سُپریم کورٹ کے دو سینیر ججز نے وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیراعظم عمران خان کے مُشیرِ داخلہ اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیرمین بیرسٹر شہزاد اکبر کے خلاف جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کیس میں انتہایی سخت اختلافی نوٹ لکھتے ہویے اِنکو مُستقبل کے چیف جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کے خلاف بدنیتی پر مبنی غیر قانونی اقدامات کرنے کا ذمہٰ دار قرار دیتے ہویے کرمنل کاروایی کی سفارش کی ہے۔ اِن دو ججز میں سے سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر براجمان جسٹس مقبول باقر اپریل دو ہزار بائیس تک سُپریم کورٹ کا حصہ رہیں گے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اگست دو ہزار پچیس میں چیف جسٹس آف پاکستان بنیں گے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے اُردو اسپیکنگ جج جسٹس مقبول باقر جِن کے عزم کو ایک دہشت گرد حملہ بھی نہ لرزا سکا اور شاید اُس حملے کے بعد اُنہوں نے زندگی فانی ہے کی حقیقت بھی سمجھ لی اور اب سُپریم کورٹ میں ایک ملنگ مزاج جج کی شہرت رکھتے ہیں۔ ساتھی ججز سے بھی کم گُھلنے والے ملنگ مزاج جسٹس مقبول باقر فیصلے تو تھوڑی سُستی سے تحریر کرتے ہیں لیکن اُنکا فیصلہ ہو یا اختلافی نوٹ وہ بڑے بڑے طاقتوروں کے پسینے نکال دیتا ہے۔ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کی اہلیہ کو ایف بی آر کے کٹہرے میں پیشیاں بُھگتانے کی حمایت کرنے والے جسٹس فیصل عرب کی ریٹایرمنٹ سے ایک روز قبل اُن سے اختلاف کرنے والے جسٹس مقبول باقر نے اپنا اختلافی نوٹ جاری کرتے ہویے لِکھا کہ مُتعدد الزامات، دعووں جایزہ لینے اور جانچنے کے بعد اور طرفین کے دلایل، حقایق اور ریکارڈ میں موجود واقعاتی شواہد کو قوانین کی روشنی میں دیکھنے سے میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو قانونی مُقدمہ طرفین نے ہمارے سامنے پیش کیا گیا اُس مُقدمہ میں جسٹس قاضی فایز عیسیٰ پر لگایے گیے الزامات سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ہیں اور مضحکہ خیز حد تک بدنیتی پر مبنی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر مزید لکھتے ہیں کہ درخواستگزار جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کا یہ کہنا درست ہے کہ اُنکے خلاف قایم کردہ ریفرنس دراصل نفرت اور عناد کی پیداوار ہے جِس میں نہ صرف قانونی طور پر بلکے حقایق کے پیش کرنے میں بھی بدنیتی دکھایی گیی اور اِس کے پیچھے ایگزیکٹو کے کُچھ عہدیدار ہیں۔ جسٹس مقبول باقر لکھتے ہیں کہ یہ بھی معلوم ہوا کہ پوری ریاستی مشینری حرکت میں لاکر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کو ہٹانے کے لیے جال بچھایا گیا اور اِس کے لیے حکومتی محکموں، وسایل کا غلط استعمال ایک غیر آینی اور غیر قانونی طریقے سے کیا گیا جِس میں جسٹس قاضی فایز عیسیٰ اور اُنکے بیوی بچوں کی خُفیہ نگرانی کی گیی لیکن اُسکے باوجود حُکام نہ تو جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کا مِس کنڈکٹ دِکھا سکے اور نہ اُنکے بیوی بچوں کو اُن پر انحصار ثابت کرسکے۔
سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر براجمان جسٹس مقبول باقر مزید لِکھتے ہیں کہ بیان کردہ حقایق کے بعد کویی شک باقی نہیں رہتا کہ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنانے میں بدنیتی اور دُشمنی کارفرما تھی اور فیض آباد دھرنہ سے مُتاثرہ کُچھ ریاستی عہدیداروں نے جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کو نظرِ ثانی کی اپیل سے ہٹانے کی مُشترکہ خواہش پر اتحاد کرلیا تھا۔ ہمارے سامنے جو پیش کیا اُس میں نظر آرہا ہے کہ اِس اجتماعی کاروایی میں صدر مُملکت عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم، ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیرمین شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان مُلوث تھے اور اِن پر یہ آرڈر نافذ ہونا چاہیے کیونکہ مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ نے بالکل درست کہا کہ اِن کے اعمال اور کارواییوں سے باآسانی بدنیتی اخذ کی جاسکتی ہے۔
جسٹس مقبول باقر اب براہِ راست کاروایی کا حُکم دیتے ہویے لِکھتے ہیں کہ وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیرمین شہزاد اکبر پر براہِ راست ذمہٰ داری عاید ہوتی ہیں جبکہ اِن دونوں کی کارواییوں کی ذمہٰ داری قانون کی روشنی میں وزیراعظم عمران خان پر بھی عاید ہوتی ہے کیونکہ کیس میں سامنے آنے والے غیر قانونی کاموں کی منظوری اور ہدایت انہوں نے ہی دی تھی۔ جسٹس مقبول باقر نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عُثمان بُزدار کی نو تعینات شُدہ معاونِ خصوصی برایے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی پریس کانفرنس میں غیر ضروری طور پر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز جُملے بولنے پر توہینِ عدالت کا ذمہٰ دار قرار دیا ہے۔
اِسی طرح سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ کے بھایی کے داماد اور لاہور ہاییکورٹ سے ترقی پاکر سُپریم کورٹ آنے والے روشن خیال، اصول پسند اور قابل جسٹس منصور علی شاہ جو اگست دو ہزار پچیس میں تقریباً دو سال چار ماہ کے لیے چیف جسٹس بنیں گے اپنے اختلافی نوٹ میں رجسٹرار سُپریم کورٹ کو حُکم دیتے ہیں کہ وہ فایل چیف جسٹس کو بھجواییں جو خود یا متعلقہ حُکام کو چیرمین ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیرمین شہزاد اکبر، قانونی مُشیر اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے ممبرز کے خلاف فوجداری اور محکمانہ ڈسپلن کی کاروایی کا حُکم دیں۔
مُستقبل کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منصور علی شاہ وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کو بھی اپنے اختلافی نوٹ میں موضوع بنایا اور انتہایی سخت فاینڈنگ دیتے ہویے لِکھا کہ وزیراعظم عمران خان کو علم ہی نہیں تھا کہ وزیراعظم آفس میں اُنکے ناک تلے قایم ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیرمین اور اُنکے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر کیا کارواییاں کررہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کے کنڈکٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہویے لِکھا کہ وزیرِ اعظم نے اپنے وزیرِ قانون اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیرمین سے یہ تک پوچھنا مُناسب نہ سمجھا کہ انہوں نے ایک آینی عدالت کے جج کے خلاف کیسے غیر آینی اور غیر قانونی طور پر تحقیقات کیں اور معلومات جمع کیں اور یہاں تک کہ وزیراعظم نے اُن سے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا کسی دفتر یا اتھارٹی نے جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے اِن جایدادوں کی خریداری کے ذرایع پوچھے ہیں اور اہلِ خانہ سے یہ دریافت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیا اِن جایدادوں کا جسٹس قاضی فایز عیسیٰ سے کویی تعلق ہے یا نہیں؟ اور یہ جانے بغیر اپنا ذہن استعمال کیے بغیر ریفرنس کو صدر کو بھجوا دیا کہ وہ اپنی رایے لگا کر ریفرنس پر دستخط کردیں۔
جسٹس مقبول باقر کے اڑسٹھ صفحات پر مُشتمل اور جسٹس منصور علی شاہ کے پینسٹھ صفحات پر مُشتمل اختلافی نوٹ میں بہت کُچھ ہے لیکن اتنا طویل لِکھنا شاید مُمکن نہ ہو۔ اِس لیے قانون، صحافت، سیاست اور تاریخ کے طالبعلموں کو اِن دونوں دستاویز کو سُپریم کورٹ کی ویب سایٹ سے ڈاون لوڈ کرکے پورا پڑھنا چاہیے تاکہ وہ تفریق کر سکیں کہ اگر خود مُختار ذہن کے ججز اقلیت میں رہتے ہویے بھی، دباو کو خاطر میں لایے بغیر اختلافی نوٹ لکھیں تو وہ کتنا جاندار ہوتا ہے اور اگر ججز اکثریت میں رہ کر بھی سرکاری افسران کی ناراضگی کے امکان کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ لِکھیں تو وہ کتنا ہومیو پیتھک ہوتا ہے۔