دنیا کے عظیم لکھاری کی آرزو….!

گبریل گارسیامار کیز کو لمبیا میں پیدا ہوا ، کولمبیا میں رہا اور وہیں عروج پایا۔ چالیس کی دہائی میں اس نے اپنے کیرئیر کا آغازایک اخبار سے کیا تھا، لیکن پھر جلد وہ پیشہ ٔ صحافت ترک کر کے ادب کی وادی ِپُرخار میں داخل ہوگیا ۔ ابتدا میں اس کے چند افسانے اس کی وجہ توقیر بنے، لیکن اسے اصل شہرت اس کے عظیم ناول ’’ہنڈرڈائرز آف سالی ٹیوڈ‘‘سے ملی۔ یہی وہ ناول تھا، جسے نقاد صدی کا عظیم ترین ناول کہتے ہیں ۔ اسی ناول کی بنیاد پر مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل پرائز ملا۔بوڑھے گبریل گارسیامار کیز کا شمار دُنیا کے ان خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے ،جنھیں قدرت نے زندگی میں ہی عالمگیر شہرت بخشی دولت دی ، آسائش سے نوازا اور محبت ودیعت کی۔ گبریل گارسیامار کیز زندگی اور زندگی کی گرم جوشیوں سے ریٹائر ہو چکا ،تو اس نے جنوری 2001ء میںاپنے سیکرٹری کو آخری پیغام لکھوایا۔ یہ پیغام مارکیز کے کمپیوٹر سے جاری ہونے والی اس کی آخری تحریرہے۔ یہ پیغام، مارکیز کی اپنے چاہنے اور ماننے والوں کے نام وصیت ہے۔ یہ ایک مرتے ہوئے انسان کا نوحہ بھی ہے اور زندگی کا مرثیہ بھی۔ یہ ایک زندہ انسان کا اعتراف شکست بھی ہے اور ایک مرتے ہوئے انسان کی حسرت بھی۔میں اکثر اسے رات سونے سے پہلے پڑھتا ہوں اور پھر دیر تک جاگتا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں زندگی کے کشکول میں حسرتوں کے سوا بھی کچھ ہے؟ میں یہ پیغام، یہ خط، یہ وصیت آپ کی نذر کرتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ آپ نظم اور نثر کے ایک عظیم شاہکار کو اپنی میز کے شیشے کے نیچے اس طرح رکھ دیں گی کہ آپ اسے روز ایک بار ہاں صرف ایک بار ضرور پڑھ سکیں۔

گبریل نے لکھا تھا: ’’اے میرے خدا مجھے ایک لمحے کے لیے بے حس و حرکت گُڈے سے انسان بنا دے ، ایک جیتا جاگتا انسان ، مجھے قسم ہے تمھاری میں پھر کبھی وہ نہیں کہوں گا جو میں سوچتا ہوں ۔ میں صرف اور صرف سوچوں گا، اس کے بارے میں سوچوں گا جو میں کہتا رہتا ہوں یا پھر میں کہنا چاہتا ہوں ۔ اے میرے خدا میں پھر چیزوں کی قیمت نہیں ان کی اہمیت دیکھوں گا میں ان کی قدر کروں گا ۔میں کم سوئوں گا او ر زیادہ خواب دیکھوں گا کہ میں جان چکا ہوں ، ایک منٹ کے لیے آنکھیں بند ہوں تو ہم روشنی کے ساٹھ سیکنڈ کھو دیتے ہیں۔ اے میرے خدا تو اگر مجھے ایک لمحے کی زندگی بخش دے تو میں اس وقت چلوں گا جب لوگ رک جائیں گے ، میں اس وقت جاگوں گا جب لوگ سو جائیں گے ، میں اس وقت خاموش رہوں گا جب لوگ بولیں گے ، اے میرے خدا، میں چاکلیٹ کھائوں گا ، آئس کریم لوں گا تو پورے لطف ، پورے مزے کے ساتھ کھائوں گا۔ اے میرے خدا تو اگر مجھے تھوڑی سی زندگی دے دے تو میں ہمیشہ سادہ کپڑے پہنوں گا ، اپنا جسم ، اپنی روح سورج کے سامنے کھول دوں گا، اے میرے خدا اگر مجھے تھوڑی دیر کے لیے اپنا دل واپس مل جائے تو میں اپنی نفرت برف پر لکھ دوںگا اور پھر اسے سورج کی تمازت میں پگھلتے، بھاپ بنتے اور بھاپ پن کر اُڑتے دیکھوں گا۔ اے میرے خدا، تو اگر مجھے تھوڑی سی زندگی دے دے تو میں کوئی دن ایسا نہیں گزرنے دوں گا جب میں لوگوں کو اپنی محبت کا یقین نہ دلا دوں ، میں دنیا کے ہر مرد ہر عورت کو سمجھائوں گا ، مجھے ان سے محبت ہے، میں محبت میں محبت کے ساتھ رہوں گا اور میں لوگوں کو بتائوں گا جو لوگ سمجھتے ہیں بوڑھے ہو کر وہ محبت کے قابل نہیں رہتے وہ بڑے بیوقوف ہیں۔ انسان تو بوڑھا ہی اس وقت ہوتا ہے جب وہ محبت ترک کر دیتا ہے ۔ میں بچوں کو پَردوں گا ،لیکن انھیں اپنی اُڑان خود لینے کا موقع دوں گا ۔ میں بوڑھوں کو بتائوں گا موت بڑھاپے سے نہیں آتی، فراموشی سے آتی ہے ، بے حسی سے آتی ہے۔ اور اے انسان اے میرے پڑھنے والے انسان! یہ سب کچھ میں نے تم سے دیکھا ۔ میں نے تم سے سیکھا، دنیا کا ہر شخص چوٹی پر پہنچنا چاہتا ہے ، یہ جانے بغیر کہ چوٹی کچھ نہیں ، اصل چیز تو مسافت ہے ، وہ مشقت ہے جو پہاڑ سر کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ میں نے سیکھا جو بچہ باپ کی انگلی تھام لے، وہ سہاروں کا عادی ہوجاتا ہے ، میں نے سیکھا محبت کا حق صرف اس کو حاصل ہے، جس نے زندگی بھر لوگوں کو سہارا دیا ہو، جس نے لوگوں کو کھڑا ہونے میں مدد دی ہو۔ میں نے آپ لوگوں سے او ربھی بہت کچھ سیکھا، لیکن اس وقت جب موت میری پائنتی پر کھڑی ہے ، میرا دل اداس ہے ، میں اداس ہوں کہ میں وہ سب کچھ آپ کو نہیں سونپ پایا جو مجھے سونپنا چاہیے تھا ۔ افسوس میں زندگی کی اصل حقیقتیں اپنے سینے میں لے کر جا رہا ہوں ۔ افسوس میں وہ سب کچھ نہیں کہہ پایا جو مجھے کہنا چاہیے تھا۔ افسوس میں مر رہا ہوں‘‘۔

(اختر عباس کی کتاب ’’وِننگ لائن پرکون پہنچاتاہے‘‘ سے مقتبس)

بشکریہ روزنامہ دنیا(ڈائجسٹ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے