پکوڑے بیچنے والے اور ڈنڈے کھانے والے کیسے معتبر ہوگئے

پکوڑے بیچنے کے طعنے سننے والے اور چوکوں سڑکوں پر ڈنڈے کھانے والے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کو کورونا وائرس سے بچاﺅ کے پیش نظر فرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کرنے پر پورے ملک میں سلامیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ سکیورٹی فورسز سے لیکر حکومتی ورزی، امدادی کارکن اور معاشرے کے دیگر طبقات جہاں کہیں بھی طبی عملے کو دیکھتے ہیں ، انہیں سلامی پیش کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر وہ افراد جو اپنی گاڑیوں میں کسی کو لفٹ نہیں دیتے تھے، ہسپتالوں کے باہر ڈاکٹرز سمیت طبی عملے کو گاڑی میں اٹھا کر ان کے گھر تک پہنچاتے ہیں۔

[pullquote]طبی عملے کو پہلی سلامی کب دی گئی؟؟؟[/pullquote]

20 مارچ کو جب حکومت پاکستان نے ملک بھر میں لاک ڈاون کا اعلان کردیا ، تو سوشل میڈیا پر طبی عملے کو سلامیاں دینے کا آغاز ہوا، تاہم ملک بھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کو پہلا سلوٹ ، قبائلی ضلع کرم کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوآرٹر ہسپتال پاڑہ چنار میں ڈی پی او محمد قریش خان نے کیا۔ ڈی پی او محمد قریش خان بتاتے ہیں کہ تفتان سے آنیوالے زائرین کے پیش نظر قبائلی ضلع کرم انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ سکیورٹی انتظامات کی نگرانی کےلئے وہ اپنے عملے کے ساتھ 25 مارچ کو ڈی ایچ کیو پاڑہ چنار کا دورہ کررہے تھے، کہ وہاں ہسپتال میں داخل ایک نرس بہت زیادہ کھانس رہی تھی ، ان کو علاج کی غرض سے ایک کمرے تک محدود رکھا گیا تھا، جب میں نے اس کے کمرے کا دورہ کیا تو اس نرس کی آنکھوں میں خدمت کا عجیب سا جذبہ تھا، اور اس نرس نے مجھے بتایاکہ وہ بیماری کی حالت میں بھی ڈیوٹی دینے کےلئے تیار ہیں۔

نرس کا یہ کہناتھاکہ بے ساختگی سے پولیس عہدے کا خیال رکھے بغیر ، میں نے انہیں سیلوٹ کیا۔ جب اس کمرے سے نکل آیا تو او پی ڈی میں مزید دو ڈاکٹرز بھی اپنے فرائض ادا کررہے تھے، میں نے انہیں بھی سیلوٹ کیا ، ہسپتال کے ایم ایس نے کہا کہ تمام طبی عملہ مریضوں کی خدمت کےلئے کوشاں ہیں۔ اس دوران مقامی فوجی افسر بھی آئے اور 23 مارچ کےلئے جو پھولوں کے ہار خریدے گئے تھے، انہیں لایا گیا اور ہسپتال کے تمام عملے کو سیلوٹ کرنے کے بعد انہیں وہ ہار پہنائے گئے۔

ڈی پی او قریش خان کہتے ہیں ہمارے لئے صرف ڈاکٹرز نہیں تمام طبی عملہ فرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کررہا ہے۔ قریش خان کی فوٹو سوشل میڈیا پروائرل ہوگئی اور اس کے بعد پورے ملک میں طبی عملے کو سلامیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوات، مردان، صوابی، پشاور، خیبر اور صوبے کے دیگراضلاع میں بھی وزرائ، ایم پی ایز، ایم این ایز اور دیگر اہم شخصیات کی جانب سے طبی عملے کو گارڈ آف انر پیش کیا گیا۔

[pullquote]پکوڑے بیچنے والے اور ڈنڈے کھانے والے کیسے معتبر ہوگئے؟؟؟[/pullquote]

27ستمبر کو خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ پشاور میں جب ڈاکٹروں سمیت طبی عملہ اپنے مطالبات کےلئے احتجاج کررہاتھا، تو پشاور کے شیر شاہ سوری پل کے قریب پولیس نے ان پر لاٹھیاں برسائیں اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا ، اس دوران ڈاکٹروں کو زد و کوب کیا گیا، اور 40 سے زائد ڈاکٹروں کو گرفتار کرنے کے بعد مختلف جیلوں کو منتقل کیاگیا۔ جب ڈاکٹرز اپنے مطالبات کےلئے احتجاج کررہے تھے ، تو اس وقت کے صوبائی وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی نے پریس کانفرنس کے دوران از راہ تفنن کہا کہ یہ ڈاکٹرز تو خیبر بازار میں پکوڑے بیچتے تھے، بعد ازاں شوکت یوسفزئی نے ڈاکٹروں سے معذرت بھی کی۔ قبل ازیں ڈاکٹروں کے احتجاج کے دوران صوبے کے دوسرے بڑے خیبرٹیچنگ ہسپتال میں احتجاج کے دوران اس وقت کے وزیر صحت ہشام انعام اللہ نے ڈاکٹر ضیاءآفریدی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی فوٹیج آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ گزشتہ سال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں احتجاج کے دوران پولیس نے مسیحاوں پر تشدد کیاتھا۔ 2018ء میں سروس سٹرکچر کےلئے احتجاج کرنے پر پشاور پولیس نے شیر شاہ سوری پل کے قریب نرسوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔ گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں بھی ڈاکٹروں کو احتجاج کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

[pullquote]ڈاکٹروں کا مطالبہ کیا ہے؟؟؟[/pullquote]

صوبے کے مختلف ڈاکٹروں نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ طبی عملہ فرائض کی ادائیگی سے قبل حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ رنگ و نسل اور عقیدے کے بغیرانسانیت کی خدمت کریں گے۔ کرونا وائرس کی تدارک کےلئے اس وقت طبی عملہ پوری دنیا میں فرائض انجام دے رہا ہے۔ اس وقت طبی عملے کو سب سے زیادہ عوام کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ انہیں کرونا وائرس سے لڑنے کےلئے بین الاقوامی معیار کے حفاظتی کٹس اور ماسک کی اشد ضرورت ہے، حکومت اپنی تیئں کوشش کررہی ہے کہ دستیاب وسائل میں طبی عملے کو تمام تر سہولیات پہنچائے جائیں، بلوچستان کا واقع قابل افسوس ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق سلامیاں پیش کرنے پر وہ پوری قوم کی شکر گزار ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے