پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کی سیاحت کا موازنہ

مجھے ایڈونچر کا کوئی شوق نہیں اور سفر کے دوران تو بالکل نہیں۔ میں آرام دہ سفر کا قائل ہوں۔ بیاباں میں خیمے لگا کر رہنے یا پہاڑوں پر ہانپتے ہوئے چڑھنے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں (انگریزی میں جسے ’ہائیکنگ‘ کہتے ہیں)۔ میرا ماننا ہے کہ جب ﷲ کی ساری زمین ہی خوبصورت ہے تو خواہ مخواہ جان جوکھم میں ڈال کر کسی پُرفضا مقام تک جانے کیا ضرورت ہے! لیکن اِس مرتبہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایڈونچر ہو گیا۔ ہم لاہور سے نکلے تو ارادہ تھا کہ سیدھا بالا کوٹ جا کر ہی رکیں گے۔ اِس سفر کے لئے ہم نے ایک خاصی پرانی گاڑی کا انتخاب کیا جو پہاڑوں پر دوڑنے کے لئے بہترین تھی سو ہمارا اندازہ تھا کہ اِس مرتبہ سفر کا تجربہ قدرے مختلف ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ہزارہ موٹروے پر ہماری گاڑی خراب ہو گئی، قصور ہمارا اپنا تھا، گاڑی کی سرخ بتی تو دینہ سے ہی روشن ہو گئی تھی مگر ہم نے اسے لاپروائی سے یوں نظر انداز کر دیا تھا جیسے ہر پاکستانی انتباہ کے نشانات کو تمسخرانہ انداز میں دیکھتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ گاڑی تو ٹھیک ہو گئی مگر سبق یہ حاصل ہوا کہ موٹر وے کی بجائے اگر گاڑی جی ٹی روڈ پر خراب ہو تو زیادہ سہولت سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔ بہرحال اِس چھوٹے سے ایڈونچر کی وجہ سے ہمیں پروگرام میں تبدیلی کرنا پڑی اور بالاکوٹ کی بجائے رات ایبٹ آباد میں گزارنا پڑی۔ ہم ایبٹ آباد میں داخل ہوئے تو بارش ہو رہی تھی، ڈیڑھ بجے کا وقت ہوگا، پورا شہر بارش میں دھل کر نکھر رہا تھا، ایسے جیسے کوئی حسینہ لاپروائی سے بارش میں بھیگ رہی ہو۔ ہماری اگلی منزل ناران اور بٹہ کنڈی تھی اور یہ وہ علاقے ہیں جن کے متعلق ہمارا دعویٰ ہے کہ سوئٹزر لینڈ سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟

2014میں پہلی مرتبہ مجھے سوئٹزر لینڈ جانے کا اتفاق ہوا، میلان سے زیورخ تک ہم نے بذریعہ کار سفر کیا جو زندگی کا ایک یادگار سفر تھا، پہاڑوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے بادلوں کے اوپر تیرتے ہوئے ہم سوئٹزر لینڈ کی وادی میں داخل ہوئے جو ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا جب ہم پاکستان کا سوئٹزر لینڈ سے مقابلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا ملک اُس سے بھی زیادہ حسین ہے تو اِس میں کچھ مبالغہ آرائی، کسی حد تک حب الوطنی اور تھوڑی بہت حقیقت بھی ہوتی ہے مگر یہ موازنہ کرنا درست نہیں۔ سیاحت ایک پورے پیکیج کا نام ہے جس کے تین حصے ہیں۔

حسین وادیاں اور خوبصورت پہاڑ، اِس پیکیج کا ایک حصہ ہے، دوسرا حصہ سہولیات پر مشتمل ہے جبکہ تیسرے حصے میں تفریحات شامل ہیں۔ بالاکوٹ سے ناران تک کا راستہ بلاشبہ بےحد خوبصورت ہے، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اِس راستے نے مجھے سوئٹزر لینڈ کی یاد تازہ کردی، وہی سیب کی قاشوں جیسے پہاڑ اور اُن کے دامن میں بہتا ہوا دریا۔ اِس پورے راستے میں دریائے کنہار تقریباً سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بپھرا ہوا رہتا ہے، اِس کی موجوں کا شور آپ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بھی سُن سکتے ہیں، اِس دریا کا پانی اِس قدر ٹھنڈا ہے کہ آپ اِس میں دو منٹ پاؤں رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ راستے میں جگہ جگہ مقامی لوگوں نے کھانے پینے کی دکانیں اور ریستوران ایسے بنائے ہیں کہ آپ پوری طرح دریا سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، پنجاب میں آپ کسی دریا یا نہر کے کنارے یوں نہیں بیٹھ سکتے اور اس کی وجہ دریاؤں کی طغیانی ہے۔ جب ہم رات کو ناران شہر میں داخل ہوئے تو دور سے شہر کی روشنیاں جگ مگ کرتی نظر آئیں جو ایک دلفریب نظارہ تھا۔ میں نے اِس سے پہلے ناران کی یہ تصویر نہیں دیکھی تھی۔ خوبصورتی میں ناران کے نمبر پورے ہیں، سوئٹزر لینڈ سے کم نہیں، یہ علاقہ سیاحوں کے لئے محفوظ بھی ہے۔ ناران سے تقریباً 14کلومیٹر آگے بٹہ کنڈی میں نہ بجلی ہے اور نہ فون کے سگنل آتے ہیں، وہاں پہاڑ کی چوٹی پر ایک ہوٹل میں ہماری بکنگ تھی، اُس ہوٹل تک پہنچنے میں ہمیں کافی رات ہو گئی مگر کہیں عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا۔ کچے پکے ویران پہاڑی علاقوں سے گزرتے ہوئے جب ہم ہوٹل کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک راستہ ڈھلان کی صورت میں نیچے کو جا رہا تھا مگر آگے چونکہ گھٹا گھوپ اندھیرا تھا اِس لئے پتا نہ چل سکا کہ یہ راستہ ہے بھی یا نہیں۔ ﷲ کا نام لے کر گاڑی اس راستے پر ڈال دی، شکر ہے کہ آگے ہوٹل ہی تھا کھائی نہیں تھی۔ وہاں ہم نے خیموں میں رات بسر کی اور یوں ایڈونچر کا شوق پورا کیا۔

جہاں تک سہولیات اور تفریحات کی بات ہے تو اِس میں ناران کے نمبر کم ہیں۔ ناران کے باسیوں کا البتہ کوئی قصور نہیں، انہوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق سیاحوں کو وہ ماحول دینے کی کوشش کی ہے جس کی تلاش میں لوگ اِن خوبصورت وادیوں میں آتے ہیں۔ راستے میں رُکنے کے لئے بےشمار خوبصورت مقامات بنے ہوئے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اِن مقامات میں یورپ والی نفاست نہیں اور وہ ممکن بھی نہیں کیونکہ انٹر لاکن کے اسٹیشن پر پانی کی جو بوتل آپ کو ڈیڑھ یورو میں ملتی ہے وہ یہاں بیس روپے میں ملتی ہے، وہاں جس ہوٹل کا کرایہ دو سو یورو ہے، یہاں 8ہزار روپے ہے۔ قوت خرید ہی اِس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ کو کس قسم کی سہولیات ملیں گے، اب ناران کے علاقے میں کچھ نئے ہوٹل کھل گئے ہیں جو سہولت کے اعتبار سے اچھے ہیں مگر ان کرایہ کافی زیادہ ہے۔ تفریح کے معاملے میں بھی ہماری سیاحت کا بین الاقوامی سیاحت سے کوئی مقابلہ نہیں اور اِس کی وجہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ہماری تفریح شنواری مٹن کڑاہی سے شروع ہوتی ہے اور دیسی مرغ کڑاہی پر ختم ہو جاتی ہے۔ اب کچھ عرصے سے شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کی تفریح کے لئے اسکینگ، کشتی رانی اور اِس نوع کی دیگر تفریحات کا بندو بست کیا جا رہا ہے مگر ظاہر ہے کہ ہنوز انٹر لاکن دور است۔

آخری تجزیے میں پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کا موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی گاؤں کی خوبصورت مگر میک اپ کے بغیر سمٹی سمٹائی عورت کا مقابلہ شہر کی بیباک حسینہ سے کیا جائے جس کا انگ انگ پھڑکتا ہو۔ معافی چاہتا ہوں کہ یہ خالصتاً مردانہ مثال ہے مگر کیا کروں، ’آفٹر آل‘ میں مرد ہوں!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے