خیبرپختونخوا:جنسی واقعات میں اضافہ، قوانین کانفاذ نہ ہو سکا

خیبرپختونخوامیں بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافے کے باوجود مجرموں کےلئے سخت قوانین کانفاذممکن نہیں بنایاجاسکا، گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران خیبرپختونخوامیں بچوں کے جنسی تشدد کے 376 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ، حیران کن امریہ ہے کہ صرف تین اضلاع پشاور، نوشہرہ اور مردان میں صوبے کے مجموعی کیسزکے60 فیصدسے زائد کیسزسامنے آئے ہیں۔ ڈیڑھ سال کے دوران جنسی زیادتی کے دوران پانچ بچوں کو قتل بھی کیاگیاہے ، جن میں سے دولڑکیاں اور تین لڑکے شامل ہیں ، بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کیسز میں سب سے زیادہ قریبی رشتہ داریاجاننے والے ملوث پائے گئے ہیں ، اعدادوشمار کے مطابق لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کے جنسی زیادتی کے کیسزکی تعدادپچاس فیصدسے بھی زائد ہے ۔

[pullquote]خیبرپختونخوامیں بچوں کے جنسی تشدد کے اعدادوشمارکیاہیں۔۔؟[/pullquote]

خیبرپختونخواکے معلومات تک رسائی کے قانون رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ2013ء کے تحت سنٹرل پولیس آفس سے حاصل کردہ ڈیٹاکے مطابق جنوری 2019ء سے لیکر دسمبر2019ء تک صوبے میں بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے185 واقعات رپورٹ ہوئے. جن میں 135 کیسز لڑکوں کےساتھ اور50 کیسز لڑکیوں کے رپورٹ ہوئے ہیں، 2019ء میں ان تمام کیسزمیں 248 ملوث افرادپکڑے گئے ہیں، بچوں کے حقوق کےلئے کام کرنےوالی تنظیم ساحل کے مطابق جنوری2020ء سے لیکر30 جون 2020ء تک خیبرپختونخوامیں بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کل91 کیسزرپورٹ ہوئے ، جن میں 130 سے زائد ملزمان گرفتارہوئے ہیں، مجموعی طورپرخیبرپختونخوامیں276 کیسزڈیڑھ سال کے دوران رپورٹ ہوئے ہیں ۔اعدادوشمارکے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسزمیں رواں سال کی پہلی شش ماہی میں گزشتہ سال کے پہلے چھ مہینوں کی نسبت 14 فیصد زیادہ کیسزرپورٹ ہوئے ہیں، بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے 42,42 کیسزپشاوراورمردان ،27 کیسز نوشہرہ،12 کوہاٹ،17 مانسہرہ اورپانچ کیسزبنوں میں رپورٹ ہوئے ہیں، خیبرپختونخواکے27 بندوبستی اضلاع میں چترال ،بنوں،تورغر،کوہستان اورہنگومیں بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کاکوئی کیس رپورٹ نہیں ہو اہے ۔ ڈیٹاکے مطابق خیبرپختونخوامیں جن بچوں کوجنسی زیادتی کانشانہ بنایاگیاہے، ان میں سے 48 فیصدکی عمریں سات سے11سال تک ہیں۔

[pullquote]جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کون ہیں۔۔؟[/pullquote]

آرٹی آئی ایکٹ کے تحت حاصل کردہ معلومات کےمطابق خیبرپختونخوامیں بچوں کےساتھ جنسی زیادتی میں ملوث 55 فیصد ملزمان رشتہ داریاقریبی جاننے والے ہوتے ہیں اورانکامتاثرہ بچے کے گھرباقاعدہ کےساتھ آناجاناہوتاہے، اسی وجہ سے 28 فیصدکیسز ان گھروں میں واقع ہوئے ہیں، جو یا تو بچوں کے ہیں ، انکے قریبی رشتہ داروں کے، پولیس کے فراہم کردہ ڈیٹاکے مطابق خیبرپختونخوامیں70 فیصد کیسزشہری اورتیس فیصدکیسز دیہاتی علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں ، خیبرپختونخواپولیس کے ایک اعلیٰ افسرکے مطابق بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے کیسزمیں55 فیصدملزمان کی عمر14سے18سال کے درمیان ہوتی ہے، ملزمان میں سے 30 فیصد بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے دو یا دو سے زائدکیسزمیں ملوث پائے گئے ہیں ۔

[pullquote]ماہرین کی رائے کیاہے۔۔؟[/pullquote]

بچوں کے حقوق کےلئے کام کرنےوالے سول سوسائٹی کے متحرک عمران ٹکر بتاتے ہیں کہ بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے بہت سے واقعات میڈیامیں رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا متاثرہ بچوں کی رپورٹ ہی درج نہیں ہوتی، علاقائی سطح پر جرگوں کانعقادکرکے ان کیسزکو دبایاجاتاہے یا ملوث شخص کو جرمانہ کیاجاتاہے ، عمران ٹکر کے مطابق پشاور ،نوشہرہ اورمردان میں کیسزکے رپورٹ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ بڑے شہرہیں اوریہاں جرگہ کااثردیہاتی علاقوں کی نسبت کافی کم ہے، پولیس کے ایک اعلیٰ افسرکے مطابق گزشتہ ہفتے مردان کی تحصیل تخت بھائی میں بچوں کےساتھ جنسی زیادتی میں ملوث شخص کےلئے راتوں رات جرگے کاانعقاد کیاگیا، جسکے باعث ایف آئی آردرج نہیں کی جاسکی، ملزم نے بچے کے گھروالوں کو بیس پکی پکائی دیگوں کے علاوہ تین لاکھ روپے بھی دئیے اور متاثرہ شخص کو تین لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کے علاوہ اس علاقے کوبھی چھوڑدیا۔

[pullquote]بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کےخلاف خیبرپختونخوامیں کون ساقانون نافذہے۔۔؟[/pullquote]

بچوں کوتشددسے بچاﺅسے متعلق خیبرپختونخوامیں چائلڈپروٹیکشن ایکٹ2010ء نافذ ہے، تاہم فروری کے مہینے میں مانسہرہ میں ایک بچے کو سومرتبہ جنسی تشدد کاکیس سامنے آنے کے بعد جب خیبرپختونخوااسمبلی میں سخت قوانین کے نفاذکےلئے آوازبلندہوئی تو صوبائی حکومت نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دےدی، جس کے تحت جنسی زیادتی میں ملوث شخص کے ہاتھوں اگربچہ مرجاتاہے، تواس کےلئے سزائے موت تجویزکی گئی ہے، اسی طرح جنسی زیادتی کےلئے14سال قید کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے، یہ تجاویز خیبرپختونخوااسمبلی میں گزشتہ ماہ پیش کی گئی تھی، صوبائی وزیرقانون سلطان محمد کے مطابق کمیٹی کی تجاویزکومحکمہ قانون باریک بینی سے دیکھ رہاہے اور 2010ء کے قانون میں ترامیم کےلئے مختلف ملکی وبین الاقوامی فورم سے رابطہ کیاگیاہے ، توقع ہے کہ کابینہ کے اگلے اجلاس میں اس مسودے کی منظوری دی جائے گی ، اسکے بعد صوبائی اسمبلی میں اسے پیش کیاجائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے