پھانسی کوعدالتی نظام میں سب سے بڑی سزا، یا”کیپٹل پنشمنٹ ”کہاجاتاہے سنٹرل جیل پشاور میں تین مرلے کے پھانسی گھاٹ کودیکھتے ہوئے ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے وہ جگہ جہاں پر پھانسی کے منتظرسینکڑوں مجرموں کو سزاکے طو رپر لٹکایاجاتاہے،ایسے لگتاہے جیسے پھانسی کے تمام مجرموں کی روح اس پھانسی گھاٹ میں بھٹک رہی ہو۔سنٹرل جیل پشاور میں آخری پھانسی2017ءمیں دہشتگردی میں ملوث مجرم کودی گئی تھی،پھانسی سزاکاآغازاس وقت ہواجب1861ءمیں انگریزوں نے دنیاکے مختلف ممالک میںاپنے مخالفین کو جیلوں میں سزاکے طور پر لٹکایاتھا۔دنیابھرمیں پھانسی کے علاوہ سزائے موت دینے کے اوربھی کئی طریقے ہیں تاہم آزادی سے قبل ہی انگریزوں نے اس خطے میں سزاکے طو رپر پھانسی دینے کاجوعمل شروع کیاتھاوہ آج تک جاری ہے۔
[pullquote]سزائے موت کے قیدی کیساتھ کیاہوتاہے۔۔؟[/pullquote]
سنٹرل جیل پشاورکے سپرنٹنڈنٹ خالد عباس کہتے ہیں جب کسی شخص کو عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے اوراس کی تمام اپیلیں ردکی جاتی ہیں توپھربھی وہ کچھ عرصہ کیلئے جیل میں ہی پابندسلاسل رہتاہے، اس قیدی کو پتہ ہوتاہے کہ مجھے پھانسی پرلٹکایاجائے گالیکن کب ؟یہ بات اس کے علم میں نہیں ہوتی ،پھانسی کی سزاسے 20گھنٹے قبل مجرم کوبتایاجاتاہے کہ اسے اگلے روز تختہ دارپرلٹکایاجائےگا، جیل کے ایک دوسرے اہلکارنے بتایاکہ پھانسی کے مجرم کو عام بیرک سے لاکر پھانسی گھاٹ کے قریب ایک خاص مقام” کنواں چکی“ میں ٹھہرایاجاتاہے، اس دوران اس سے جیل کے تمام دوست قیدیوں کی ملاقات کرائی جاتی ہے اور اسکے خاندان کے تمام افرادکوبھی ملاقات کیلئے بلایا جاتا ہے۔کنواں چکی میں سزائے موت کے مجرم کو قرآن پاک ،جائے نمازاور دیگر سامان بھی فراہم کیا جاتا ہے۔خالد عباس بتاتے ہیں ،بیشترقیدی اپنی زندگی کے اس آخری رات نہیں سوتے ،عبادت کرتے ہیں یاروتے رہتے ہیں، لیکن میں نے اپنی زندگی میں کئی ایسے قیدیوں کودیکھاہے جوپھانسی کی رات بھی سوجاتے ہیں۔
سزائے موت کے قیدی کو صبح سویرے کنواں چکی سے نکال کر ایک علیحدہ مخصوص باتھ روم میں لایاجاتاہے، جہاں گرم پانی اس کیلئے پہلے سے تیارہوتاہے وضو اورنہانے کے بعد وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتاہے اور نماز پڑھنے کے بعد واپس کنواں چکی لایاجاتاہے جہاں کچھ دیر قیام کے بعد مجرم کو پھانسی گھاٹ لایاجاتاہے۔سنٹرل جیل پشاورکاپھانسی گھاٹ کا رقبہ تقریباًتین مرلے کاہے جہاں پر لکڑی کاتختہ دار نصب ہوتاہے، جیل انتظامیہ کے مطابق بیشتر مجرمان سزائے موت سے اتنے سہم جاتے ہیں کہ انہیں دویاتین جیل اہلکار کنواں چکی سے اٹھاکرپھانسی گھاٹ لے آتے ہیں، پھانسی گھاٹ کے قریب پہلے سے موجودسیشن جج یاعلاقہ مجسٹریٹ کیساتھ محکمہ جیل خانہ جات کاڈاکٹربھی موجود ہوتاہے جیل سپرنٹنڈنٹ بلندآوازسے مجرم کو اپنے پورے کیس سے آگاہ کرتاہے اسکے بعد مجسٹریٹ یاسیشن جج مجرم کی وصیت کو باآوازبلندپڑھتاہے۔جیل انتظامیہ کے مطابق اکثرقیدی اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنی وصیت پردستخط کرسکیں، اس لئے ان کے ہاتھ کو اٹھاکر سٹیمپ پیڈسے وہاں پر انگوٹھالگایاجاتاہے ،جیل کے ایک اہلکارنے بتایاکہ سزائے موت کے مجرم کو چونکہ اپنی پھانسی کی تاریخ کاعلم نہیں ہوتااس لئے قبل ازیں اس کا وزن کیاجاتاہے اور جیل ٹیلر مجرم کی گردن کا سائز لے لیتاہے، سزاسے ایک دن قبل دس سے پندرہ مرتبہ پھانسی گھاٹ سے بوری کوباربارلٹکاکر ریہرسل کی جاتی ہے۔
سزائے موت سے قبل مجرم کو تختہ دار پر کھڑاکیاجاتاہے، اس کے گلے میں پھانسی کاپھندا جسے ”منیلاروپ”کہاجاتاہے، ڈال دیا جاتاہے، لکڑی کے جس تختہ دارپر سزائے موت کاقیدی کھڑاہوتاہے ،اس کے نیچے 12سے15فٹ کاایک کنواں ہوتاہے، مجرم کے سراورچہرے کو ڈھانپنے کیلئے کالے رنگ کی ٹوپی پہنادی جاتی ہے اسکے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف اور دونوں پاﺅں بھی باندھ لئے جاتے ہیں جلادسپرنٹنڈنٹ کی طرف دیکھتاہے، سپرنٹنڈنٹ اپنی گھڑی کی جانب دیکھتاہے اوراچانک ہاتھ اٹھاکرجلادکواشارہ کردیتاہے او رجلا د ہک کھینچ لیتا ہے جس سے تختہ دار کے دروازے کھل جاتے ہیں اورمجرم دھڑم سے کنوں میں لٹک جاتاہے۔جیل انتظامیہ کہتی ہے کہ پہلے ہی منٹ میں اکثرمجرم کی سانس نکل جاتی ہے لیکن بعض مجرموں کی سانس پانچ سے چھ منٹ میں نکل جاتی ہے لیکن اسکے باوجود ڈاکٹر30منٹ تک کاانتظارکرتاہے، ڈاکٹر 30منٹ بعد کنویں کوجانیوالی سیڑھیوں کے ذریعے اترجاتاہے اورتصدیق کرتاہے کہ مجرم کی موت واقع ہوچکی ہے۔
خالد عباس کہتے ہیں کہ سنٹرل جیل پشاور میں بیک وقت تین قیدیوں کوپھانسی دی جاسکتی ہے، 2014-15ءمیں پشاورآنیوالے جہاز کوجب سلیمان خیل کے قریب نیچے سے فائرنگ کا نشانہ بنایا گیاتھا اوراسکے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق ہوئی تھی ،تو عدالت نے اس کیس کے تین مجرموں کو پھانسی کی سزاسنائی تھی اوران تینوں مجرموں کو اکٹھے سنٹرل جیل پشاور میں سزائے موت دی گئی تھی۔ جیل انتظامیہ مجرم کی نعش کو نکال کر اکثراسکے کپڑے تبدیل کردیتی ہے اورجیل گیٹ پر موجود رشتہ داروں کو مجرم کی نعش حوالے کردی جاتی ہے کسی بھی جیل سپرنٹنڈنٹ کے پاس یہ اختیارہوتاہے کہ وہ بیک وقت پچاس افراد کو پھانسی گھاٹ میں بلاکر کسی بھی مجرم کی پھانسی کی سزاکے مناظردکھاسکتاہے ،کہاجاتاہے کہ 90 کی دہائی کے آخرمیں پشاورکے چندصحافیوں کے اصرار پرجب انہیں پھانسی گھاٹ میں یہ مناظردکھائے گئے تو کئی صحافی طویل عرصے تک ماہرنفسیات سے اپنی ذہنی کیفیت کاعلاج کراتے رہے۔خالد عباس کہتے ہیں پاکستان میں تمام پھانسی گھاٹوں کے جلاد مسیحی ہیں، انگریزوں کے زمانے میں مسلمانوں نے جلاد بننے سے انکارکیاتھااورآج تک یہ روایت چلی آرہی ہے، انہوں نے بتایاکہ کئی غیرمسلموں کوبھی مختلف جرائم میں موت کی سزاسنائی جاچکی ہے، کنواں چکی میں ان کو قرآن پاک کی بجائے بائبل یاان کی مقدس کتابیں دی جاتی ہیں۔
[pullquote]پھانسی کی سزاکاوقت علی الصبح کیوں مقر رہے۔۔؟[/pullquote]
خالد عباس بتاتے ہیں پھانسی سزا کی یہ روایت انگریزوں کے زمانے سے چلی آرہی ہے، جنہوں نے اس کیلئے صبح کے وقت کاتعین کیاتھا ،اس بات کی اورکوئی دلیل نہیں ہے کہ پھانسی کی سزا کسی دوسرے وقت کیوں نہیں دی جاسکتی ،سعودی عرب میں ہمیشہ سزاسنانے پر مجرم کاسرجمعہ کے روز قلم کیاجاتاہے، اس بات کا کوئی شرعی عذرنہیں، بس ایک روایت ہے اورچلی آرہی ہے انگریزوں نے صبح کے وقت کا تعین کیاتھا اورآج تک پوری دنیا میں جہاں پر پھانسی کی سزا کاتعین ہوتاہے، وہاں پر صبح کے وقت مجرم کو پھانسی کی سزادی جاتی ہے۔