کراچی کی خانقاہ جو جنسی جذبات کو قابو کرنے کے لیے بنائی گئی تھی !!!

کراچی کے ایک پوش علاقے میں خانقاہ کھلی تھی جس کے ڈنکے بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ تک پِٹے تھے۔ اس خانقاہ سے بیعت ہونے والے مریدوں کی خوش گفتاری اور خوش پوشی من کو بھاتی تھی۔ ہر خانقاہ کا ایک انفرادی وظیفہ ہوتا ہے۔ اِس خانقاہ کا وظیفہ مدارس کے طلبا اور اساتذہ کو بچہ پرستی کے مرض سے نجات دلانا تھا۔ یہاں نفس پر قابو پانے کے لیے مختلف اوراد و وظائف بتائے جاتے تھے اور کچھ عملی مشقیں بھی کروائی جاتی تھیں۔ کچھ لوگ اپنے باطن کی مکمل صفائی کے لیے چالیس روز تک یہاں قیام بھی کرتے تھے۔ برسوں کی ریاضت سے کچھ لوگ انسانی حاجتوں سے اس درجہ بے نیاز ہوگئے تھے کہ انہوں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ تجرد کی زندگی گزارنے والے ان افراد نے اپنی زندگی خانقاہ کے لیے وقف کردی تھی۔

اس خانقاہ میں مدارس کے اساتذہ کو یہ تلقین کی جاتی تھی کہ وہ جاذب نظر بچوں کو پچھلی صفوں میں بٹھایا کریں یا پھر امام ابوحنیفہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسے بچوں کی ٹِنڈ کروادیا کریں۔ بتایا جاتا تھا کہ امام ابوحنیفہ نے ایسا اپنے شاگردِ خاص امام محمد شیبانی کے ساتھ کیا تھا۔ بال منڈوانے کے بعد بھی امام محمد کی خوبصورتی میں کمی نہ آئی تو انہیں مسند کے پیچھے بیٹھنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اِس خانقاہ کے شیخ کے ایک مرید ہوا کرتے تھے، جو مکھن ملائی جیسی چِکنی انگریزی بولتے تھے۔ پابندی کے ساتھ جسمانی ورزشیں کرنے کی وجہ سے خاصے ہینڈسم بھی تھے۔ قدرے چست لباس پہننے کی وجہ سے نسبتا سلیقہ مند بھی لگتے تھے۔ انگریزی اور سلیقہ مندی کی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں پروفیسر کہلواتے تھے۔ ایک تقریب کے لیے انہیں پنج ستارہ ہوٹل مدعو کیا گیا تو آستانے کے ضابطے کے مطابق انہوں نے اپنے شیخ سے اجازت چاہی۔ شیخ نے کہا، ٹھیک ہے چلے جاو مگر چشمہ اتار دینا۔ چشمہ پہنتے ہو تو ذرا پُرکشش لگتے ہو۔ چشمہ اتار دو گے تو لوگوں کے ایمان محفوظ رہیں گے۔

میری بات غلط ہوسکتی ہے، مگر لگتا یہ ہے کہ بعض چیزوں کی طرف ہم لوگوں کو بیٹھے بٹھائے متوجہ کردیتے ہیں۔ مثلا، ٹی وی پر مانع حمل مصنوعات کا اشتہار آکر یونہی گزر جائے تو سب ٹھیک رہتا ہے۔ لیکن جب ہم اچانک ریموٹ کی طرف لپکتے ہیں یا ہڑ بڑاتے ہوئے چینل بدل دیتے ہیں تو ہم دراصل بچے سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ چیزوں میں یہی چیز بہت کام کی تھی، جب بھی موقع لگے دیکھ لینا۔ سمجھ نہ آئے تو کسی دوست سے پوچھ بھی لینا۔ جب آپ خریداری کرتے وقت ماہواری کی ضروریات یونہی اٹھاکر سامان میں رکھ دیتے ہیں تو قیامت اپنے وقت پر ہی آتی ہے۔ لیکن جب آپ چوری چپکے اٹھاتے ہیں اور امتیازی سلوک کرتے ہوئے اسے خاکی لفافے میں لپیٹتے ہیں تو قیامت اپنے وقت سے بہت پہلے آجاتی ہے۔
کم وبیش ایسے ہی نتائج کراچی کی اس معروف خانقاہ کے بھی برامد ہوئے۔ ہمارا ایک پنواڑی دوست تھا جو ذات برادری کا کچی میمن تھا۔ منہ میں پان بغل میں عمران سیریز ہوتی تھی۔ اس کا گھرانہ نسل در نسل خوش حال چلا آرہا تھا۔ ایک بنگالی دوست کے کہنے پر وہ اسی خانقاہ سے وابستہ ہوگیا۔ پہلی جمعرات کا وعظ سن کر سیدھا میرے پاس آیا۔ کہنے لگا، کیا مدارس میں یہ سب بھی ہوتا ہے؟ تصدیق کی تو اس کی نظر میں وہ سارے بچے گھوم گئے جو اپنے اپنے اساتذہ کے بستر ٹھیک کرنے پر مامور تھے۔ کہنے لگا، تو یعنی کہ؟ میں نے کہا، جی بالکل۔ میمن بچے کی نفسیات پر اثر یہ ہوا کہ بڑی عمر کا کوئی شخص دس سیکنڈ سے زیادہ اس کا ہاتھ پکڑے رہتا تو اسے وحشت ہونے لگتی تھی۔ کوئی نیک طبعیت استاد بھی کسی کام سے اپنے حجرے میں بلالیتا تو بلائیں ٹالنے والی ساری دعائیں ایک ہی سانس میں پڑھ کر خود پر پھونک دیتا تھا۔

جن پروفیسر کا میں نے ذکر کیا، غالبا سال 2014 میں وہ لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹکر گئے۔ اس موقع پر اپنے سبوخ سید بھی موجود تھے۔ ریشمی دھاگوں والی خانقاہی ٹوپی کو سر سے غائب دیکھا تو میں نے کہا، سب خیر ہے؟ کہنے لگے، یار مجھے ایسا لگنے لگا کہ جو چیزیں مجھ میں نہیں تھیں وہ اِس خانقاہ کی برکت سے بلاوجہ مجھ میں پیدا ہوگئیں۔ جس چیز کی طرف کبھی پل بھر کو دھیان نہیں گیا، سالا یہاں صبح شام ہونے والی گفتگو سے چلاگیا۔ یہ بات میں کبھی اپنے کسی پیر بھائی سے کہتا تو وہ کہہ دیتا، یہ "برائی” تم میں پہلے سے موجود تھی مگر تمہیں اندازہ نہیں تھا۔ شیخ نے تمہارے باطن میں موجود اس برائی کی نشاندہی کردی ہے۔ اب چونکہ تم اپنے اس دشمن کو پہچان سکتے ہو اس لیے تمہارے لیے آسان ہوگیا کہ تم اس کا مقابلہ کرو۔ میں سوچتا رہا کہ یار ایسی عمارت تعمیر ہی کیوں کی جسے اب تزکیے کے بلڈوزر چلاکر مسمار کرتا پڑ رہا ہے۔ حالانکہ اب یہ بول بچن سے تھوڑی گرے گی، اس کو تو اب سمجھ میں آنے والا کوئی بندوبست چاہیے۔ بس بھائی اپنے کو تو یہی سمجھ آیا کہ سب چھوڑو بم پھوڑو والے فارمولے پر عمل کرو اور پتلی گلی سے شارٹ ہو جاو۔ تو بس یہ سین ہے۔

اس خانقاہ کا ذکر کرنے کا مقصد الزام دھرنا نہیں ہے۔ مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ اس خانقاہ کا وجود اس بات کا زندہ اعتراف تھا کہ جنسی بے راہ روی مدارس میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اہلِ مدارس کو گزشتہ کالم اس لیے ناگوار گزرا ہے کہ وہ بائی سیکچوئل ہونے کو فکری طور پر ایک انسانی عیب سمجھتے ہیں۔ عیب شاید چھوٹا لفظ ہے، وہ تو اسے جرم قرار دیتے ہیں۔ لیکن اِس بندہ نامراد کے خیال میں جنسی طور پر ہم سے مختلف لوگ بھی لائقِ احترام ہی ہوتے ہیں۔ خاص طور سے وہ لوگ تو قابلِ قدر ہوتے ہیں جو اپنے من میں ڈوب کر اپنے جنسی رجحانات کا سُراغ لگاتے ہیں۔ جستجو کی اِس مشق سے گزرنے والے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ پھول کی پتی سے بھی ان کے تلوے زخمی ہوجاتے ہیں۔ جھوٹ اور منافقت کا ان کے ہاں گزر نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی ذات میں ایک ایسی سچائی دریافت کی ہوتی ہے جس کا اعتراف جگر کا خون مانگتا ہے۔اعتراف کی اِس بھٹی سے جو گزر کرآتا ہے، ہر اعتراف اس کے لیے ہیچ ہوجاتا ہے۔ جو لوگ خود سے سچ نہیں کہتے، وہ زمانے سے بھی سچ نہیں کہتے۔ اکثر وہ سچ کہنے والوں کا منہ بھی نوچ لیتے ہیں۔

مدارس میں بھی اگر ایسے جنسی رجحانات کسی بھی وجہ سے موجود ہوں تو اس پر بات تو کی جاسکتی ہے، کسی کی بے احترامی نہیں کی جاسکتی۔ احترام سے گرا ہوا شخص تو فقط وہ ہے جو جبر کرتا ہے، مداخلت کرتا ہے اور آزادی سلب کرتا ہے۔ دیکھیے، غزل میں سخن گسترانہ بات دو موقعوں پر آتی ہے۔ پہلا، جب مدارس جنسی جرائم کے اسباب بیان کرتے ہیں۔ دوسرا، جب مدارس کے متن اور عمل میں فرق بڑھتا چلا جاتا ہے۔

مدارس جنسی جرائم کے جو اسباب بیان کرتے ہیں، خود مدارس کے اندر موجود مثالیں اُن اسباب کو رد کرتی ہیں۔ اہلِ مدارس کی رائے میں جنسی جرائم کے پیچھے اسلامی تعلیمات سے دوری، انگریزی ہندی فلمیں، مخلوط تعلیم اور اجتماعات جیسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا مدارس اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں؟ کیا مدارس میں مخلوط تعلیمی نظام رائج ہے؟ کیا مدارس میں فلم بینی کا رجحان عام ہے؟ ان سوالات کے جواب میں جب آپ نفی میں سر ہلائیں گے تو ایک سوال از خود پیدا ہوجائے گا کہ پھر مدارس میں جنسی بے راہ روی کہاں سے آگئی؟ اس سوال کا جواب دو طریقوں سے دیا جاسکتا ہے۔ منطقی اسباب بیان کیے جائیں یا پھر حقیقت کا انکار کردیا جائے۔

منطقی اسباب بیان کیے جائیں تو متن اور عمل کے فاصلے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ حقیقت سے ہی انکار کردیا جاتا ہے تو یہ فاصلہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ وقت ان فاصلوں کو پھر بے چینی اور اضطراب سے پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔متن یہ ہے کہ جنسی تشدد نسبتا زیادہ بڑا جرم ہے۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ باہمی رضامندی سے قائم ہونے والے تعلقات پر شدید پکڑ ہوتی ہے، جبکہ جنسی تشدد کے واقعے میں مجرم کا ساتھ دیاجاتا ہے۔ متاثرہ فریق کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے، اس کا تو کردار ہی خراب ہے۔ ہے بھی نکما، نماز بھی نہیں پڑتا، امتحان میں اکثر اس کے نمبر بھی کم آتے ہیں۔ متن یہ ہے کہ ہومو سیکچوئیلیٹی یعنی مائل بہ ہم جنس ہونا سنگین جرم ہے۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ اس معاملے سے کہیں زیادہ سنجیدہ جرم استاد کی جوتی سیدھی نہ کرنے کو سمجھا جاتا ہے۔
قول اور عمل میں جب فطری طور پر فاصلہ پیدا ہوجائے تو متن اور عمل کے بیچ تاویل کا پُل باندھنا پڑتا ہے۔ لیکن مدارس کا علمی رجحان یہ ہے کہ متن کو چھیڑنا در اصل پچھلے دور کے بزرگوں کو چھیڑنے والی بات ہے۔ چنانچہ اجتماعی اصرار یہ ہوتا ہے کہ متن کو بھی باقی رکھا جائے اور نئے چلن کو بھی برقرار رکھا جائے، مگر اس کے احساس کے ساتھ کہ جو میں کر رہا ہوں وہ گناہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم "بدکاری” تو کرتے ہیں مگر ہم کسی تنقید اور سزا کے مستحق نہیں ہیں، کیونکہ ہم گناہ کو بہرحال گناہ ہی سمجھتے ہیں۔ تم گناہ کروگے تو مارے جاوگے، کیونکہ تم تو اسے گناہ بھی نہیں سمجھتے۔ اللہ اکبر!
مدارس سے ہر گز یہ تقاضا نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سٹام پیپر پر جنسی حوالے سے کوئی اعترافی بیان لکھ کردیں۔ معاشرتی بحرانوں میں لکھ کر یا کہہ کر اعتراف کیے بھی نہیں جاتے۔ دانا لوگ بہت سمجھداری سے بند توڑتے ہیں اور پانی کا رُخ چپ چاپ دوسری سمت میں موڑ دیتے ہیں۔ الجھتے نہیں ہیں، ایسے لوگوں کو مہلت اور ماحول دیتے ہیں۔ سلیم کوثر نے بہت دردمندی سے کہا تھا

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا اُنہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

مولانا نے جو کیا مدرسے میں کیا۔ کیا خانہ خدا کے تقدس کے لیے کوئی مہم چلی؟ ایک ویڈیو میں حدیث کی ایک جہازی سائز کی کتاب سایہ فگن تھی۔ کیا توہین رسالت کا سوال پیدا ہوا؟ کراچی میں جنسی تربیت کے لیے خانقاہ کھلی، سیکس ایجوکیشن کا کوئی ہنگامہ ہوا؟ مدارس میں ہونے والے جنسی جرائم تک کو علمائے دین غلطی اور خطا لکھ رہے ہیں، مشرق کی زلف تھوڑی سی بھی پریشان ہوئی؟

مدارس سے یہ تقاضا تو کم از کم کیا ہی جاسکتا ہے کہ وہ اپنے جنسی بیانیے پر اپنے عملی رجحانات کی روشنی میں نظر ثانی فرمائیں۔ خلوصِ نیت کے ساتھ احوال کا جائزہ لیں اور پھر بقائے باہمی کے لیے اپنے بیانیے سے دستبردار ہوجائیں۔ اس کی عملی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ مارننگ شو میں ہونے والی یوگا کی مشقوں، اشتہارات کے مناظر، ثقافتی رقص اور مخلوط اجتماعات پر تھوڑا بہت غصہ ہولیا کریں، مگر غصے کی حرارت اتنی ہی رکھا کریں جتنی منبر و محراب کے سائے میں ہونے والے بھرپور جنسی جرائم پر رکھتے ہیں۔ گستاخی اور توہین کے نام پر گھیرے گئے جوانوں کو تشریح کا وہی وقت اور حق دیا کریں جو اپنے حلقے کو دیتے ہیں۔ اتنا ہوجائے تو بھی دنیا بہشت ہے۔

اس میں ناراض ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ ستائے ہوئے لوگ ہر گز یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ اپنی زندگی میں سے کچھ حصہ کاٹ کر زمانے میں بانٹ دیں۔ آپ سے فقط اپنے حصے کی زندگی مانگی جارہی ہے۔ فقط اپنے حصے کی!

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے