آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں !

انٹرویوز میں ایک تعارفی جملہ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ ’’آج کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں اور اس دعوے کے بعد ان صاحب یا صاحبہ کا لمبا چوڑا تعارف کرایا جاتا ہے اور یہ تعارف سن کر دو خیال ذہن میں آتے ہیں، ایک یہ کہ آج کی شخصیت مکمل طور پر تعارف کی محتاج تھی کیونکہ اس لمبے چوڑے تعارف میں بھی ان کا ’’تعارف ‘‘ نہیں ہوتا اور اس حوالے سے دوسرا خیال یہ ذہن میں آتا ہے کہ ان صاحب یا صاحبہ سے ملاقات کرا کے ہمارا اور ان کا ٹائم کیوں ضائع کیا گیا؟

دراصل ٹی وی چینلز کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ان چینلز کو ’’گیسٹ‘‘ ملنے میں دشواری پیش آ رہی ہے جو لوگ واقعی کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے ان کی اکثریت ان چینلز نے بھگتا دی ہے اور یوں اب کچرا آنا شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز میں نے اسلام پورہ(سابق کرشن نگر ) کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کا انٹریو ایک چینل پر دیکھا، موصوف اس عزم کا ارادہ کر رہے تھے کہ وہ اس کھیل کے فروغ کے لیے پورے ملک میں مہم چلائیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ غریب عوام کی ذہنی پریشانیوں کو دور کرنے کا واحد ذریعہ کرکٹ کا فروغ ہے جس کے نتیجے میں کچھ وقت کے لیے انہیں اپنی پریشانیوں سے نجات مل سکے گی۔ مولانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ غریب عوام کو صرف کرکٹ سے نہیں بہلائیں گے بلکہ ان کے دکھوں کے علاج کے لیے ایک ہسپتال بھی بنائیں گے جہاں سے ان کا دوا دارو مفت ہو گا۔ ان سے پوچھا گیا کہ ا ٓپ کا سیاست میں حصہ لینے کا تو کوئی ارادہ نہیں۔ بولے ہرگز نہیں، ابھی تک وہ عوام کے اصرار کو نظرانداز کرتے چلے آ رہے ہیں تاہم اگر وہ باز نہ آئے تو پھر ان کی خواہش کے احترام میں مجھے سیاست میں آنا ہی پڑے گا۔

ایک انٹرویو میں نے ایک تاجر ایسوسی ایشن کی صدارت کے امیدوار کا بھی سنا وہ کہہ رہے تھے کہ اگر انہیں کامیابی ملی تو وہ ملک میں فوری طور پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے۔ فرانس کے سفارتخانے کے باہر بھرپور مظاہرہ کریں گے اور دھرنا بھی دیں گے یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت فرانسی سفیر کو ملک بدر نہیں کرتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے بازار میں ان گاہکوں کی سہولت کے لیے واش روم نہیں بنائیں گے جو خریداری کے لیے آتے ہیں اس پر وہ بولے آپ مجھے ڈی گریڈ کر رہے ہیں میں ملک میں اسلامی نظام کے نفاد کی بات کر رہا ہوں آپ درمیان میں واش روم لیکر آ گئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک لمبا چوڑالیکچر دیا اور کہا جب بھی کوئی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتا ہے تو آپ جیسے لوگ پرہجوم علاقوں میں واش رومز کی تعمیر جیسے PETTY مسائل کا ذکر لے بیٹھتے ہیں !

جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا کہ اہم شخصیات کی کمیابی کے باعث اب مجھ ایسوں کی لاٹری بھی نکل آئی ہے چنانچہ میرے تعارف میں اینکر نے ’’آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں‘‘ کے روایتی جملے کے بعد میرا جو تعارف کر ایا وہ اتنا بھونڈا تھا کہ مجھ سے رہا نہ گیا چنانچہ میں نے اس لائیو پروگرام میں بتایا کہ میں چھبیس شعری مجموعوں کا خالق ہوں جو پبلشرز کی ناقدری کی وجہ سے ابھی تک شائع نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ مجلس ادب لودھراں نے مجھے اپنے خصوصی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی میں نے ادبی سرگرمیوں کی سرپرستی کی غرص سے ان سے آمدورفت کے اخراجات اور اعزازیہ کی بات بھی نہیں کی۔ نہ انہوں نے یہ پیشکش کی تھی اور یوں میں مارو مار لودھراں پہنچ گیا جہاں میری بہت آئو بھگت ہوئی مجھے ایک پناہ گاہ میں ٹھہرایا گیا جو اس علاقے کے ایک مخیر صاحب نے ثواب کی نیت سے تعمیر کرائی تھی۔ مجھے بتلایا گیا تھا کہ آپ کے ساتھ شام منانے کےلیے آپ کو مدعو کیا جا رہا ہے مگر وہاں تو صرف مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔

تاہم یہاں میری عزت افزائی کے لیے سب سے پہلے پڑھایا گیا منتظمین کا کہنا تھا اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ باقی شعراء جو اپنا کلام سنا کر رفو چکر ہو جاتے ہیں وہ آپ کے کلام سے محروم نہ رہ جائیں الحمدللہ بہت داد ملی مجلس کے منتظمین نے مجھے 2021ء کے بہترین شاعر کا ایوارڈ بھی دیا، ممکن ہے باقی سب شرکاء کو بھی دیا ہو، تاہم میں یہ پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ میرے اس فی البدیہہ تعارف پر اینکر بہت شرمندہ ہوا، انٹرویو کے اختتام پر اس نے اپنی اس بے خبری کی معافی بھی مجھ سے مانگی، اس حوالے سے مجھے مجاہد ِ اردو ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری یاد آ گئے کاش وہ آج ہمارے درمیان ہوتے اور مجھے یقین ہے کہ وہ چینل پر چھائے ہوئے دکھائی دیتے۔وہ تمام انتخابی معرکوں میں صدر پاکستان کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوتے، تاہم اس کے لیے الیکشن کمیشن کے روبرو کبھی پیش نہیں ہوتے کہ مستقبل کے صدر پاکستان کے پروٹوکول کے مطابق ایسا کرنا وہ اس عہدے کی توہین سمجھتے تھے، وہ الیکشن سے پہلے اپنی کابینہ کا اعلان کر دیتے جس میں مجھے بطور وزیر اطلاعات اور منوبھائی کو وزیر داخلہ نامزد کرتے تھے۔افسوس ان کی اور میری یہ خواہش پوری ہونے کا کبھی موقع ہی نہیں آیا۔

اور آخر میں حیدرآباد دکن کی انٹرنیشنل ہیومر کانفرنس اور ’’آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ‘‘ کے حوالے سے ایک ’’دلخراش ‘‘واقعہ ! اس کانفرنس میں پاکستان سے سید ضمیر جعفری اور مجھے بطور مندوب مدعو کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں ایک ہی وقت میں بہت سی زبانوں کے الگ الگ اجلاس جاری تھے۔ منتظمین ضمیر جعفری اور مجھے پنجابی زبان کے سیشن میں لے گئے جس کی خطابت ایک سردار جی کر رہے تھے یہ سردار جی دنیا بھر کے نظامت کاروں سے زیادہ ذہین ثابت ہوئے۔ انہوں نے ہمارا تعارف ان لفظوں میں کرایا ’’سجنو تے مترو اب میں آپ کو پاکستان سے آئے ان ادیبوں سے ملاتا ہوں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں اور چونکہ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لیے ان کے تعارف کی بھی کوئی ضرورت نہیں، وہ جب اپنا کلام سنائیں گے تو آپ کو خود ہی لگ پتہ جائے گا !‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے