خالص زبان میں لکھا گیا ایک کالم

اس فقیر پْرتقصیر کے پڑھنے والے بھلے (ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے) تسلیم کرنے سے انکاری ہوں، خلوص اور موانست کا رشتہ تو ان سے طے پا چکا۔ کچھ مہینے ہوئے، غالباً گزشتہ اکتوبر کا پہلا ہفتہ تھا، ایک کالم لکھا تھا، ’درویش کے دانت سویلین ہو گئے‘۔ سیدھے سیدھے بتا دیا تھا کہ درویش کے دانت غیر مستحکم ہو گئے ہیں۔ اصول پسندی کی تاب نہیں لا پا رہے۔ بڑھتی ہوئی عمر کا دبائو ناقابل برداشت ہو رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دندان آز کی قسم نہیں، ورنہ درویش کے دانت آغاز ہی سے اوبڑ کھابڑ تھے۔ جوانی کے دن بھی خوبان جہاں کے دہن ہائے خوش رنگ میں ٹکی موتی کی لڑیوں پر رشک کرتے گزر گئے۔ ایک بدخصال انگریز شاعر کے مصرع میںتصرف کرکے کہہ سکتا ہوں کہ دانتوں سے متعلقہ جرائم فنگر پرنٹ نہیں چھوڑتے۔ یہ بھی اچھا ہوا، برا نہ ہوا۔ صحافت اور صحافیوں کے لئے یہ اچھے دن نہیں ہیں۔ صحافی دانتوں کا کرے گا کیا جبکہ سینکڑوں صحافیوں کو تنخواہ کے چنے ہی میسر نہیں ہیں۔ ادھر اہل کلام صحافیوں کی زبان بتیس دانتوں میں بند ہے۔ طاقت گفتار تو ہے، اذن اظہار نہیں۔ کچھ ایسا منظر ہے کہ جملہ زعمائے حکومت نے کسی ہزاروں برس قدیم افریقی جنگل میں گھاس پھوس سے ستر پوشی کرنے والے شکاری قبیلے کی طرح ایک ایک لٹھ اٹھا رکھا ہے جسے پیکا ایکٹ 2016 کہتے ہیں۔ حال ہی میں اس کند آلہ ضرب میں کچھ خار دار ترامیم کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ پس منظر میں نقارے پر بے درنگ چوٹ پڑ رہی ہے، پیکا پیکا پکاروں میں بن میں / موری پیکا بسے مورے من میں۔ مطلب یہ کہ پیکا کی تشریح ابروئے خسرواں کے اشارے سے متعین ہو گی۔

از رہ عنایت بتایا گیا ہے کہ مثبت تنقید پر کوئی پابندی نہیں۔ صاحب، مثبت تنقید کی جڑائو ساچق سے متصف طائفہ تو کب سے حضور کی دہلیز پر کشکول نظر کھولے بیٹھا ہے۔ حقیقی صحافی کی ذمہ داری تو خبر دینا ہے۔ اگر خبر درست نہیں یا اس میں کسی شہری کی توہین یا اشتعال انگیزی کا پہلو نکلتا ہے تو اس کے لئے درجنوں قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں تو خبر اور رائے کا فرق مٹایا جا رہا ہے۔ خبر کے درست یا غلط ہونے کا تعین تو ممکن ہے، دستور کی شق 19 کے دائرے میں رہتے ہوئے دی گئی رائے کو فوجداری قوانین کے معیار پر کیسے پرکھا جائے گا۔ جمہوریت تو نام ہی اختلاف رائے کی آزادی کا ہے۔ گویا مسئلہ ’فیک نیوز‘ کا نہیں، ہانس اینڈرسن کی شہرہ آفاق حکایت کے شہنشاہ کو لباس مجاز کی اوٹ دینا مقصود ہے۔ بغیر ضمانت کے چھ ماہ قید کاٹنے والا ملزم صحافی عدالت سے بری ہونے کی ممکنہ صورت میں پانچ برس کی قید سے تو بچ نکلے گا لیکن اسے شکنجہ عقوبت میں کسنے کا حکومتی منشا تو پورا ہو گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فی الوقت پیکا کا سیکشن 20 معطل کر دیا ہے، اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بے دانت صحافت اور خالص زبان کا کچھ ذکر رہے۔ مختار مسعود نے لکھا تھا کہ جس روز بچے سچ بولنا چھوڑ دیں گے، قیامت آ جائے گی۔ دیانتدار صحافی مفادات کا سوداگر نہیں، سچ کی سرگم گنگناتا بچہ ہی ہوتا ہے۔

بہت برس گزرے، اترپردیش کے کسی قصبے میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ایک بوڑھے پھونس شاعر نے اپنے جواں فکر کلام سے سماں باندھ رکھا تھا۔ بے پناہ داد کی سرخوشی میں محترم شاعر نے ایک تان ایسی اڑائی کہ مصنوعی دانتوں کی بتیسی کھٹاک سے دہان مبارک سے برآمد ہوئی اور سامعین کے عین سامنے بچھی جازم پر آن گری۔ شعرائے کرام کی صف اول میں نشستہ اسرار الحق مجازؔ نے فوراً مائیک سنبھالا اور فرمایا، ’حاضرین، اب آپ خالص زبان کے اشعار ملاحظہ فرمائیے‘۔ مئی 1949 میں سول اینڈ ملٹری گزٹ پر پابندی کے بعد سے ہماری صحافت زیادہ تر خالص زبان ہی میں معاملہ بندی کرتی رہی ہے۔ نثار عثمانی اور ضمیر نیازی جیسی درجنوں استثنائی مثالوں کو بھی وسیع تر تناظر میں الشاذ کالم عدوم کے زمرے ہی میں شمار کرنا چاہئے۔

درویش ایک بزدل صحافی ہے، دانتوں سے تو اب محروم ہوا، اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا۔ دوسروں پر انگشت نمائی سے بہتر ہے کہ اپنا کچا چٹھا بیان کیا جائے۔ شاید آئندگاں کے لئے ’من نہ کردم شما حذر بکنید‘ (ہم برائی سے بچ نہیں سکے۔ آپ اجتناب کی کوشش کیجئے گا۔ ) کا کوئی اشارہ نکل سکے۔ 20 جولائی 2007 ء کو ایک عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فیض صاحب کے ’نغمہ بہ لب، ساغر بکف‘ سے مہمیز ہو کر ’ترتیب مقام و منصب و جاہ و شرف‘ کا عنوان باندھا تھا۔ افسوس کہ ایسی مدہم دعا بھی مستجاب نہ ہو سکی۔ 2016 کے موسم گرما میں اچانک قوم میں جذبہ تشکر پھیل گیا حتیٰ کہ بجلی کے کھمبوں پر بھی شکریہ آویزاں ہو گیا۔ اس پر اقبال سے مدد لی گئی، ’تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک / جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں‘۔ کچھ وقت گزرا تو سب نے جان لیا کہ اصل بات تو سیماب اکبر آبادی نے کہہ رکھی تھی، ’کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی / کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے‘۔ سارا جھگڑا ’خواب ہستی‘ کی میعاد اور توسیع کا تھا۔ شکریہ مہم کے مہتمم کی شکرگزاری کے اسباب کسی اور گھاٹ پر بندھے تھے۔ توجہ فرمائیے کہ درویش نے آج بھی تحریک عدم اعتماد کا ذکر نہیں کیا۔ اقبالؔ اور فیضؔ سے البتہ لطف کشید کرتا رہا۔ حضرت اقبال فرماتے ہیں، ’اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا‘۔ بات یہ ہے کہ کچھ لوگ نسخہ ہائے وفا کی تالیف کو بچوں کا کھیل سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ’ایک صفحے‘ کی گردان ناگزیر طور پر مجموعہ خیال کے فرد فرد ہونے کے انجام سے دوچار ہوتی ہے۔ پھر فراغت کے کسی لمحے میں فیض صاحب کا کلام کھولتے ہیں تو مقطع پر نظر پڑتی ہے۔

عمر جاوید کی دعا کرتے

فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے