وزیرستان: خواتین کے ساتھ بوس و کنار کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار

تقریباً 52 سیکنڈز پر مشتمل ویڈیو میں ایک نوجوان لڑکے کے دائیں بائیں تین سیاہ برقعوں میں لڑکیاں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ ویڈیو میں موجود نوجوان لڑکیوں سے پشتو میں پوچھتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے آئی ہیں، جس پر ایک لڑکی نے کہتی ہے کہ وہ ایسے ہی آئی ہیں۔ لڑکا باتوں باتوں میں دو لڑکیوں سے بوس وکنار شروع کر دیتا ہے جبکہ تیسری لڑکی بھاگ جاتی ہے۔ ویڈیو میں لڑکا کہہ رہا ہے کہ کیا شام کے وقت وہ دوبارہ آئیں گی، تو ایک لڑکی کہتی ہے کہ یہ جگہ مناسب نہیں اور دور سے دوسرے لوگ بھی دیکھ رہے ہیں۔ ویڈیو سے واضح نہیں کہ لڑکے اور لڑکیوں کا آپس میں کیا تعلق تھا۔

[pullquote]لڑکیاں کون تھیں اور کس نے انہیں قتل کیا ؟[/pullquote]

ان لڑکیوں کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا اور وہ کچھ عرصہ قبل وزیرستان کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے شمالی وزیرستان کے علاقے شام پلین گڑیوم منتقل ہوگئی تھیں۔ پولیس کے مطابق شام پلین گڑیوم کے ‘عمر ایاز ‘ نامی لڑکے کے ساتھ ان لڑکیوں کی جان پہچان بنی ۔

جن دو لڑکیوں کے ساتھ ویڈیو میں نوجوان لڑکا فرینچ کسنگ کر تاہے. یہ دونوں لڑکیاں آپس میں چچا زاد بہنیں تھیں . ایک کی عمر 16 برس جبکہ دوسری کی عمر 18 برس تھی . دونوں لڑکیوں کو چند روز قبل ان کے چچا زاد بھائی اسلم نے قتل کر دیا.

لڑکیوں کے قتل کی وجہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وہ ویڈیو تھی جس میں دونوں لڑکیوں کے ساتھ لڑکا عمر ایاز بوس و کنار کر رہا ہے جبکہ تیسری لڑکی عمر ایاز کے ساتھ بوس و کنار سے انکار کر دیتی ہےاور بھاگ جاتی ہے ۔ پولیس اس تیسری لڑکی کو ڈھونڈ رہی ہے. یہ تیسری لڑکی دونوں لڑکیوں کے قاتل اسلم کی بیوی ہے جو اپنی جان بچانے کے لیے روپوش ہے .

[pullquote]بھاگنے والی لڑکی کون ہے؟[/pullquote]

شمالی وزیرستان پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کی جانے والی دونوں خواتین کی سیلفی ویڈیو میں فرینچ کسنگ کرنے والےعمر ایاز کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ایک مقتولہ لڑکی کا بھائی اور دوسری مقتولہ کا والد پہلے ہی میران شاہ تھانے کی حوالات میں بند ہیں . ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ جنوبی وزیرستان کے علاقے گڑیوم شام پلین میں پیش آیا.

وزیرستان میں مقامی روایات میں اس قسم کی حرکات کو برداشت نہیں کیا جاتا تاہم پہلی مرتبہ اس قسم کے ’غیرت کے نام‘ پر قتل کے کیس میں باقاعدہ طور پر مقدمہ دائر کیا گیا اور اس میں پولیس کی جانب سے گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔

واقعے کے خلاف رزمک تھانے میں ایس ایچ او لوئی دارز خان نے ایف آر درج کروائی ہےجس کے مطابق قتل ہونے والی دونوں لڑکیاں آپس میں چچا زاد بہنیں بتائی جاتی ہیں۔ ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ واقعے کے بعد دونوں لڑکیوں کا خاندان ان کی لاشیں لے کر واپس جنوبی وزیرستان چلے گئے۔ جنوبی وزیرستان پولیس کے مطابق دونوں لڑکیوں کی لاشوں کو رات کے وقت ان کے خاندان والوں نے ایک نامعلوم مقام پر دفنا دیا، البتہ پولیس نے قبروں اور ملزم کی تلاش شروع کر دی ہے مگر ابھی تک قبروں کا سراغ نہیں ملا .

[pullquote]غیرت کے نام پر دو لڑکیوں کے قتل کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل[/pullquote]

شمالی وزیرستان پولیس نے غیرت کے نام پر دو لڑکیوں کے قتل کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔ قتل ہونے والی لڑکیوں کے ساتھ ویڈیو بنانے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے ملزم ایاز کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ لڑکیوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے والے ملزم محمد اسلم کی گرفتاری کیلئے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شمالی وزیرستان شفیع اللہ گنڈاپور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے آئی جی کے حکم پر دو لڑکیوں کے قتل کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں تجربہ کار پولیس افسران شامل ہیں۔ ڈی پی او کے مطابق واقعے کا مقدمہ پولیس نے اپنی مدعیت میں درج کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی تفتیش سائنسی خطوط پر جاری ہے۔

[pullquote] پہلی بار ’غیرت کے نام‘ پر قتل کے واقعات کے ایف آئی آر[/pullquote]

سابق قبائلی علاقوں میں ،جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں، اس سے پہلے بھی ’غیرت کے نام‘ پر اس قسم کے واقعات ہوتے تھے، مگر اس وقت کے ایف سی آر قانون کے تحت قتل ہونے والوں کی رپورٹ سامنے نہیں آتی تھی۔ماضی میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے اندر ’غیرت کے نام‘ پر قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار نہیں کیاگیا۔خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پہلی بار ’غیرت کے نام‘ پر قتل کے واقعات کے ایف آئی آر درج ہونا شروع ہوئی ہے۔ مگر آج بھی ایک خوف موجود ہے اور اس طرح کے واقعات کوکوئی رپورٹ نہیں کرتا۔سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے