دین ِاسلام مذہب کی جبری تبدیلی کی مخالفت کرتا ہے ۔عہد موجود میں پاکستان میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔ مذہب کی جبری تبدیلی جیسے رونما ہونے والے واقعات ملکی وقار کے منافی ہیں۔ دشمن ملک بھارت ان واقعات کی آڑ میں پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ۔ سندھ سے ہندو کمیونٹی کی بچیوں کے جبری مذہب تبدیل کرنے سے متعلق پیش آنے والے واقعات نے سب کی توجہ مبذول کرا رکھی ہے لیکن اس کے سدباب کیلئے کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتا۔ پارلیمانی ممبرز تک اندرون سندھ کے علاقوں کا دورہ کرچکے ہیں یہاں تک کہ متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔ اہم سوال جس نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے کے حوالے سے فقط نابالغ لڑکیاں ہی کیوں نظر آرہی ہیں۔ غیر مسلم لڑکے کیوں اسلام قبول نہیں کرتے؟ اس کے علاوہ مذہب تبدیلی کی خبر کے ساتھ ہی شادی کرنے کے عمل نے چیزوں کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں ۔
پریتم داس: 47 سال بعد خوشی کی خبر ملی وہ بھی ادھوری
خیبر پختونخوا میں "ہندو میرج ایکٹ” کا نفاذ کب ہو گا؟
غیرمسلم بچے کلاس سےباہرجاکربیٹھ جائیں۔
نفرت اور تعصب کا نصاب کیسے چلے گا؟
مذہب کی جبری تبدیلی‘معاشرتی المیہ!
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں جبری مذہب تبدیلی کے ایک ہزار سالانہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ حال ہی میں رینا کماری مینگھواڑ کا کیس جسے بدین سے بازیاب کرایا گیا‘اس کا ویڈیو بیان بھی سامنے آیا کہ زبردستی اسلام قبول کروایا گیا اور گھر والوں کو مارنے کی دھمکی دی گئی۔ پاکستان دراوڑ اتحاد تنظیم کے چیئر مین فقیر شیوا نے رینا کماری میگھواڑ کیس کو عدالت سے گھر واپسی تک فالو کیا ہے ‘ان کا کہنا ہے کہ کچھی‘ بھیل‘ میگھواڑ‘ باگڑی‘ جوگی ‘ کولہی ذات کی غریب‘ غیر تعلیم یافتہ لڑکیوں کو بہلا پھسلا کے یا اغوا کر کے نکاح کر لیا جاتا ہے ۔کئی غریب تو رپورٹ ہی نہیں کراتے اور جو رپورٹ کرانے جائیں ان کی پولیس مدد ہی نہیں کرتی ‘مشکل سے ایف آئی آر ہو جائے تو پھر عدالت میں لڑکی کو اتنے ہجوم اور اسلحے کے زور پہ دبائو کے ساتھ لایا جاتا ہے جیسے جنگ کے لیے لیجایاجا رہا ہو‘ لڑکی سے والدین کو نہیں ملنے دیا جاتا اور اپنی مرضی سے 164 کا بیان لےلیا جاتا ہے ۔ابھی ہم نے حیدرآباد میں چانگ برادری کی لڑکی ڈیڑھ سال بعد بازیاب کرائی ہے ایک ہفتہ قبل ہی ٹنڈو غلام علی سے جوگی برادری کی لڑکی لغاری لے گئے۔
عمرکوٹ میں بھی ایک مسیحی لڑکی کا کیس ہوا۔ان واقعات کے پیچھے سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے عمر کوٹ کے پیر ایوب جان سرہندی اور ڈہرکی کے میاں مٹھو شامل ہیں۔ اس حوالے سے سندھ کے سینئر صحافی قاضی آصف سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میاں مٹھو کو تو پیپلز پارٹی نے نکال دیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر کے مطابق ہندوؤں کی تعداد سندھ میں زیادہ ہونے کی وجہ سے کیس زیادہ ہیں اور پیپلز پارٹی اس عمل کے سخت خلاف ہے ۔یہی مؤقف سینیٹر کرشنا کماری نے دیا۔ چیئرمین نیشنل کمیشن فار مینارٹیز چیلا رام کیلوانی نے کہا کہ اقلیتیں ہجرت کر کے نہیں آئیں ہم 1947 سے پہلے اس دھرتی کے باسی ہیں۔اگر کوئی اسلام خوشی سے قبول کرتا ہے تو ہم کبھی بھی مخالفت نہیں کرتے لیکن کم عمر لڑکیوں کو اٹھا لیا جاتا ہے ‘پھر شادی کرتے ہیں پھر اسلام قبول کراتے ہیں‘ ابھی حال میں ہی سکھرمیںایک مسیحی لڑکی کا واقعہ پیش آیا ۔ہم اس وقت کچھ بھی نہیں کر سکتے جب نکاح کر لیا جاتا ہے ۔پہلی بار قانون سازی کی جارہی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کے دو ہزار چودہ کے تاریخ سازفیصلے پرہمارا کمیشن متحرک ہوا ہے ۔
غیر سرکاری تنظیم راہ نجات منسٹری کے چیئرمین صفدر چودھری کے مطابق جبری تبدیلی مذہب پاکستان میں اقلیتوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے ۔مولانا طاہر اشرفی نے ایک بیان میں کہا کہ جبری شادی کا کوئی واقعہ ملک میں نہیں ہوتا۔ لیکن بائیس جنوری 2021کو راولپنڈی سے مشعل نامی پندرہ سالہ مسیحی بچی کے ساتھ جبری شادی کی گئی اور مذہب تبدیل کرایا گیا۔ 2019 میں صائمہ خاتون کو جو شادی شدہ تھی کو اغوا کیا گیا اور جبری شادی کی گئی بے شمار ایسے واقعات ہیں ۔قابل افسوس امر ہے کہ جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 2014 کے فیصلے پر بالکل بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ حالانکہ وہ ایک مفصل فیصلہ ہے۔ نیشنل کمیشن فار مائنارٹیزکمیشن سے اقلیتوں کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کے سینئر ریسرچ آفیسر غلام ماجد کہتے ہیں جبری تبدیلی مذہب سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس قبل ازیں دو بل آئے تھے‘کونسل نے ان دونوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔
جبر کی تعریف‘عمر کی حد اور بعض قانونی پابندیوں کو غیر شرعی قرار دیا تھا‘عمر کی حد قانون میں 18 سال رکھی ہے۔ گویا 18 سال سے پہلے کوئی اسلام قبول نہیں کر سکتا‘یہ حد شریعت کے بھی خلاف ہے اور بین الاقوامی قانون کے بھی خلاف ہے‘قانونی پابندیوں میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے بعد مخصوص طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔غور وفکر کے لئے کتب اور سکالرز کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔یہ سب شریعت سے ہم آہنگ نہیں ۔اس لئے کہ جو بندہ اسلام قبول کر لیتا ہے تو فوراً اس پر اسلامی احکام لاگو ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے تاخیری پراسس درست نہیں ۔اسی طرح وزارت انسانی حقوق کا موجودہ بل بھی انھی متعدد شرعی خرابیوں پر مشتمل ہے ۔اس بل میں پاکستان کے قومی سفارتی بیانیے کی بھی نفی ہے‘قومی بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی نہیں ہوتی جبکہ اس بل سے تاثر یہ سامنے آتا ہےپاکستان میں بھی جبری تبدیلی مذہب ہوتاہے۔
سینیٹر عثمان کاکڑ کی رپورٹ میں بھی واضح کیا گیا تھا پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن جناب ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی نے ایک سروے رپورٹ پیش کی‘جس میں اقلیتی افراد سے انٹرویوز کے نتیجے میں واضح کیا گیا ہے پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات نہیں ہوتےبلکہ پاکستان میں مذہبی آزادی بہت نمایاں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے وزارت مذہبی امور کو چندنکات پر مشتمل ایک عبوری جواب ارسال کیا ہے اور اس ضمن میں مزید کام کرنے پر اتفاق ہواہے۔وزارت انسانی حقوق کے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری لال چند مالہی نے بل کے حوالے سے کہا حکومت کاProhibtion of forced conversion bill 2021 کےمجوزہ ڈرافٹ کیلئےپارلیمنٹ میں لابنگ ہو رہی ہے بل کےمطابق18سال سےکم عمرفرداسلام قبول نہیں کرسکتا۔ 18سال سےزائد عمر کے جو لوگ اسلام قبول کرینگے‘وہ سیشن جج کودرخواست دینگے اور90دن جج کی نگرانی میں تقابل ادیان کامطالعہ کرینگے ‘ اس کےبعداس سےپوچھاجائےگااگروہ اسلام قبول کرنےسےانکارکرے تو اسلام قبول کرانےوالےافراد کیخلاف فوراً جبری تبدیلی مذہب کامقدمہ درج کیا جائے گا۔کئی سال قید/جرمانہ کیاجائےگا۔
جبری مذہب تبدیلی پہ پاکستان کی سماجی تنظیموں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اظہار تشویش بجا ہے‘ یہی وہ قابل اعتراض نکتہ ہے جس کی نشاندہی ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ کی شرائط میں کی گئی ہے۔ یہ ناصرف مذہبی آزادی سلب کرنے کا معاملہ ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے کہ کسی خاتون یا مرد کو زور زبردستی‘ لالچ دیکر اپنے عقیدے اور حق سے دستبردار کرایا جائے اور من مرضی کا فیصلہ مسلط کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ادارے اس ضمن میں مروجہ قوانین کو برئوے کار لاتے ہوئے اس سنگین مسئلہ کے مؤجب عناصر کا محاسبہ کریں اور اپنے ملک‘ دین اور قوانین کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال ہونے سے بچایا جائے۔ اس حوالے سے عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ایسے واقعات کو ہونے سے روکنے میں کیونکر ناکام ہیں؟ یہ پاکستان کے آئین کی نفی ہے جو اقلیتوں کو مذہبی آزادی دیتا ہے اگر جبری مذہب تبدیلی کو نہ روکا گیا تو اس سے ایک نیا انسانی المیہ اور مذہبی آزادی کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ایسے واقعات انسانی حقوق ، مذہبی رواداری ، شخصی آزادی ، ریاستی اصولوں اور مذہبی و قومی رویات و اقدار کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا ہے جبری تبدیلی مذہب کیلئے وزارت انسانی حقوق کا مسودہ وزارت مذہبی امور میں زیر غور ہے ، مجوزہ قانون کے تمام دینی‘ آئینی اور سماجی پہلوؤں کا باریکی سے جائزہ لے رہے ہیں تاہم تبدیلی مذہب کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں رکھی جاسکتی۔ پیر نور الحق قادری نے کہا قانون سے متعلق مذہبی طبقات اور اقلیتی اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ رابطہ میں ہیں‘ تمام متعلقہ فریقوں کے تحفظات کا ازالہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں زبردستی تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں تاہم تبدیلی مذہب کیلئے کوئی عمر کی قید بھی نہیں رکھی جاسکتی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ صوبہ سندھ سے زبردستی تبدیلی مذہب کے مبینہ واقعات پاکستان کیلئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں‘اپنی مرضی اور رغبت سے کسی بھی عمر میں اسلام قبول کیا جاسکتا ہے‘ زبردستی اور جبر سے مذہب کی تبدیلی کسی بھی عمر میں قابل قبول نہیں۔
الغرض بانی پاکستان قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر پر من وعن عمل کیا جاتا یا پھر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ملک میں غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے 19 جون 2014 کودیئے گئےتاریخی فیصلےپر ہی کان دھر لیے جاتےتو معاملات خاصی حد تک سدھر چکے ہیں۔ اس فیصلے کے سات اہم نکات یہ ہیں :
1۔ مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے وفاقی سطح پر ٹیم تشکیل دی جائے۔
2۔ پرائمری‘ سیکنڈری اور تیسری سطح کی تعلیم کے لیے مناسب نصاب تیار کریں جو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دے۔
3۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کو روکا جائے۔
4۔ اقلیتوں کے لیے قومی کونسل بنائیں۔
5۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی پولیس فورس قائم کی جائے۔
6۔ سرکاری ملازمتوں میں 5 فیصد اقلیتی کوٹہ نافذکیا جائے۔
7۔ جب بھی مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق پامال ہوتے ہیں یا ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے‘ فوجداری مقدمے کے اندراج سمیت فوری کارروائی کی جائے۔
بدقسمتی سے جسٹس جیلانی کے تاریخ ساز فیصلے کی تعمیل نہیں ہو سکی۔ اگر حکومتی ادارے جسٹس جیلانی کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے تو نا صرف اقلیتیں معاشی اور سماجی طور پر بہتری کی منازل طے کرتیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بھی بڑھتا۔اب بھی اس سمت میں قدم بڑھا کر منزل پائی جا سکتی ہے۔