خیبرپختونخوا: نئے ضم شدہ اضلاع میں 35فیصد گھرانے غذائی قلت کا شکار

47 فیصد خاندانوں نے خوراک اورصحت کے اخراجات کے لئے قرض لیا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواراک (ڈبلیو ایف پی) کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں نئے ضم شدہ علاقوں کی35 فی صد گھرانے غذائی عدم تحفظ کے شکار ہے اورگذشتہ 6 ماہ میں تقریبا 47 فیصد خاندانوں نے خوراک اورصحت کے اخراجات کے لئے قرض لیا ہوا ہے۔

ڈبلیو ایف پی اور حکومت خیبر پختونخوا کے باہمی اشتراک سے کی جانے والی ایک سروے کے بعد تیار ہونے والی رپورٹComprehensive Food Security & Livelihood Assessment (CFSLA) 2019-20کے مطابق قبائلی علاقوں میں35فی صد گھرانے ایسے ہیں جو کہ غذائی عدم تحفظ جیسے مسئلے سے دوچار ہیں جبکہ دیگر 60فی صد گھرانوں کو بھی یہ مسئلہ درپیش ہے لیکن اس کی نوعیت معمولی ہے اسی طرح صرف 5 فی صد گھرانے یا خاندان ایسے ہیں جن کو ایکا ن میں اتنا کھانا مل رہا ہے جس میں ان کو ضروری کلوریز مل سکیں۔

سال 2018 میں انضمام کے بعد 7 قبائلی اضلاع اور 6 ڈیژونز جن کو پہلے فاٹا کہا جاتا تھا اب قبائلی علاقے شمار ہوتے ہیں ۔

2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ان علاقوں کی مجموعی آبادی 50 لاکھ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان علاقوں کے ایک تہائی گھرانوں کے افراد اپنے روزمرہ خوراک میں سبزیوں اور پروٹین پر مشتمل خوراک جیسے دودھ اور گوشت کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ ان علاقوں میں تقریبا 22 فیصد گھرانے خوراک کی قلت سے بچنے کے لئے اپنے اثاثے جیسے زرعی زمین یا گھر کے مال مویشی تک فروخت کر لیتے ہے باجود اس کے کہ 65فی صد گھرا نوں کا انحصار زراعت ، کھیتی باڑی مال مویشی یا اور روزانہ کی بنیاد پر مزدوری پر ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے "گذشتہ 6 ماہ میں تقریبا 47 فیصد خاندانوں نے خوراک اورصحت کے اخراجات کے لئے قرض لیا ہوا ہے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ضم شدہ علاقوں میں زرعی سرگرمیاں بہت حد تک محدود ہیں اور ان اضلاع میں باجوڑ واحد علاقہ ہے جہاں پر مجموعی طور لوگ کاشتکاری سے منسلک ہیں اور اپنی خوراک کی ضرورت کسی نہ کسی حد تک زمینداری یا مال مویشی سے حاصل کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر تقریبا 46 فیصد گھرانوں کے پاس کاشتکاری کے لے زرعی زمین موجود نہیں ہے جبکہ 43 فیصد گھروں کے پاس دو ایکڑ تک جبکہ 11 فیصد دو ایکڑ سے زیادہ اراضی کے مالک ہیں۔

سی ایف ایس ایل ای 2019-20 کی رپورٹ کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختو نخوا میں شامل ہونے والے قبائلی علاقوں میں لوگوں کو درپیش فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ ان علاقوں میں حکومت کی عرصے سے ناکام معاشی پالیسی ہے جس کی وجہ سے لوگ غذائی تحفظ جیسے عالمی اور سنگین مسئلے سے دوچار ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت ، فصلوں ، گھریلو مرغبانی ، مویشیوں کی دیکھ بھال میں حکومتی تعاون اور مقامی مارکیٹ پر حکومت کی توجہ اور سرمایہ کاری سے قبائلی عوام کو فو ڈ سیکورٹی فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے زیر اہتمام پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈ میجرمینٹ (پی ایس ایل ایم) سروے 2019-20 کے مطابق میں کے پی کے مستقیل اضلاع میں 12.75 فیصد گھرانے فوڈ سیکورٹی کے مسئلے سے دوچار ہے. یاد رہے کہ قبائلی علاقوں میں ہونے والی سروے یعنی سی ایف ایس ایل اے کے لئے ورلڈ فوڈ پروگرام اور پختونخوا حکومت کے تعاون سے 14ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس نے 630 گھرانوں سے انٹرویو کیا اور رپورٹ مرتب کرنے کے لئے کمیونٹی کے ساتھ 363 فوکس گروپ ڈسکشن (ایف جی ڈی) کا انعقاد کیا۔اس کے علاوہ ، باجوڑ ، خیبر ، کرم ، مہمند ، شمالی وزیرستان ، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع اور قبائلی سب ڈویژنز پہلے بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان ، کوہاٹ کے فرنٹیئر ریجنز کے نام سے مشہور تھے کی تمام مقامی مارکیٹوں کے دورے کئے اور وہاں پر غذائی اجناس کی طلب اور رسد کی مکمل جانچ پڑتال کرنے کے بعد ایک جامع رپورٹ شائع کی جو کہ صوبائی حکومت کے محکمہ ترقی اور منصوبہ بندی کے ویب سائٹ پرComprehensive Food Security & Livelihood Assesment (CFSLA) 2019-19کے نام سے موجود ہے۔

پاپولیشن ویلفئیر ڈپارٹمنٹ کے مطابق کے پی کی مجموعی آبادی چار کروڑ سے زیادہ ہے جس میں ہر سال دس لاکھ افراد کا اضافہ ہو جاتا ہے اور توقع ہے کہ ائندہ 25 سال میں صوبے کی آبادی دوگنا ہو جائے گی. بے قابو ماحولیاتی خطرات کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کے وسائل کی غیر دانسمندانہ افادیت صوبے میں فی کس کھانے کی دستیابی کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

خیبر پختونخوا فورڈ سیکورٹی پالیسی غذائی عدم تحفظ اور غذائیت کی کمی کے چیلنج سے نمٹنے کے لے بنائی گئی خیبر پختو نخوا فوڈسیکورٹی پالیسی ڈرافٹ سال 2020 میں تیار ہوئی ہے. تاہم ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک صوبائی کابینہ سے منظور نہیں ہوئی ہے انجینئر ناصر احمد چیف پلاننگ افیسر ایگرکلچر لائیو سٹاک کے پی کے مطابق خیبر پختون خوا سیکورٹی پالیسی ڈرافٹ دسمبر 2020 میں تیار ہوئی محکمہ قانون سے چانچ کے عمل سے بھی گزر چکی ہے تاہم صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد ہی اس پر عمل در امد ممکن ہو سکے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے