روزانہ 800 روپے کرایہ نہیں دے سکتے گردوارہ جانا ہی چھوڑ دیا ہے

‘ہمارے صدر کے علاقے میں کوئی گردوارہ فعال نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے گھروں میں عبادت کرنے پرمجبور ہیں، گردوارے ہیں لیکن وہاں عبادت نہیں ہوتی’

یہ خیالات پشاور کے علاقے نوتھیہ سے تعلق رکھنے والی سکھ کمیونٹی کی خاتون حنا کماری کے ہیں۔ حناکماری کے مطابق ان کے علاقے میں 60 سے 70 تک گھرہیں ، لیکن ان کے پاس عبادت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حنا کماری نے کہا کہ صدر کے علاقے میں پانچ کے قریب گردوارے موجود ہیں لیکن کچھ میں کرایہ دار لوگ رہتے ہیں، کچھ بند ہیں اور کچھ بک چکے ہیں اور بارہا مطالبات کےباوجود بھی ہماری کوئی بات نہیں سنی گئی۔

حنا کماری نے بتایا ‘ ہمیں کہا جاتا ہے کہ گردوارہ بائی بیبا سنگھ جاؤ، جوگا سنگھ جاؤ، لیکن وہ ہمارے علاقے سے 7 سے 10 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہے اور آنے جانے کا 800 روپے کرایہ لگتا ہے اور ہم نہیں کرسکتے کہ روزانہ اتنا کرایہ دے اور وہاں عبادت کریں، پھر ہماری عبادت کا وقت بھی صبح سویرے اور رات کو ہوتا ہے، تو ہمارے لیے مشکل ہے کہ روزانہ وہاں جائیں اور صدر غلہ منڈی میں جو گردوارہ بند پڑا ہے، وہ ہم سے بہت قریب ہے، تو ہم چاہتے ہیں کہ یہ کھول دیا جائے تاکہ ہم آسانی سے اپنی عبادت کرسکیں’۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مذہبی تہواربھی گھروں میں مناتے ہیں اور اگر کوئی بڑا تہوار ہو تو پھرجوگن شاہ یا حسن ابدال چلے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پشاور صدر میں سکھ برادری کے جنرل سیکرٹری آشونی سنگھ نے بتایا کہ غلہ منڈی میں موجود ان کا گردوارہ گزشتہ 72 سالوں سے بند ہے، تقسیم سے پہلے یہ گردوارہ ان کے آباو اجداد کے کنٹرول میں تھا لیکن پھر گروارہ سیل ہوگیا اور حکومت کی تحویل میں چلا گیا اور تب سے بند ہے۔

آشونی سنگھ نے بتایا’ حکومت کی تحویل سے پھر گردوارہ محکمہ اوقاف کے پاس چلا گیا اور وہاں اب مہاجر لوگ رہائش پذیر ہیں ہم نے کئی بار حکومت سے مطالبہ کیا کہ غلہ منڈی والا گردوارہ ہماری عبادت کے لیے کھول دیا جائے، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی، ہمارے علاقے میں گردوارے تو ہیں ، لیکن وہ بند ہونے کی وجہ سے وہاں ہم عبادت نہیں کرسکتے ، تو مجبورا گھروں کی چھتوں پر اپنی عبادات کرتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند سے پہلے آر اے بازار میں بھی ایک گردوارہ تھا ، جس کے ساتھ مندر بھی تھا جس کے بعد ہندووں اور سکھوں کے درمیان اس پر لڑائی جھگڑے ہونے لگے، جس کے بعد حکومت نے اس گردوارے کو بند کردیا اور اس گردوارے کے حوالے سےان کا ایک کیس بھی چل رہا ہے، جس کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا ‘ تنازعے کے بعد ہم نے ہندوئوں کے ساتھ ایک جرگہ کیا اور اس بات پرفیصلہ ہوا کہ ہم یہ جگہ مندر کے لیے چھوڑ دیں گے اور اس کے متبادل ہمیں دوسری جگہ گوردوارہ دیا جائے گا، پھرہم نے مطالبہ کیا کہ غلہ منڈی میں جو گردوارہ بند پڑا ہے اس کو سکھ کمیونٹی کے لیے کھول دیا جائے تاکہ ہم وہاں اپنی عبادت کرسکیں ، لیکن غلہ منڈی والا گردوارہ ابھی تک نہیں کھولا جاسکا’۔

انہوں نے کہا کہ صدر میں چار پانچ گردوارے ہیں ، لیکن کہیں پہ پلازے بن گئے ہیں ، تو کسی میں کرایہ دار رہ رہےہیں اور صدر کی سکھ کمیونٹی گھروں میں عبادات کرنے پرمجبور ہیں ، کیونکہ باقی گردوارے دور ہیں اور نہیں کرسکتے کہ روزانہ کی بنیاد پرہشت نگری گردوارہ جائیں۔

دوسری جانب پشاور میں متروکہ وقف املاک کی جانب سے گردوارہ بائی جوگا سنگھ ڈبگری گارڈن اور گردوارہ بائی بیبا سنگھ ہشت نگری کے کیئر ٹیکر محمد اشفاق نے بتایا کہ یہ دونوں گردوارے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دورمیں 1822 سے 1839 کے دوران بنائے گئے ہیں ، جہاں سکھ برادری کے لوگ صبح اور شام کے وقت اپنی عبادات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سکھ کمیونٹی کے لوگ صبح چار سے آٹھ بجے تک اور شام پانچ سے آٹھ بجے تک مذہبی عبادات اور رسومات اداکرتے ہیں۔ محمد اشفاق نے کہا کہ دونوں گردواروں میں سکھ کمیونٹی کے لوگ بلاجھجک عبادت کے لیے آتے ہیں ، جبکہ ان کے اخراجات متروکہ وقف املاک کی جانب سے برداشت کیے جاتے ہیں۔

محمد اشفاق کے مطابق پشاور میں سکھوں کے لیے فی الحال یہ گردوارے کھلے ہوئے ہیں ، جبکہ گردوارہ بائی بیبا سنگھ ہشت نگری 30 مارچ 2016 میں متروکہ وقف املاک چیئرمین صدیق الفاروق کے ہاتھوں کھولا گیا تھا ، جہاں آج تک سکھ کمیونٹی کے لوگ اپنی عبادات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باڑہ اور دوسرے علاقوں سے سکھ پشاور آنے کے بعد پشاور میں سکھوں کے لیے یہ 2 سرکاری گردوارے کھولے گئے ہیں ، جہاں متروکہ وقف املاک کی جانب سے ایک سرکاری ہیڈ گرنتی، سکیورٹی کا عملہ، سی سی ٹی وی کیمرے، واک تھرو گیٹس اور باقی سہولیات دی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سکھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بھی پرائیویٹ سطح پر آر اے بازارپشاور، سوات، مردان اور بونیرمیں گردوارے کھلے ہوئے ہیں جہاں وہ اپنی عبادات کرتے ہیں ، لیکن وہ سرکاری نہیں ہے۔

حکومت کے ساتھ ساتھ کئی این جی اوز بھی اقلیتی برادری کے حقوق کے لیے سرگرم ہے۔ پشاور میں پچھلے چار سال سے اقلیتی برادری کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جرنلسٹ فارڈیموکریسی اینڈ ہیومین رائٹس یعنی جے ڈی ایچ آر کے رکن محبوب جبران نے بتایا کہ ان کا ادارہ مسلم کمیونٹی اور اقلیتی برادری کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے حوالے سے کام کررہا ہے۔

انہوں نے کہا’ اس کے علاوہ ہرصوبے میں انہوں نے 15 افراد پرمشتمل ایک پینل بنایا ہے جس میں پانچ صحافی ہوتے ہیں، پانچ اقلیتی برادری کے ارکان ہوتے ہیں جبکہ پانچ سوشل ورکر ہوتے ہیں ان کے باقاعدہ میٹنگز ہوتے ہیں جس میں اقلیتی برادری کے ارکان اپنے مسائل بیان کرتے ہیں ، جس کو بعد میں صحافی مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات اور ریڈیوز سے رپورٹ کی صورت میں نشرکرتے ہیں اور انکے مسئلے اعلیٰ حکام تک پہنچاتے ہیں’۔

محبوب جبران نے کہا کہ جب انکے ادارے نے کام شروع کیا تو اقلیتی برادری کو گردواروں، تعلیمی اداروں اور مذہبی تہواروں کی اجازت نہ ملنے سمیت کئی مشکلات تھے ، جو اب وقت کے ساتھ ساتھ حل ہورہے ہیں، کیونکہ پہلے جب انکا تہوار وغیرہ ہوتا تھا ، تو ہی صحافی جاکر انکی رپورٹ بناتے تھے لیکن صحافیوں کو تربیت دینے کے بعد اب انہوں نے انکے مسائل پربھی رپورٹنگ کرنا شروع کی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ صحافیوں اور اقلیتی برادری کا آپس میں رابطہ قائم ہوگیا ہے اب اگر ان کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو صحافیوں کو مطلع کرتے ہیں اور وہ اس پر رپورٹ بنالیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان کے ادارے نے تمام مکتبہ فکرکے علمائے کرام کو ایک ساتھ بٹھایا اور مذہبی اقلیتوں کو بتایا کہ اسلام میں ان کے کیا حقوق ہیں، اس کے ساتھ آئین پاکستان کیا کہتا ہے اور انکی ذمہ داریاں کیا ہے تو اس سے میں ان میں بہت آگاہی پھیلی۔ محبوب جبران کے مطابق اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے نوجوانوں کو بھی مختلف ٹریننگز دی جس کے بعد کچھ نوجوانوں نے باقاعدہ آرٹیکلز اور بلاگز بھی لکھنا شروع کیے اور خود ہی اپنے مسائل سامنے لانے لگے۔

غلہ منڈی گردوارے مسئلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ تقسیم ہند کے وقت سے چلا آرہا ہے لیکن وہاں مقامی لوگ قابض ہیں اور انہوں نے یہ جگہ 60، 70 سالوں کے لیے لیز پرلیا ہے تاہم اب انکے ادارے نے بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی ہے اور اس کے متعلق سٹوریز کی ہیں، وہاں قابض مقامی لوگوں، سکھ رہنماوں اور محکمہ اوقاف کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں اور اس پر 70 فیصدتک کام ہوچکا ہے امید ہے کہ جلد ہی ان کا یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔

چیئرمین سکھ کمیونٹی آف پاکستان اور چیئرمین مائنارٹی رائٹس فورم پاکستان رادیش سنگھ ٹونی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پشاور میں 4 تاریخی گردوارے موجود ہیں تاہم ان میں سے بھی دو بند ہیں جس کی وجہ سے سکھ برادری کو اپنی عبادات کرنے میں مشکلات درپیش ہے۔ غلہ منڈی گردوارے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا نام سنگھ سبا گردوارہ ہے اور یہ تقسیم سے ہی بند ہے جس کی وجہ سے صدر میں موجود سکھ برداری گھروں میں عبادات کرنے پرمجبور ہیں۔

رادیش سنگھ ٹونی نے بتایا کہ سنگھ سبا کے ساتھ ایک اور گردوارہ بھی تھا تاہم 2003،2004 میں اس کو گرا کر وہاں پلازہ بنادیا گیا ہے اور غلہ منڈی گردوارے میں محکمہ اوقاف نے کرایہ داروں کو ڈال رکھا ہے اور سکھ برادری کے لوگوں کو حوالہ نہیں کیا جارہا۔ ان کے مطابق محکمہ اوقاف اگر چاہے تو وہاں سے کرایہ داروں کو نکال کرگردوارہ عبادت کے لیے کھول سکتا ہے، لیکن بارہا درخواستوں کے باوجود بھی ان کے مطالبے کو نہیں مانا جارہا۔

رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق نہ صرف پشاور میں تاریخی گردوارے بند ہیں ، بلکہ باقی جگہوں پربھی بند ہیں کیونکہ تقسیم کے وقت پاکستان کو 327 تاریخی گردوارے حوالہ کئے گئے تھے اب ان میں 20 کے قریب عبادت کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اقلیتی برادری کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے معاون خصوصی اور ایم پی اے وزیر زادہ کا کہنا ہے کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے تب سے انہوں نے اقلیتوں کے لیے خصوصی بنیادوں پرکام شروع کیا ہے اور ان کے لیے تاریخی کرتارپورسمیت کئی ایک گردوارے کھولے ہیں اور جہاں بھی سکھ برادری کی آبادی ہے وہاں ان کے لیے گردوارے کھلے ہیں۔

رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق پشاور میں سکھوں کی تعداد 2 ہزار سے 2500 کے قریب ہے جبکہ پورے خیبرپختونخوا میں کل 10 ہزار سکھ آباد ہیں جبکہ پشاور میں ان گردواروں کے علاوہ باقی پورے صوبے میں کوئی بھی گردوارہ کھلا ہوا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے بچے بھی گردواروں کے بندہونے کی وجہ سے اپنی مذہبی تعلیم صحیح طریقے سے ادا نہیں کرپارہے اور سنگھ سبا سمیت باقی بند گردوارے عبادت کے لیے کھولنا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں غریبوں کے لیے لنگر اور بے گھر افراد کے رہنے کی بھی جگہ ہوتی ہے۔

دوسری جانب اقلیتی برادری کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے معاون خصوصی اور ایم پی اے وزیر زادہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ غلہ منڈی گردوارے کا مسئلہ آج یا کل کا نہیں بلکہ سالوں پرانا ہے اور ان کی حکومت کوشش کررہی ہے کہ جلد از جلد یہ گردوارہ سکھ برادری کے حوالے کیا جائے۔

ایم پی اے وزیر زادہ نے کہا کہ گردوارہ کھولنے کا مطالبہ سکھ کمیونٹی کا حق ہے اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکیں اس کو کھول دیا جائے۔ وزیر زادہ نے بتایا کہ سکھ برادری نے اس سے پہلے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا تھا لیکن اب چونکہ اٹھایا ہے تو ان کے مطالبے کو جلد پورا کیا جائے گا۔ اقدامات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو ایواکیئ ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ کے حوالے کیا ہے تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ابھی اس پر کام بند ہے اور جلد ہی سکھ برادری کا مطالبہ پورا کردیا جائے گا اور یہ کہ اس سلسلے میں ان کو کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے