفاظتی لباس نہیں۔ لیکن اس طرف کسی کا دھیان ہی نہ تھا۔ اب آفت آسمان سے آئی ہے تو ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں اور عجلت میں ہم سب کچھ کر رہے ہیں۔ جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور سنگاپور جیسے ملکوں کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں صحت کا نظام اور اُس کے تحت حفاظتی تدابیر پہلے سے ہی اتنے اعلیٰ معیار کے تھے کہ جب اس بیماری کے آثار وہاں نمودار ہوئے ایکدم ساری مشینری حرکت میں آ گئی‘ جس کی وجہ سے اُن ملکوں نے بہت حد تک اس بیماری کو کنٹرول کیا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں بہت چیزیں توکل پہ ہوتی ہیں لیکن کچھ تو ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے۔پہلے عقلوں پہ تالے لگے ہوئے تھے‘ اب تو کھل جانے چاہئیں۔ فضولیات اور عیاشیوں پہ اس غریب قوم کے محدود وسائل لگتے رہے ہیں لیکن اب اِس روش میں کوئی فرق آنا چاہیے۔ لیکن ان نصیحتوں کا کیا فائدہ؟ دل میں دھڑکا یہی ہے کہ بلا ٹلے گی تو ہم پھر اپنی پرانی ڈگروں پہ دھوم دھام سے چلنے لگیں گے۔

جن کے حالات کشادہ ہوں وہ تو اس مجبوری کی تنہائی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ موسیقی اور ٹی وی کے آلات گھر میں لگے ہوں تو آپ آرام سے بیٹھے رہیں اور نیٹ فلکس (Netflix) پہ من پسند فلمیں دیکھیں۔ باہر نہ بھی جانا ہو تو نسبتاً وسیع گھروں میں ورزش کرنا کوئی زیادہ پرابلم نہیں ہوتا۔ گاؤں کے کھلے ماحول میں بھی حالات ٹھیک ہی رہتے ہیں؛ تاہم شہروں کی تنگ آبادیوں میں جہاں چھوٹے چھوٹے مکان ہوں اورگھر کے افراد کچھ زیادہ ہوں وہاں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنا اتنا آسان نہیں۔ لیکن یہ دنیا کی تفریق ہے اور روزِ ازل سے ایسا ہی چلا آرہا ہے کہ کچھ لوگوں کے حالات ٹھیک ہوتے ہیں اور بہتوں کے نسبتاً تنگ۔
میں کہنے ہی لگا تھا کہ خلوت کے اس مجبور موسم میں فلاں فلاں کتاب پڑھی جانی چاہیے اور فلاں فلاں فلم دیکھی جائے‘ لیکن ایسی تلقین آبادی کے محدود حصے پہ ہی فٹ آتی ہے۔ ہمارے ہاں امیر غریب کا فرق تو ہے ہی لیکن اصل اور بنیادی تفریق انگریزی بولنے والے اور انگریزی نہ بولنے والے طبقات میں ہے۔ ہم نے اپنا ملک ہی ایسے تشکیل دیا ہے کہ تعلیم کا صحیح استحقاق ایک چھوٹے سے طبقے تک محدود ہے۔ نہ صرف تعلیم کی زبان انگریزی ہے، حکمرانی کی زبان بھی انگریزی ہے۔ پی ایم اے کاکول میں تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔ دفتری مراسلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ عدلیہ کے فیصلے انگریزی میں آتے ہیں۔ حکمرانی کی انگریزی کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔

داد دیجیے غیر مسلموں کی ایجادات کو۔ یوٹیوب میں زبان کی کوئی بندش نہیں۔ مغربی موسیقی سُننا ہو آپ سُن سکتے ہیں۔ ذوق مشرقی یا برصغیر کی موسیقی کی طرف ہو تووہ بھی پورا ہوسکتاہے۔ لہٰذا خلوت بھاری محسوس ہورہی ہو تو آپ پہ ہے کہ وقت کیسے پاس کریں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں بہت کچھ دیکھنے اور سُننے کو مل سکتا ہے۔ اس وبا نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ کلائمیٹ چینج کے بارے میں کتنا کچھ کہا جاتا تھا لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے تھے۔ اگر کوئی یہ کہتا کہ ہوائی سفر کم ہونا چاہیے یا تیل اور گیس کا اتنا زیادہ استعمال کرہ ارض کیلئے اچھا نہیں تو ہم ذہنوں میں مفروضے لیے بیٹھے تھے کہ ہوائی سفر اور زمینی سفر کسی طور کم نہیں ہو سکتے۔ جو ہم ناممکن سمجھتے تھے وہ اس آفت نے ممکن کردکھایا ہے۔ آج کتنا کچھ بند ہو چکا ہے اور کئی چیزوں کے بارے میں نئی سوچ جنم لے رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے