آزادکشمیر عدلیہ کا نرالا باوا آدم اور کشمیر کونسل

آزاد کشمیر عبوری ایکٹ 1974ء سے پہلے عدلیہ میں ہر سطح کی تقرریاں آزاد کشمیر حکومت کے اختیار میں تھیں، اسامی خالی ہوتے ہی دوسرے دن تقرری ہو جاتی تھی. ماتحت عدالتوں کے علاوہ ہائی کورٹ بنیادی اختیارات کی حامل انتظامی کورٹ تھی اور جوڈیشل بورڈ اپیلیٹ کورٹ ہوا کرتا تھا – جوڈیشل بورڈ کو صرف ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلُیں سننے کا اختیار تھا ،سپریم کورٹ کو عبوری آئین 1975 کے تحت اس وقت بھی صرف اپیلیں سننے کے ہی اختیارات ہیں اور یہ عملآ جو ڈیشل بورڈ کےمتبادل عدالت ہے ، لیکن سپریم کورٹ کے نام کی وجہ سے کافی عرصہ سے سپریم کورٹ پاکستان کی طرز پر اختیارات استعمال کرنے کی مہم جوئی نے جوڈیشل سسٹم کو عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے ، جس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے.

ایکٹ 1974ء سے پہلے دونوں عدالتوں میں تقرریاں آزاد کشمیر حکومت کے ہی اختیار میں ہوتی تھیں ، تاہم رسمی طور منسٹری کشمیرافئیرز کو اعتماد میں لے لیا جاتا تھا یا اطلاع دی جاتی تھی – جب سے اعلیٰ عدلیہ کی تقرریوں میں حکومت پاکستان ، کونسل کے نام شامل ہوئے ، یہاں کبھی بھی بر وقت تقرریاں نہیں ہوئیں اور بسا اوقات تقرریاں ٹھونسی بھی گئیں جس کا شدید رد عمل ہوتا رہا – میں ذاتی طور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پورے ملک کے سسٹم کا حصہ بنانے کے حق میں ہوں، لیکن جب تک نہیں ہوتا، اس وقت تک جوسسٹم ہے اس کو مناسب اور بر وقت چلائیں – آزاد جموں کشمیر کونسل نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان سے اتنا دور کیا ، جتنا دشمن بھی نہیں کر سکا – اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے-

پاکستان اور آزاد کشمیر کے آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں میں پاکستان کے آئین میں اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعدایک بنیادی مگر دور رس تبدیلی یہ آئی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں ایک جوڈیشل بورڈ اور اس کے بعد پارلیمانی بورڈ کی سفارشات کے بعد صدر کی منظوری سے کی جاتی ہیں اور بر وقت کی جاتی ہیں، کیونکہ وہاں حکومت پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے اور حکومت عدلیہ کے سامنے بھی جواب دہ ہے. اس لیے وہاں کسی صوبے کے ہائی کورٹ یا سپریمُ کورٹ میں کسی بھی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس عدالت کے سینئیر موسٹ جج کو چیف جسٹس نامزد کیا جاتا ہے اور بروقت تقرری ہو جاتی ہے – ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں ججوں پر دباؤ رکھنے کے لیے ایکٹنگ چیف جسٹس مقرر کئے جاتے رہے لیکن مشہور وہاب الخیرکیس کے فیصلے کے بعد ایسا ہونا بند ہو گیا اور اٹھارھویں ترمیم کے بعد تو معاملات مکمل طور یکسو ہو گئے ہیں-

اِدھر آزاد کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے – یہاں ایکٹ 1974 کے نفاذ کے بعد کبھی بھی چیف جسٹس کی بروقت تقرری نہیں ہوئی کیونکہ اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں کشمیر کونسل کی ایڈوائس کے تابع رہی ہیں جہاں پہلے تو بے رحم بیوروکریسی اس کو طاق نسیاں میں‌ رکھ دیتی تھی – پھر وزیر اعظم پاکستان ، جو چئیرمین کشمیر کونسل ہیں ، اپنے اور حکومت پاکستان کی وزارت قانون کے ذریعہ اس کی سکیننگ کرتے تھے، جہاں سے فائل نکلنا بھی ایک کارے دارد والی بات ہے-

ایک زمانے میں راجہ خورشید مرحوم چھے سال ایکٹنگ چیف جسٹس رہے اوردوسرا جج بھی تعینات نہیں کیا گیا – اسی طرح کبھی بھی یہاں مستقل جسٹس کی تقرری عمل میں نہیں لائی گئی ، سوائے ایک بار جنرل مشرف کے زمانے میں سپریم کورٹ کے ایک جو نئیر ترین جج کی تقرری چھٹی والے دن کی گئی اور اسی دن حلف بھی ہوا- جب اس سے ملتی جلتی واردات جنرل مشرف نے افتخار چوہدری کے ساتھ کی تو پاکستان کی تاریخ کی سمت ہی بدل گئی، لیکن آزاد کشمیر کا پر نالہ وہیں کا وہیں ہے –

آزاد کشمیر میں تیرھویں آئینی ترمیم کے وقت اس قضیے کو دور کرنے کا ایک نادر موقعہ آیا تھا لیکن آئینی مضمرات سے بے بہرہ لوگوں نے اس کا ادراک نہ کیا – آزاد کشمیر کونسل کے مالی اور انتظامی اختیارات تو ختم کردیے لیکن ججوں کی تقرری کا پرنالہ بالواسط پھر وہیں رہا-

شنید ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی تقرری کے لیے آئینی روایات کے مطابق ان کی ریٹائیر منٹ سے کئی ماہ پہلے سینئر موسٹ ججوں کی بطور چیف جسٹس تقرری کی سفارش پرائم منسٹر پاکستان، جو چئیرمین کشمیر کونسل ہیں ، کو بھیج دی ہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی – نہ معلوم پاکستانی بیوروکریسی آزاد کشمیر کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھتی ہے، مقبوضہ سمجھتی ہے یا ان کے کا غذوں میں یہ ہے ہی نہیں-

ہندوستان کے زیر قبضہ پوری ریاست کی آزادی کے لیے مستعدحکومت پاکستان اس ریاست کے ایک حصے کو اپنے آئین میں شامل کرکے اس کو جائز مقام دیتی ہے نہ ہی دیے ہوے مقام کااحترام کرتی ہے، ایسا کیوں کرتی یا کون کراتا ہے ، یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا – بھئی! جو حصہ آپ کے پاس ہے اس کو قابل رشک نہ سہی ، اتنا احترام تو دیں جو اکیسویں صدی میں انسانوں اور عدلیہ جیسے اداروں کا دنیا میں ہے !!!

مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 سے پہلے ریاست میں ہائ کورٹ کے ججوں کی تقرری ریاستی آئین کے تحت صدر بھارت کرتے تھے- کیا مجال کبھی بھی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی اس کے جانشین کے تقرری نہ کی گئی ہو، حالانکہ مرکز کےریاست کے ساتھ تعلقات عمومی طور نارمل نہیں رہتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ سسٹم اور مقامی لوگوں کے ساتھ اختلاف کےباوجود سسٹم کو فالو کیا جاتا تھا –

آزاد کشمیر کو سسٹم بھی حکومت پاکستان نے دیا ہے اور یہاں کے لوگوں کے تحفظات کے باوجود آزاد کشمیر حکومت اس پر عمل بھی کرتی ہے، اس کے باوجود حکومت پاکستان کا اعلیٰ عدلیہ میں چیف جسٹسز کی تقرریوں کی منظوری نہ دینا کم از کم الفاظ میں آزاد کشمیر کو بے حیثیت سمجھنا ہے – میری شنید کے مطابق معاملہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں متحارب جماعتوں کی حکومت کا ہوناہے – مرکزی حکومت آزاد کشمیر حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ایسا کر رہی ہے – ایساکرنے کے لیے مرکزی حکومت میں آزاد کشمیر کونسل کی سابق بیوروکریسی مختلف تاویلیں دے کر مرکز میں متحارب جماعت کےحکمرانوں کو “ پرانی بال و پر “ والی کونسل بحال کرانے کے لیے گمراہ کر رہی ہے ، جس کے لیے مختلف حیلے بہانے گھڑے جارہےہیں-

شنید ہے کہ مرکزی حکومت کے ذمہ داران ان لوگوں کے گمراہ کیے جانے پر یہ بہانہ تراش رہے ہیں کہ آزاد کشمیر آئین کی دفعات 42 اور 43 کے تحت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بشمول چیف جسٹسز ، ججز کی تقرری پوری کونسل نے مل کر کرنا ہے اور “ کونسل کا مطلب آزاد کشمیر اسمبلی کے منتخب اور وزیر اعظم پاکستان کے نامزد ممبران نے مل کر یہ فیصلہ کرنا ہے-”

یہ انتہائی مضحکہ خیز اور شرارت آمیز اپروچ ہے – ججز کی تقرری انتظامی عمل ہے اور کشمیر کونسل کے سربراہ وزیراعظم پاکستان بطور چئیرمین کشمیر کونسل ہیں ، اس میں صرف ان کی منظوری چاہیے ، ممبران کا اس میں کوئی لینا دینا نہیں – چیف جسٹس کوئی عوامی نمائندگی کا عہدہ نہیں کہ اس پر ممبران کی رائے یا ان سے ووٹنگ کرائی جائے – اس کے لیے دنیا بھر میں ایک معروف طریق کار مقرر ہے اور ویسا ہی ہونا چاہیے-

آئین میں تیرھویں ترمیم کے بعد کونسل کے ادارے کی ذمہ داریوں کا تعین دفعہ 21(8) کے تحت کیا گیا ہے ، جس کے مطابق اس نے “ دفعہ 31(3) اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے حکومت پاکستان/ چئیرمین کشمیرکونسل کے لیے مشاورتی فورم ہے “ کونسل کا بطور ادارہ صرف اتنا کام ہے، انتظامی معاملات میں ان کا کوئی رول یا اختیارنہیں – اتنی واضح آئینی پوزیشن کے ہوتے ہوئے ججوں کی تقرری کو کونسل کے اجلاس کے سپرد کرنے کی شرارت کے علاوہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے –

اتنا ہی نہیں، آئین کے شیڈول تین کے تحت قانون سازی کے اختیارات بھی اب کونسل کے بجائے حکومت پاکستان کو دیےگئے ہیں جو تیرھویں ترمیم سے پہلے کونسل کے پاس تھے – میں ذاتی طور اس سکیم کو غلط سمجھتا ہوں ، لیکن جب تک یہ دفعہ موجودہے ، اس کے مطابق کیا گیا عمل ہی قانونی ہوگا – لہٰذا چیف جسٹسز کی تقرری کے لیے کونسل کے ممبران سے منظوری لینے کی اختراع آئین کی عدم خواندگی ، نیم خواندگی ، ناسمجھی ، تجاہل عارفانہ یا شرارت ہے –

ادھر آزاد کشمیر کے کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ چونکہ وزیراعظم پاکستان کو تیرھویں ترمیم کے تحت پہلے کی طرح از خود ایگزیکٹیواتھارٹی نہیں دی گئی اس لیے وہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کی ایڈوائس کے پابند ہیں اور اس کے مطابق ہی عمل کرنا ہے ، یہ سوچ بھی دور کی کوڑی لانے کے برابر ہے – یہ آئینی جورس پروڈنس کا مسلمہ اصول ہے کہ جس اتھارٹی کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے ،اس کے تحت انتظامی اختیار بھی اسی کے پاس ہوتے ہیں ، تاہم وہ یہ اختیارات کسی دوسری اتھارٹی کو تفویض بھی کر سکتا ہے ۔

تیرھویں ترمیم کے تحت شیڈول تین کے قانوں سازی کے اختیار کسی ایڈوائس کے تابع نہیں – نہ ہی آزاد کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ میں تقرری سوائے چیف جسٹسز کے کسی دیگر اتھارٹی سے منسلک ہے – دوسری بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم دفعہ 7 کے تحت صرف صدر آزاد کشمیر کو ان معاملات کے بارے میں ایڈوائس دے سکتے ہیں جن پر اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے ، چئیرمین کونسل یا وزیراعظم پاکستان کو نہیں –

تیسری بات یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی تقرری وزیراعظم پاکستان کی ایڈوائس کے تابع ہےاور آئین کے شیڈول چار اور پانچ کے تحت آزاد کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ کی شرائط ملازمت ان کے ہم پلہ پاکستان ججوں کے برابر ہوں گی، وزیر اعظم آزاد کشمیر کا اس اصول کی مشابہت (Analogy) کی بنا پر کونسل کے معاملات میں کوئی رول نہیں ہے- آئین کواس کی روح کے مطابق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، خواہشات کے مطابق نہیں –

حکومت پاکستان کی بیورو کریسی ، جو کونسل کے نام پہ اوپریٹ کرتی ہے ، کی اس روش کے نہ بدلنے کی وجہ سے کونسل کے مالی اور انتظامی اختیار کی حد تک آئین میں تیرھویں ترمیم کی گئی تھی، تاکہ حکومت / وزیر اعظم پاکستان ، براہ راست آزاد کشمیر کے بقیہ معاملات کو اعلیٰ سطح پر خود دیکھیں اور نمٹائیں ، لیکن عدلیہ کی حد تک پھر وہی کچھ ہورہا ہے –

ان حالات میں میری تجویز ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے لیے پاکستان کے آئین کی طرز پر جوڈیشل سلیکشن بورڈ بنایاجائے یا چئیرمین/ کونسل کی ایڈوائس کے بجائے متعلقہ دفعات میں لفظ consultation لکھا جائے- اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں براہ راست وکلاء سے تقرریوں سے متعلق دفعہ حذف کرنی چاہیے ، یا کم از کم اس پر عمل نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے براہ راست مستقل اور ایڈ ہاک تقرریوں نے ہائی کورٹ کے جج کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار قباحتیں اور بد انتظامیاں زور پکڑ گئی ہیں – اگر ایسا بھی نہیں کر سکتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر صرف ایک سپریم کورٹ ہو جس کے اندر ہی سے ہائی کورٹ کا ایک بنچ قائم کیا جائے جس سے بر تری اور انتظامی مسابقت کا رجحان ختم ہوسکے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے