بیزاری + سُستی = ؟

طبیعت پر آج کل عجیب سی بیزاری چھائی ہوئی ہے، شاید موسم کا اثر ہے لیکن موسم کا اثر کیا صرف مجھ پر ہی ہے؟ ہمیں تو جو بات سمجھ نہیں آتی وہ یا تو خدا پر ڈال دیتے ہیں یا موسم پر۔ میاں، آج کل سستی کیوں چھائی ہے؟ موسم کا اثر ہے۔ تم امتحان میں کیوں فیل ہو گئے؟ خدا کو یہی منظور تھا۔ بس قصہ ختم۔ اس سے آگے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ویسے بھی بحث ایک کارِ لا حاصل ہے۔ خاص طور سے ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں ہر شخص کم و بیش دنیا کے تمام موضوعات پر اپنی ایک حتمی رائے رکھتا ہے اور اسے تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ میں پھر بھٹکنے لگا ہوں۔ طبیعت کی بیزاری کا ذکر ہو رہا تھا۔

ایسی طبیعت میں کالم لکھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی حاملہ عورت کو فٹ بال کھیلنے پر مجبور کرنا۔ اب تو ایسے فقرے لکھتے ہوئے بھی ڈر ہی لگتا ہے کہ کہیں کسی فیمینسٹ کی دل آزاری نہ ہو جائے لیکن اب تو ہو چکی، کیا ہو سکتا ہے، فقرہ واپس نیام میں تو ڈالا نہیں جا سکتا۔ لیکن ہمیں حسِ مزاح کی تھوڑی بہت رعایت تو ملنی ہی چاہئے۔ ایسی بھی کیا سختی کہ جہاں عورت کا لفظ آیا وہاں کان کھڑے ہو گئے کہ دیکھیں اب کیا جملہ آتا ہے۔ یہ بات بھی کسی اور طرف نکل رہی ہے۔ طبیعت کی طرف واپس آتے ہیں۔ بیزاری کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ بیزاری میں انسان کا کوئی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ اگر یہ تعریف مان لی جائے تو اپنی نصف آبادی کو بیزار قرار دینا پڑے گا۔ بیزاری میں غنودگی چھائی رہتی ہے، مکمل نیند بھی نہیں آتی اور بندہ چوکس بھی محسوس نہیں کرتا، درمیان میں ہی کہیں ڈولتا رہتا ہے۔ لیکن بیزاری سے زیادہ یہ سستی کا بیان ہے۔ بیزاری کا تعلق موڈ سے ہوتا ہے، بندہ چڑچڑا ہو جاتا، معمولی باتوں پر کھانے کو دوڑتا ہے، خواہ مخواہ غصہ کرتا ہے۔ بقول میرے دوستوں کے یہ تمام علامات تو مجھ میں نارمل حالت میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اب جب دوست ہی ایسے ظالم ہوں تو بندہ کیا کرے۔ حالانکہ خدا شاہد ہے کہ جس دن دوستوں سے ملاقات ہو اُس روز میرا موڈ اِس قدر ہشاش بشاش ہوتا ہے کہ دو چار گھنٹوں کی محفل میں مشکل سے دو چار مرتبہ ہی غصہ کرتا ہوں اور ظاہر ہے کہ غصہ قطعی طور پرایک نارمل انسانی جذبہ ہے مگر میرے دوست یہ بات سمجھتے ہی نہیں۔ اِس پر مجھے مزید غصہ آ جاتاہے اور یوں میں بیزار ہو جاتا ہوں۔

کالم چاہے بیزاری کے عالم میں لکھا جائے یا سرشاری کے عالم میں، قارئین کو اِس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اور ہونی بھی نہیں چاہئے۔ انہیں تو ایک پھڑکتا ہوا کالم پڑھنا ہے۔ ’میں‘ نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی۔ پیر و مرشد استاذی عارف وقار نے بار ہا مشورہ دیا کہ میاں دو چار کالم برے وقت کے لئے لکھ رکھو تاکہ ایسے کسی دن کام آ جائیں جب تم پر بیزاری کا دورہ پڑتا ہے۔ ایک مفید نکتہ انہوں نے یہ بھی سمجھایا کہ یہ کالم حالاتِ حاضرہ سے متعلق نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ایسے موضوعات پر ہوں جو کبھی باسی نہیں ہوتے۔ عارف صاحب نے اِس قسم کے موضوعات کی کوئی مثال تو نہیں دی مگر میں نے خود سے اندازہ لگایا کہ ایسے ممکنہ کالموں کےسدا بہار موضوعات یہ ہو سکتے ہیں: ’وہ کاروبار جو کبھی فیل نہیں ہو سکتا‘، ’سستی کا علاج‘، ’ورزش کے فائدے‘، ’صبح کی سیر‘، ’میرا بہترین دوست‘۔۔۔ وغیرہ۔ یہاں نہ جانے کیوں یوسفی صاحب یاد آ گئے۔ اپنے مضمون ’صبغے اینڈ سنز‘ میں لکھتے ہیں ’’اِس واقعے سے انہوں نے ایسی عبرت پکڑی کہ آئندہ کوئی ایسی کتاب دکان میں نہیں رکھی جس پر کسی کے بھی دستخط ہوں بلکہ جہاں تک بن پڑتا، انہی کتابوں کو ترجیح دیتے، جن پر مصنف کا نام تک درج نہ ہوتا۔ مثلاً الف لیلیٰ، ضابطہ فوجداری، ریلوے ٹائم ٹیبل، انجیل‘‘۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کالموں کے عنوانات اور یوسفی صاحب کے جملے میں باہم کوئی ربط نہ لگے، اگر ایسا ہے تو اسے خاکسار کی بیزار طبیعت پر محمول کرکے درگزر فرما دیں۔

جس بیزاری کا آج میں ذکر کر رہا ہوں اُس میں بند ے کا بستر سے اٹھنے کو جی نہیں کرتا، دل چاہتا ہے کہ وہیں بیٹھے بیٹھے دنیا کے تمام کام نمٹا دے۔ جب ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے، اور آج کل ایسا ہفتے میں دو چار مرتبہ ہو ہی جاتا ہے، تو میں کافی دیر تک بستر میں نیم دراز رہتا ہوں اور جب ’تھک‘ جاتا ہوں تو وہاں سے اٹھ کر صوفے پر لیٹ جاتا ہوں۔ پھر یہ سوچ مجھے اٹھنے پر مجبور کرتی ہے کہ خدا نے زندگی میں اتنی آسانیاں دے رکھی ہیں، اگر مجھے بھی کسی مزدور کی طرح روزانہ یہ سوچ کر اٹھنا پڑتا کہ آج مزدوری ملے گی تو بچو ں کو روٹی کھلا پاؤں گا تو پھر کیا میں بیزاری جیسی عیاشی کا متحمل ہو سکتا تھا۔ یہ سوچ کر میں لرز اٹھتا ہوں۔ ہیر وارث شاہ میں جب رانجھا اپنی بھابیوں سے ظلم و ستم کا شکوہ کرتا ہے تو بھابیاں جواب میں کہتی ہیں: ’’گھروں نِکلسَیں تے پیا مریں بھُکھا وارث، بھُل جاون خر مستیاں نیں‘‘۔ (اگر تمہیں گھر سے نکل کر کام کرنا پڑجائے تو اپنی ساری مستی بھول کر بھوکے مرجاؤ گے)۔ یہ خلاصہ ہے ہماری طبیعت کا۔ ہم کسی ناکام شخص کو موڈ، بیزاری، سستی، ڈپریشن، ذہنی تناؤ یا بیماری کی رعایت نہیں دیتے اور اگر نادانستگی میں ایسا کوئی ’گناہ‘ اُس غریب سے سرزرد ہو جائے تو پھر ہم اطمینان سے ناکامی کی پوری ذمہ داری اُس پر عائد کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اُس وقت ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ایسے شخص کو بیمار یا بیزار ہونے کا حق نہیں، اسے یہ کہنے کا بھی حق نہیں کہ آج اُس کا دل کام کرنے کو نہیں چاہ رہا، یہ عیاشیاں تو صرف ہمیں حاصل ہیں جو بزعم خود کامیاب ہیں۔

کسی زمانے میں میرے کالم نوائے وقت میں بھی شائع ہوتے تھے، اُس وقت میں کالج میں پڑھتا تھا۔ ایک روز گھر پر اشفاق احمد مرحوم کا فون آیا جو میں نے سنا، کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کئی روز سے تمہارا کالم نہیں آیا؟ میں نے کہا سر کچھ لکھنے کا موڈ نہیں بن رہا۔ انہوں نے ایک لمحے کو توقف کیا اور پھر جو جملہ کہا وہ آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ ’’یار، یہ بات تو ٹھیک ہے کہ کبھی لکھنے لکھانے کا موڈ نہیں ہوتا، مگر ابھی تم اِس موڈ والی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے‘‘۔ اشفاق صاحب کی یہ بات میں نے پلے سے باندھ لی اور پھر کبھی موڈ کی وجہ سے لکھنے کا ناغہ نہیں کیا۔ آج بھی نہیں کیا!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے