میلاد مصطفیٰ ﷺ کا تقاضہ

بیشک یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے ذوق و شوق اور مکمل اہتمام سے منایا جائے لیکن رسول علیہ السلام سے ہماری محبت صرف میلاد رسول منانے تک نہ ہو بلکہ ہمارا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی تمام زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنی زندگی گزاریں ۔

حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :

’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں ، تاکہ دنیا میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘ (مشکوۃ المصابیح)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حمیدہ میں ظاہری اور معنوی محاسن پوشیدہ ہیں ، اسی بناء پر ساری انسانیت کو بلاامتیاز رنگ و نسل آپﷺ کی اتباع اور پیروی کی تلقین کی گئی ۔

’’یقینا! تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمدہ نمونہ عمل موجود ہے‘‘۔

بلکہ آپﷺ کی فرماں برداری عین اطاعت الہی قرار دی گئی اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے اور اتباع و پیروی کرنے والوں کو محبت اور بخشش کی نوید سنائی گئی ۔

’’اے نبی! آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا‘‘(آل عمران۔۲۱)۔

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے آپﷺ کی آغوش رحمت میں تربیت پائی اور نبوت کے ۲۳ برس اور اس سے پہلے کا زمانہ بھی دیکھا تھا ، آپﷺ کے خلق عظیم کی بابت فرمایا کرتے تھے کہ ’’ آپ خندہ جبین ، نرم خو اور طبعاً مہربان تھے ۔ آپﷺ سخت مزاج اور تنگ دل قطعاً نہ تھے ۔ کوئی برا اور فحش لفظ زبان سے نہ نکالتے ، کسی کی عیب جوئی اور بدگوئی نہ کرتے ، جو آپ کو پسند نہ ہوتا اس سے منہ پھیر لیتے ۔ آپﷺ نے اپنے نفس کو تین باتوں یعنی فضول جھگڑے ، تکبر اور بے معنی گفتگو سے الگ رکھا تھا ۔ دوسروں کی بابت آپ تین باتوں یعنی کسی کی مذمت کرنے ، عیب گیری اور تجسس سے اجتناب فرماتے اور وہی بات کہتے جو انجام کے اعتبار سے فائدہ مند ہوتی ۔ لوگوں کے ساتھ ہنسنے اور تعجب کرنے میں شریک رہتے ۔ مسافر اور اجنبی کی گفتگو اور سائل کے سوال کی درشتی کو نظرانداز کردیتے ۔ آپ کو صرف سچی تعریف پسند تھی ، کسی بات کو درمیان میں کاٹنے سے گریز فرماتے‘‘ (الترمذی: شمائل۔ صفحہ۳۹۳،۳۹۴)

مزید فرمایا: ’’ نہایت سخی ، راست گو ، نرم طبیعت اور خوش مزاج تھے ۔ کوئی اگر اچانک دیکھتا تو مرعوب ہو جاتا ، مگر جب وہ آپﷺ سے معاملہ کرتا تو محبت کرنے لگ جاتا ‘‘۔ (حوالہ مذکورہ)

ایک اور صحابی حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں کہ:

’’آپﷺ نرم طبیعت تھے ، سخت گیر نہ تھے ، کسی کی اہانت آپﷺ کو کبھی منظور نہ ہوتی ۔ معمولی معمولی باتوں میں لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ، کسی چیز کو برا نہ کہتے ۔ کھانا جیسا ہوتا کھا لیتے ، کبھی اسے برا نہ کہتے ۔ کبھی ذاتی معاملے میں غصہ نہ کرتے ، البتہ اگر کوئی امر حق میں مخالفت کرتا تو غضبناک ہو جاتے‘‘۔ (ابن سعد۱:۴۲۲،۴۲۳)

قرآن مجید میں آپﷺ کی نرمی ، شفقت اور طرز معاشرت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا گیا:

’’پس اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ ان لوگوں کے لئے نرم ہو گئے اور اگر آپ ترش رو، سخت دل ہوتے تو سب لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے‘‘۔

حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کی شہادت کے مطابق آپﷺ ہمیشہ غریبوں ، محتاجوں اور بیکسوں کے ہمدرد ، مسافروں کے بہی خواہ ، بیواؤں اور ضعیفوں کے حامی و ناصر ، بلکہ ان کو کماکر دینے والے رہے ۔

حیات مبارکہ کے مکی اور مدنی دونوں ادوار میں وسائل و اسباب کی آپﷺ کے پاس کوئی کمی نہ تھی ، مگر آپ کو فطری طورپر سادگی اور عوامیت پسند تھی ۔ چنانچہ آپ کی زہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپﷺ ایک کھجور کی چٹائی (حصیر) پر آرام فرما رہے تھے اور جسم مبارک پر اس چٹائی کے نشانات بہت واضح دکھائی دے رہے تھے ۔

میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس سے زیادہ نرم چیز آپ کے لئے بچھا دیا کریں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میری مثال تو اس مسافر جیسی ہے ، جو کسی تپتی ہوئی دوپہر میں ذرا سی دیر سستانے کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جائے اور پھر آرام کرکے چل دے‘‘۔ (ابن الجوزی: الوفاء۲۔۲۷۵)

آپﷺ کے اخلاق حمیدہ کا ایک عظیم پہلو یہ ہے کہ آپ اپنی حیات طیبہ میں کسی بھی ذاتی دشمنی سے انتقام نہیں لیا (الترمذی، شمائل) ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادہ (رئیس قبیلہ خزرج) سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور اپنے معمول کے مطابق تین مرتبہ جاکر بلند آواز سے سلام کیا اور واپس پلٹنے لگے ۔ حضرت سعد جو دانسہ پست آواز میں جواب دے رہے تھے ، تاکہ آپﷺ کی ان کے حق میں یہ دعا اور زیادہ ہو ، پیچھے گئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ ! آپ کیوں لوٹ رہے ہیں ؟‘‘۔
فرمایا: ’’تم نے تینوں مرتبہ سلام کا جواب نہیں دیا ، اس لئے واپس جا رہا ہوں ‘‘۔ حضرت سعد نے کہا: ’’یارسول اللہ! میں اس لئے آہستہ جواب دے رہا تھا ، تاکہ آپﷺ ہمارے حق میں اور دعا مانگیں‘‘۔ یہ سنتے ہی آپﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! سعد بن عبادہ کے اہل و عیال پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما‘‘۔ واپسی پر انھوں نے سواری کے لئے آپﷺ کو گھوڑا پیش کیا اور خود پیدل چلنے لگے آپﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی سوار ہو جاؤ ، ورنہ پھر پلٹ جاؤ‘‘۔ حضرت سعد نے آپﷺ کے برابر بیٹھنا ادب کے خلاف سمجھا اور واپس لوٹ گئے ۔ (ابوداؤد۵: ۳۷۳،۳۷۴)

آپﷺ کی حیات طیبہ میں مثال دینے کے لئے بھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ آپ نے کسی موقع پر اپنے قول کی پاسداری نہیں فرمائی ، جہاں میں آپﷺ دوسروں سے پیش پیش ہوتے ، غزوہ خندق میں آپﷺ نے سب کے ساتھ مل کر خندق کھودی ، مسجد نبوی کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر عملی طورپر حصہ لیا اس کے علاوہ بھی ہر کام میں دوسروں سے سبقت دکھائی ۔

وصال مبارک سے چند روز قبل آپﷺ نے مجمع عام میں اعلان کیا کہ ’’جس کسی کا مجھ پر کوئی حق ہو:، وہ وصول کرے یا پھر معاف کردے‘‘۔ ایک شخص نے چند درہموں کا مطالبہ کیا جو فوراً ادا کردیئے گئے ۔ یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور پیغمربانہ کردار کے چند روشن پہلو تھے ۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ کا ہر گوشہ اخلاق و کردار کا اعلی نمونہ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے