موسمیاتی تبدیلیاں:کورونا کے بعد کیا ہو گا؟

ابھی کورونا کا خوف چین کے شہر ووہان تک محدود تھا تو کسی نے کہا کہ آئندہ دنوں میں عالمی سطح کی خبر کلائیمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلیوں) سے متعلق ہو گی۔

یہ بات کوئی نہ بھی کہتا تو بھی ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے موسموں میں گزشتہ کچھ برسوں سے جارح قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے انہیں محسوس کیا ہے۔ اب تونسبتاً کم پڑھے لکھے لوگ (جو ان موضوعات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے) بھی یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ”ہمارے زمانے میں تو موسم ایسے قاتل نہ تھے”

موسم سرما کا دورانیہ اور اس کی شدت بڑھی ہے، گزشتہ پانچ سات سالوں میں اس کُرہ ارض پر پڑنے والی گرمی بھی معمول سے بہت زیادہ تھی۔ گلیشئرز تیزی سے پگھلے ہیں۔مختلف ملکوں میں سیلاب تسلسل سے آئے ہیں.ابھی کچھ عرصہ قبل آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ بھی کم خوفناک نہ تھی۔

دنیا کے کئی ممالک میں جاری جنگوں میں اسلحے اور بارود کے بے تحاشا استعمال نے بھی ماحول کو شدید متاثر کیا ہے۔ صنعتی شعبے کے ماحول پر مہلک اثرات پر تو ہر کوئی بات کرتا ہی ہے۔ اس شعبے نے زمین کو اندر سے کھوکھلا اور سطح سے بنجر کرنے میں اپنا کافی زیادہ حصہ ڈالا ہے۔

دنیا میں گرین بیلیٹس سکڑتے جا رہے ہیں،جنگلات تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں،ان کی ری پلیسمنٹ کی جانب بہت کم توجہ دی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں بلین ٹری منصوبے کی باتیں ہم بہت سنتے تھے۔ سیاسی ضروریات کے تحت اُن کا ذکر اکثر ہوتا رہا ہے،نئی حکومت بن جانے کے بعد کسی نے نہیں بتایا کہ وہ اربوں درخت اپنی نمو کے کس مرحلے میں ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں شجر کاریاں اپنے نتائج خال خال ہی دے پاتی ہیں.

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر(آزادکشمیر) میں بجلی کے نئے منصوبوں کی تعمیر سے وہاں کا موسم بھی کافی بدلا ہے، دارالحکومت مظفرآباد کا درجہ حرارت غیر معمولی طور پر بڑھا ہے اور وادی نیلم کے موسم میں شدت ایسی مہلک ہوئی کہ اس سال برف کے تودے گرنے سے ایک پورا گاوں سرد قبر میں بدل گیا اور درجنوں لوگ اس قبر کا رزق بن گئے۔

ان منصوبوں کی تعمیر کے دوران زیر زمین بلاسٹنگ کے نتیجے میں پہاڑوں میں صدیوں سے موجود پانی کی قدرتی رَگیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں اور کئی دیہات قدرتی چشموں سے محروم ہو گئے۔ وہاں کی آبادیاں اب شدید مشکل میں ہیں۔ ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے متعلق حال ہی میں صحافی جلال الدین مغل نے ایک تحقیقی رپورٹ بھی مرتب کی ہے جس کے مندرجات آدمی کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہیں۔

‘آزادکشمیر’ میں دریاوں کا قدرتی بہاو روک کر ڈیم بنانے کے عمل کے خلاف حالیہ برسوں میں وہاں کی سول سوسائٹی کافی متحرک رہی ہے۔ انہوں مسلسل احتجاج کیے اور بہتے دریاوں کو روکنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ مقامی حکومت اور بجلی کے محکمے (واپڈا) نے اس منصوبے پر کام شروع کرتے ہوئے شہریوں کو کئی طرح کی یقین دہانیاں کرائی تھیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

مظفرآباد کے شہریوں نے جب شہر سے گزرنے والے دو دریاوں پر روک لگانے کے بعد شہر کی ممکنہ بربادی کے اندیشے ظاہر کیے تو انہیں کہا گیا کہ ہم شہر میں متبادل جھیلیں بنائیں گے تاکہ ماحول متاثر نہ ہو۔ صاف پانی فراہم کریں گے ، سیوریج کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں گےاور ڈیم سے مناسب مقدار میں پانی دریاوں میں چھوڑا جائے گا وغیرہ وغیرہ لیکن ابھی تک شہری ان وعدہ کرنے والوں کی راہ تک رہے ہیں۔

مظفرآباد میں چلنے والی ”دریا بچاو تحریک” کے ایکٹوسٹس نے حکومت اور بجلی کے محکمے پر دباو مسلسل بڑھایا۔ ماحولیاتی اداروں کی جانب سے بھی ان پراجیکٹس پر مستقبل کے ممکنہ ماحولیاتی خطرات کے حوالے سے کئی طرح کے تحفظات کا اظہار کیا گیا، اس بارے میں یہ تحریک مسلسل سوال اٹھاتی رہی لیکن مقامی حکومت اور بجلی کا محکمہ دونوں کھوکھلے بیانات سے آگے نہیں بڑھے۔اس کے بعد کسی وجہ سے اس تحریک کی سرگرمی محدود ہو گئی لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔اگر وہاں ماحولیاتی اثرات نے مزید شدت اختیار کی تو اب کی بار لوگوں کا ردعمل شدید تر ہوگا۔

مظفرآباد اپنی جنم بھومی ہے، اس لیے اس کا ذکر قدرے مفصل ہوگیا لیکن ملک کے شمالی علاقوں میں اور بھی ایسے ہی منصوبے لگائے جا رہے ہیں، ایک مجوزہ منصوبے بھاشا ڈیم کے لیے تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایسی ڈرامائی مہم چلائی کہ اس وقت ہمیں لگا کہ کل پاکستان میں پانی نام کی چیز ڈھونڈے نہیں ملے گی۔ ایسے منصوبے ماحول کو متاثر کرتے ہیں، ہاں اگر ان کے ممکنہ منفی اثرات کے تدارک کے لیے ماحولیانی ایجنسیوں کی رہنمائی سے متبادل منصوبہ بندی کی جائے تو اثرات کی شدت کسی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے اخبارات میں شائع ہونے والے ایک اشتہار پر پڑی جس میں عوام سے تجاویز مانگی گئی ہیں

کل میری نگاہ پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے اخبارات میں شائع ہونے والے ایک اشتہار پر پڑی جس میں ای ویسٹ کے ماحول دوست انتظام کے لیے تجاویز مانگی گئی ہیں، میرا خیال ہے کہ مظفرآباد اور دیگر علاقوں میں ماحول اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں فکر مند لوگوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔

‘دریا بچاو تحریک’ سے وابستہ ایکٹوسٹس نے ان منصوبوں ، ان کے منفی اثرات ، عالمی ماحولیاتی ضابطوں ، پاکستان اور آزادکشمیر میں ماحولیات کے محکموں کی سفارشات وغیرہ پر کافی تحقیق کر رکھی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ وقت نکال کر اپنی سفارشات مرتب کریں اور پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی تک پہنچائیں ، کیا بعید ہے کہ وزارت میں کوئی معقول آدمی انہیں لائق توجہ قرار دے کر انسان دوست قدم اٹھانے کی ٹھان لے۔

توقع ہے کہ عالم انسانیت کورونا وائرس کے خوف اور خطرے سے جلد نجات پا لے گا، اس سے پہلے بھی کئی وباؤں کا خاتمہ کامیابی سے ہو چکا ہے ۔اس وقت پوری دنیا کے سامنے بڑا سوال تباہ کن موسمیاتی تبدیلیوں کا ہے۔ جس توجہ سے اس وقت شرق وغرب کے ممالک کورونا وائرس کے خوف سے نجات حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور’’لاک ڈاؤن‘‘ سب کی مشترک ثقافت بن چکا ہے، بالکل اسی طرح تمام ممالک کو ماحول دوست منصوبوں کے لیے بھی ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ ماحول دوستی کو عالمی ثقافت بنانا ہوگا۔

ابھی تو حفاظت کی غرض سے کیے گئے لاک ڈاؤن کے تجربے سے ہم سب گزر رہے ہیں۔ اگر اس کرہ ارض کو بے حسی سے اُدھیڑنے چھیدنے کا بے ہنگم سلسلہ نہ رُکا تو اس سیارے پر موجود انسانوں اور دیگر حیات کی بقا کا سوال پیدا ہو جائے گا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے