حاملہ خواتین خطرات کی زد میں

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں کھانسی کے علاج سے لے کر دل اور دماغ کے بڑےآپریشن تک کیے جاتے ہیں۔ صوبے کے کسی بھی دوسرے ہسپتال میں کسی ڈاکٹر کو مرض کی سمجھ نہ آئے یا وہاں سہولیات نہ ہوں تو مریض کو پشاور کے ایل آر ایچ (لیڈی ریڈنگ ہسپتال )جانے کا مشورہ دیاجاتا ہے۔

خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مریض اس ہسپتال علاج کے لئے آتے ہیں ۔ اب کورونا مرض کی تشخیص اور علاج کے لیےبھی یہاں مریضوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان مریضوں کا علاج کرتے کرتے اب یہاں کے مسیحا بھی اس مرض کا شکار ہوگئے ہیں ۔ دو دن قبل اس ہسپتال سے ایک خبر آئی کہ ہسپتال میں قائم گائنی وارڈ کے طبی عملے کے 29 افراد کا کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آچکا ہے۔ جس کے باعث گائنی وارڈ کو بند کردیا گیا ہے۔ آج کل کے حالات میں تو بظاہر یہ ایک عام سی بات لگتی ہے لیکن یہ انتہائی تشویشناک خبر ہے

کیونکہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گائنی اے،بی اور سی وارڈز جو 230 بیڈز پر مشتمل ہیں یہاں روزانہ 350 سے زائد خواتین طبی معائنے کے او پی ڈی آتی ہیں۔ 120 خواتین روزانہ ان وارڈز میں داخل ہوتی ہیں جبکہ اس ہسپتال میں 20سے30 خواتین کے سی سیکشن یعنی آپریشن کے ذریعے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ روزانہ یہاں پر 50سے60 ڈیلیوری کیسز ہوتے ہیں ۔ یعنی ایک ماہ کے دوران کم از کم 2400 بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔

لیکن اب ہسپتال کے ترجمان اور انتظامیہ کے مطابق گائنی عملے میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد گائنی شعبے کو عارضی طور پرمجبورا بند کر دیا گیا ہے ورنہ ایسے حالات میں گائنی مریضوں کو داخل کرانا یا ان کا علاج کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ ہسپتال انتظامیہ نے مریضوں کو دوسرے قریبی ہسپتالوں سے رجوع کرنا کا مشورہ بھی دے دیا ہے ۔

اب بات کریں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بعد دیگر سرکاری ہسپتالوں کے جہاں اگر یہ مریض جاتے ہیں تو وہاں کی کیا صورتحال ہوگی تو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے 100 سے زیادہ بیڈز پر مشتمل گائنی وارڈز میں روزانہ ڈیلیوری کے 37 اور سی سیکشن کے 47 کیسز ہوتے ہیں اور اسی سے ملتی جلتی صورتحال خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی بھی ہے۔

دوسری جانب کورونا وائرس کے باعث اب او پی ڈیز بند ہیں جبکہ صرف ایمرجنسی کے مریضوں کو ڈیل کیا جاتا ہے صوبے کے دور دراز علاقوں سے آنے والی خواتین علاج کے لیے سب سے پہلے ان ہسپتالوں کا رخ کرتی ہیں جس میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال سر فہرست ہے اور بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو پرائیویٹ ہسپتال جاتے ہیں۔ ورنہ پھر ایسے ہی قسمت اور معجزے پر یقین رکھ کر گھروں میں ہی بچے جنم دیتی ہیں یا پھر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

اب ایک نظرپاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کے ان اعداد و شمار پر ڈالتے ہیں جس کے باعث خواتین جو زچگی کے دوران مناسب علاج اور سہولت نہ ملنے کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ ہزاروں خواتین زچگی کے دوران زندگی ہار جاتی ہیں یا پھر بچے اس دنیا میں آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پاپولیشن کونسل آف پاکستان کے مطابق خیبر پختونخوا میں سالانہ 1ہزار 750 جبکہ روزانہ اوسطا 5سے7 خواتین زچگی کے دوران مرتی ہیں جبکہ بچوں کی سالانہ شرح اموات 47ہزار 500 اور روزانہ 130 ہے ۔مگر اب صوبے کے کونے کونے سے ہزاروں میل سفر کر کے آنے والی خواتین پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال گائنی وارڈ کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ جو نہ جانے کتنی ماوں پر زندگی کے دروازے بند کرنے کا باعث بن گیا

۔گائنی عملے کا علاج ضروری ہے اور ساتھ ہی ان کے لیے تمام سہولیات کی فراہمی بھی تاکہ وہ احتیاطی تدابیر اپنا کر مریضوں کا علاج کر سکیں ۔مگر کیا اس مسلے کا حل ان وارڈز کو بند کرنا ہی ہے ؟ شروع سے جس قوم سے ہر سچ چھپایا گیا اس قوم سے یہ بھی درخواست ہے کہ آپ بھی احتیاط کرکےاپنی اور ڈاکٹرز کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں ورنہ کورونا تو معلوم نہیں مگر یہ بند وارڈز بہت سے بچوں سے ماوں کا سایہ چھین لیں گے۔

اس تمام تر صورتحال میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہمارے پاس کسی بھی مسلے سے نمٹنے کا کوئی پلان ہوتا ہی نہیں ۔ ایک عرصے سے حاملہ خواتین کویہ تلقین کی جاتی رہی ہے کہ گھروں محلوں میں دائی کے ہاتھ اپنی جانوں سے کھیلنے کے بجائے ہسپتال جائیں۔مگر لگتا ہے حالات اب واپس ان کو اپنی زندگی ان دائیوں کے ہاتھوں خطرے میں ڈالنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ارباب اختیار کو بنیادی صحت مراکز میں ایل ایچ ویز کی تعداد بڑھا کر دور دراز علاقوں میں موجود ان خواتین کا علاج معالجہ کرانا ہوگا ورنہ کف افسوس ملنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے