28 اپریل اور گلگت بلتستان کی شناخت کا مسئلہ

آج 28 اپریل ہے۔
ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں اِس دن کو ملے جلے انداز میں یاد کیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے 28 اپریل 1949 کو ہونے والا ”معاہدہ کراچی” ان نمایاں اسباب میں سے ہے جو ریاست کی تقسیم کی بنیاد بنے۔ ایک معاہدے کے لیے جو بنیادی لازمی شرائط ہیں وہ اس میں نہیں پائی جاتیں لیکن ہم اسے اصطلاحاً معاہدہ ہی کہہ دیتے ہیں۔

یہ معاہدہ آزادکشمیر سے مسلم کانفرنس کے رہنما سردار ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس نے وزیر بے محکمہ کی عُرفیت رکھنے والے پاکستانی نمائندے مشتاق گورمانی کے ساتھ کراچی میں کیا تھا۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ میں جس متنازع ریاست جموں کشمیر کا ذکر ہے گلگت بلتستان اس کا حصہ ہے۔

اس معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا عارضی انتظام حکومت پاکستان کے سُپرد کر دیا گیا تھا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران گلگت بلتستان کے عوام سے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا گیا۔ان کا کوئی نمائندہ وہاں موجود نہیں تھا۔ یعنی اس وقت 28 ہزار مربع میل علاقے کے مستقبل کا فیصلہ 4 ہزار مربع میل کے دو لیڈرز کر رہے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ چوہدری غلام عباس نے معاہدے کی دستاویز پر نوٹ لکھا تھا کہ وہ مسلم کانفرنس کی حد تک اس معاہدے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ذاتی حیثیت میں انہیں یہ قبول نہیں۔ اگر یہ درست ہے تو بھی چوہدری صاحب بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ یہ محض عذر لنگ ہے ، سیاسی رہنما کی ایسی صورت حال میں کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔

یہ عجیب وغریب معاہدہ تھا جس میں اصل اسٹیک ہولڈرز(گلگت بلتستان کے لوگ) موجود ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد گلگت بلتستان میں بار بار اسٹیٹ سبجیکٹ رول معطل کیے جاتے رہے۔ وہاں کے لوگوں کی کئی دہائیاں بدترین سماجی ، معاشی اور سیاسی پس ماندگی اور شناخت کے بحران کی نذر ہو گئیں۔

بیوروکریسی کے ذریعے وہاں کے عوام پر حکومت کی جاتی رہی۔ خصوصی آرڈیننسز کے ذریعے وہاں کا نظم گھسیٹا جاتا رہا۔ اس کے بعد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے درمیان دُوریاں پیدا ہوئیں۔ گلگت کے لوگ یہ کہنے لگے کہ آزادکشمیر کے سیاسی رہنماوں نے ہمارا سودا کیا ہے۔ اس طرح بے اعتمادی بڑھی اور دونوں خطوں کے درمیان ریاستی رشتے کمزور ہو گئے۔

چند سال قبل گلگت بلتستان میں سیاسی عمل تو کسی نہ کسی شکل میں شروع ہو گیا لیکن مسائل اب بھی بے شمار ہیں۔ حکومت پاکستان کو سمجھ نہیں آ رہا کہ اس خطے کو اسٹیٹس کیا دیا جائے۔ اس دوران کچھ نئے آئینی آرڈرز بھی سامنے آئے ہیں لیکن ابھی بھی وہاں بہت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

میں معاہدہ کراچی کو آج یاد نہیں کرنا چاہتا تھا،صرف لوگوں کا اظہار خیال یا ردِعمل دیکھ کر آگے گزر رہا تھا ۔لیکن جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج صاحبان کے تازہ ریمارکس پر نگاہ پڑی تو سوچا کہ کچھ بات ہو جائے۔

جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ ”گلگت بلتستان کے شہریوں کو بھی وہی حقوق دیے جائیں جو پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں۔ وہ کہتے ہیں گلگت بلتستان میں گورننس آؤٹ اسٹینڈنگ ہونی چاہیے کیونکہ اس خطے کی بڑی عالمی اور سیاسی اہمیت ہے وغیرہ وغیرہ۔“

اس پر یہی کہوں گا جج صاحبان کو وقت نکال کر کسی پڑھے لکھے باخبر آدمی سے مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے تعلق پر بریفنگ لے لینی چاہیے ۔ معاملات ویسے سادہ نہیں ہیں جیسے یہ سمجھ رہے ہیں۔

جب بھارت کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو اپنے زیر انتظام ریاست کی خصوصی شناخت ایک آئینی وارادت کے ذریعے ختم کی تو پاکستان کے مختلف حلقے سیخ پا نظر آئے، اس وقت میں نے عرض کیا تھا کہ بھارت نے جو کام 5 اگست 2019 کو کیا ہے ، وہی کام پاکستان کی جانب سے اپنے زیر انتظام علاقوں میں برسوں پہلے کیا جا چکا ہے۔ میرا اشارہ گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کی معطلیوں کی جانب تھا۔

اب تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ اس ریجن میں تقسیمیں ہمیشہ بڑھی ہیں۔ جغرافیائی تبدیلیاں Undo ہونے کی مثالیں یہاں نہیں ہیں۔ نازک پہلو یہ ہے کہ گلگت بلتستان قانونی طور پر تنازع کشمیر کا حصہ ہے۔

اب پاکستان کے پاس تین آپشن ہیں جن میں سے قابلِ عمل دو ہیں لیکن ہر ایک کی الگ قیمت بہرحال چکانا پڑے گی:

1. ایک یہ کہ گلگت بلتستان کو مستقل طور پر پاکستان اپنا حصہ قرار دے دے جس کا لازمی نتیجہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھارت کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ریاست جموں کشمیر کی مستقل تقسیم کو مان لینا، میرا گمان ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ فیصلہ ساز کسی نہ کسی سطح پر یہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں۔

2. دوسری آپشن یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سیاسی سیٹ اپ دے دیا جائے ، وہاں کے شہریوں کو آزاد کشمیر کے برابر بااختیار کر دیا جائے اور وہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال رکھا جائے۔ اس صورت میں پاکستان تنازع کشمیر میں اپنی پوزیشن کا کسی حد تک دفاع تو کر سکتا ہے لیکن گلگت بلتستان کے ساتھ جڑے معاشی امکانات اور چین کے ساتھ معاملات کی وجہ سے پاکستان کوئی بڑا رسک لینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہا۔

3. تیسری آپشن یہ ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو آپس میں ضم کر کے ایک مشترک سیٹ اپ کے تحت قرار دے دیا جائے، یہ اب تقریباً ناقابل عمل آپشن ہے۔ بیرونی وجوہات کے ساتھ ساتھ اب ان دو ریجنز میں کئی طرح کی داخلی فورسز ایسی بھی موجود ہیں جو اسے قبول نہیں کریں گی۔

کیا کیجیے! خواہشیں تو لامحدود ہوتی ہیں لیکن زمینی حقائق ضروری نہیں کہ خواہشات کے موافق ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے