لیاقت بلوچ کا ٹویٹ ، افغان جہاد کی یادیں اور اداسیاں

نوے کی دہائی کے دوسرے نصف کے دوران جب ہم کابل پہنچے تو جو اہم باتیں بتائی گئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ سڑک سے نیچے نہیں اترنا ورنہ بارودی سرنگ کا شکار ہو جاؤ گے۔ دوسرے احمد شاہ مسعود نے کسی بھی پاکستانی کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر بھاری انعام رکھا ہوا ہے۔ اس لیے احتیاط کرنی ہے اور گرفتار نہیں ہونا ورنہ زندہ لوٹنے کا کوئی امکان نہیں۔
ہم جماعت اسلامی کی جانب سے گئے تھے اور گلبدین حکمتیار کے گروپ میں تھے۔ ہمارے اور احمد شاہ مسعود کے مورچے آمنے سامنے تھے، فائرنگ مسلسل جاری رہتی تھی، مورچوں کی قربت اتنی تھی کہ باآواز بلند ایک دوسرے کو گالیاں اور طعنے دیتے رہتےتھے۔

وہ ایسا دور تھا جب طویل عرصہ سے بے گھر اور بغیر روزگار کے رہنے کی وجہ سے جینے کی لگن ختم ہو چکی تھی۔ کابل پہنچتے ہی موت کی آرزو نے زور پکڑا اور ایسی حرکتیں کیں جن سے کمانڈروں کو لگا کہ یہ دلیر اور بے خوف آدمی ہے۔

خط سوم سے خط اول (فرنٹ لائن کے مورچوں) تک پہنچنے میں کئی ہفتے لگ گئے۔ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن کے بالکل قریب بیٹھے رہنا ہے اور ہر وقت چوکنا رہنا ہے۔
عصر کے وقت ڈبل کیبن ڈالے آتے تھے جن میں کھانے کا سامان، سبزیاں یا گوشت وغیرہ آیا کرتا تھا۔ اس وقت جنگ بندی ہوتی تھی کیونکہ تمام فریق اپنے اپنے حصے کا کھانا وصول کرتے تھے۔

ایک ایسے ہی موقع پر میں نے اپنے کمانڈر سے کہا کہ مجھے احمد شاہ مسعود کے فوجیوں سے بات کرنے کا بہت شوق ہے۔ ان کے جو فوجی اپنا کھانا لے رہے ہیں، میں ان سے گپ شپ کر کے آتا ہوں۔ کمانڈر کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ وہ بڑا نظریاتی اور انتہائی دلیر لڑکا تھا۔ اس نے کہا اکٹھے چلتے ہیں۔

ہم دونوں ان کے خیمے کے باہر پہنچ گئے تو ایک دم سے کھلبلی مچ گئی۔ دونوں طرف سے گنیں نکال لی گئیں۔ لیکن ہمارے کمانڈر نے سلام کیا اور گلے لگنے کے انداز میں ہاتھ پھیلا دیے۔ سب کے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑے۔ ہم احمد شاہ مسعود کے کمانڈر کے خیمے میں قہوے کے مزے اڑا کر واپس آئے تو پتا چلا ہمیں ریکسیو کرنے کے لیے پلان تیار ہو رہا تھا۔ اس پر ہم خوب ہنسے۔
جب اس واقعے کی اطلاع چہارآسیاب پہنچی جو مین ہیڈکوارٹر تھا تو ہم دونوں سے گن اور چانٹا چھین کر کچن ڈیوٹی پر لگا دیا گیا۔ تین دن پیاز اور سبزیاں کاٹتے رہے۔ اب ہنسنے کی باری اوروں کی تھی۔

ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں سزائیں بھگتیں مگر ہمارا نڈر ہونے کا ایک غلط تاثر پھیل گیا۔ ہائی کمانڈ کی جانب سے عزت ملنے لگی، کمانڈر سارا دن ساتھ رکھتا اور کبھی کبھار چہارآسیاب جاتا تو خط اولا کا ہمیں کمانڈر مقرر کر جاتا۔

کئی ماہ کابل میں گزارنے کے بعد ایک دن ڈی جی خان کے قریبی دوستوں کا خط پہنچا جس میں واپس آنے کی منتیں کی گئی تھیں۔ یہ خط ملتے ہی دل بیقرار ہونے لگا۔۔ کئی دن سوچنے کے بعد آخرکار ایک دن ہم نے واپسی کا اعلان کر کے دھماکہ کر دیا۔

پہلے کئی روز تو کسی نے ہمیں گھاس نہیں ڈالی۔۔ ہمارا اصرار بڑھا تو ہمیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی گئی۔ ہم پھر بھی باز نہ آئے تو چہارآسیاب بلا لیا گیا جہاں کے کمانڈر (انہیں شاہ جی کہتے تھے) نے ہفتہ دس دن ہمیں لیکچر دیے کہ آپ کو تو ہم نے کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کی وہاں زیادہ ضرورت ہے اور کشمیر صرف منتخب کردہ افراد کو بھیجا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ

لیکن ہمارے دل میں واپسی کا جنون پھیل گیا تھا چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے واپسی کی اجازت دے دی اور ہم پیدل بارڈر عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے اور اگلے روز اپنے شہر پہنچ گئے۔

آج لیاقت بلوچ نے ایک ٹویٹ میں اپنے بیٹے کی ٹورنٹو کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی خوشخبری سنائی تو دل کو بہت خوشی ہوئی کہ ایک نوجوان کو زندگی میں اپنا جائز مقام مل رہا ہے۔
البتہ وہ تمام بے سرو ساماں چہرے نظروں کے سامنے گھوم گئے جو جہاد کے شوق میں افغانستان پہنچے اور نہ جانے کیسی کیسی سختیاں سہنے کے بعد یا تو وہیں دفن ہو گئے یا پھر واپس معاشرے میں پہنچے تو وہاں کوئی انہیں زندگی کی طرف لوٹانے میں مدد دینے والا موجود نہیں تھا۔

یہ ایسے نوجوان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا قیمتی ترین حصہ افغانستان یا کشمیر کی پہاڑیوں میں گزار دیا۔ ان پر اگر ریسرچ کی جائے تو ایک بڑی تعداد کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ جن کے بزرگ جماعت اسلامی میں اہم مقام رکھتے تھے، ان کے لیے زندگی نے ضرور خوشحالی کے رستے کھول دیے ہوں گے، باقیوں میں سے زیادہ تر کی زندگی تباہ ہو گئی۔

اس ٹویٹ نے بہت سی یادیں تازہ کر دیں اور دل کو اداسی سے بھر دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے