تاریخ کیسے بدلوں ؟

بچپن سے کچھ قصے سنتے آئے جو آج کے حالات میں باطل سے محسوس ہوتے ہیں۔ ان تاریخی واقعات کو زمانے کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ کچھ جسارت کر کے پیش ہے۔ کوشش کی کہ من و عن عین اپنے معاشرتی ماحول کے مطابق ڈھال سکوں پھر بھی کمی بیشی رہ گئی ہو تو معاف فرمایئے گا۔

خلیفہ وقت نماز پڑھانے تشریف لائے۔ ایک شخص نے ان کی چادر کو تھام لیا اور پوچھا ” آپ نے یہ چادر کس مال سے لی ؟ آپ کا معاشی سٹیٹس تو اس قابل نہیں لگتا”۔ خلیفہ وقت نے مڑ کر دیکھا اور جلال میں آتے فرمایا ” حد ادب گستاخ”۔ پھر حفاظتی دستے پر معمور سالار کو حکم دیا ” یہ قادیانی ہو چکا ہے۔ اسے زندان میں ڈال دیا جائے” ۔۔۔

ایک شخص شراب پینے کی پاداش میں حاضر کیا گیا۔ خلیفہ وقت نے حکم دیا کہ اسے بمطابق شریعت 80 کوڑے لگائے جائیں۔ اس شخص نے فیصلہ سن کر کہا "ٹھیک ہے پر مجھے کوڑے وہ لگائے جس نے زندگی بھر ایک قطرہ شراب نہ پی ہو”۔ یہ سنتے ہی خلیفہ وقت نے فرمایا ” گستاخ ۔۔ اس کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے اور اس کا جسم آگ میں بھسم کر دیا جائے”

مسلمانوں کے سپہ سالار نے کافر دشمن کو میدان جہاد میں زیر کر لیا۔ اس کے سینے پر چڑھ کر وہ کافر کی گردن مارنا چاہتے تھے کہ اس شخص نے اس عظیم سپہ سالار کے چہرہ مبارک پر غصے سے تھوک دیا۔ سپہ سالار کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھا اور انہوں نے اس حرکت کے جواب میں اس کا سر قلم کر کے اس کی نعش کے بھی ٹکرے ٹکرے کر دیئے۔

آپ کو یہ قصے سنے سنے لگ رہے ہوں گے ؟ آپ کو تعجب بھی ہو رہا ہو گا کہ یہ شخص پاگل ہو گیا ہے کیا۔ کیسے یکسر غلط، من گھڑت اور بے بنیاد واقعات سنا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو غصہ بھی آ رہا ہو کہ یہ کیسی جہالت ہے۔ مگر ٹھہریئے حضور۔ میں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ بچپن سے سنے کچھ تاریخی واقعات کو آج کے ماحول کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ آج کا معاشرہ ایسا نہیں کیا ؟ آج کیا فتوے و طعن و تشنیع و لعن طعن کے ساتھ بنام مسلک و مذہب گردن زنی کا رواج نہیں کیا ؟ اگر ہاں، تو پھر وہ بچپن سنے قصے آج کے دور میں بالکل فٹ نہیں ہوتے لہذا گستاخی معاف۔ تھوڑا سا سمجھانے کو بدل دیئے۔

پہلا واقعہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کا ہے۔ آپ نے جواب میں غصہ نہیں فرمایا بلکہ کہا کہ میں نے بیت المال سے اپنا حصہ وصول کیا جس سے یہ چادر لی۔ سوال کرنے والے کی اتنی تشفی فرمائی کہ اس نے خود پر ندامت کرتے ہوئے آپ کا دست مبارک چوم لیا۔

دوسرا واقعہ خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ کا ہے۔ آپ نے شرابی کو سزا دی تو اس کا جواب سن کر غصہ نہیں فرمایا حالانکہ آپ کا غصہ جلالی ہوا کرتا۔قبل از اسلام شراب تو عربوں کا کلچر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ نے اس شرابی کا جواب سن کر کہا کہ علی آپ اسے کوڑے لگائیں۔ علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے بیٹے حسن کو حکم دیا کہ اسے سزا دی جائے۔ حسن ابن علی نے اسے کوڑے رسید کیئے۔

تیسرا واقعہ خلیفہ چہارم علی کرم اللہ وجہہ کا ہے۔ آپ نے دشمن پر میدان جہاد میں غلبہ پایا۔ اس کا سر قلم کرنا چاہتے تھے کہ اس نے آپ کے چہرہ مبارک پر تھوک دیا۔ آپ اس حرکت کے بعد اس کے سینے سے اترے اور اسے چھوڑ کر واپس چل دیئے۔ کسی صحابی نے آواز دی ” یا علی آپ نے اس کی جان بخشی کیوں کر دی ؟ "۔ آپ نے جواب دیا ” میں جہاد اللہ کے لئے کرتا ہوں۔ جب اس نے میرے چہرے پر تھوک دیا تو اس کے بعد اگر میں اسے قتل کرتا تو اس قتل میں میرا اپنا غصہ یا میرا ذاتی غصہ بھی شامل ہو جاتا۔ اب اس کو کسی اور محاذ پر اللہ کے لئے میدان جہاد میں قتل کروں گا”

یہ تھا وہ دین جو عرب تا عجم چند سالوں میں پھیل گیا تھا اور یہ تھے وہ لیڈر جن کا کردار دین کی اشاعت کی ضمانت تھا۔ آج کے مذہبی لیڈر دیکھ لیجیئے اور ان کے مقلدین۔ آج کے زمانے کے مطابق اصل دین کے واقعات پرانے سے لگتے ہیں ناں ؟ ۔ اب تو کوئی سوال کر کے دکھائے۔ ایسی کی تیسی کسی کی ۔۔۔

مجھے بیشک آپ جعلی سید کہیں یا اصلی مگر میں اگر لکھوں گا تو دین اسلام کا وہی چہرہ دکھاوں گا جو اس کا ہے۔ امن ، سلامتی اور انسانیت۔ یہ متشدد دین تھا نہ متشدد ہستیوں نے تعلیم کیا تھا۔ آپ بیشک اپنے اپنے مولانا کی قبا اور پگڑی میں ہی ملبوس رہیں۔ زیادہ سے زیادہ گالی ہی دے پائیں گے یا کوئی فتوی یا پھر حد سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی مجاہد سر راہ ٹکر جائے تو خلاصی ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے