بھائی عبدالودود دھوتی والے

بھائی عبدالودود دھوتی والے کا آبائی شہر سہارنپور ہے۔ 1947ء میں ہجرت کر کے لاہور آئے تو انہیں یہاں کی عوامی دھوتی بہت پسند آئی جو ہوا دار ہوتی ہے بلکہ گرمیوں میں تو یہ بالکل ایئر کنڈیشنڈ بن جاتی ہے بس اتنا ہے کہ اس لباس میں ہر لمحہ چوکس رہنا پڑتا ہے۔ بھائی عبدالودود اس لباس پر عاشق ہو گئے اور انہوں نے اسے چوبیس گھنٹوں کے لئے اپنا پہناوا بنا لیا، ان کے پاس بیسیوں رنگ برنگی دھوتیاں ہیں جو وہ مختلف مواقع پر پہنتے ہیں۔

مثلاً جب سرسوں پھولنے کا موسم آتا ہے تو وہ سرسوں کے رنگ کی پیلی دھوتی پہنتے ہیں۔ کسی شادی میں جانا ہو تو کلر فل دھوتی کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی مرگ میں شرکت کرنا ہو تو اپنی ”وارڈ روب“ میں سے جو لوہے کے ایک صندوق پر مشتمل ہے، کالے رنگ کی دھوتی نکال لیتے ہیں، سرکار دربار میں جانا ہو تو ٹرانسپیرنٹ دھوتی پہنتے ہیں۔ ان کی اس ”دھوتی پسندی“ کی وجہ سے لوگوں نے ان کے نام عبدالودود کے ساتھ دھوتی والے کا لاحقہ بھی لگا دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے محلے میں عبدالودود نام کے چار پانچ لوگ اور بھی ہیں اور یوں اشتباہ سے بچنے کے لئے ان سب کے نام کے ساتھ ان کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ٹانک دی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح امریکہ میں قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ نینی نام کی تین چار لڑکیوں کی وجہ سے میرے دوستوں نے ان سب کے ناموں کے ساتھ کچھ نہ کچھ لگا دیا تھا، جن میں سے نینی نام کی ایک حسینہ کی فراخ دلی کو خراج تحسین ادا کرنے کے لئے انہوں نے اسے ”نینی کامن ویلتھ“ کا نام دے رکھا تھا۔

بھائی عبدالودود ھوتی والے ان دنوں سیاسی کھینچا تانی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، ہر کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کس جماعت کے ساتھ ہیں،پہلے انہوں نے اس مسئلے کا حل یہ سوچا کہ مختلف پارٹیوں کےجھنڈوں کے رنگ والی دھوتیاںخریدلیں تاکہ جس دوست کی طرف جانا ہو اس کی پارٹی کے جھنڈے والے رنگ کی دھوتی باندھ لیں، مگر عبدالودود سفید پوش انسان ہیں۔ ان میں اتنی دھوتیاں خریدنے کی استطاعت نہیں۔ انہوں نے ہم دونوں کے مشترکہ دوست بھولے ڈنگر سے اپنا مسئلہ بیان کیا تو اس نے چٹکی بجا کر کہا یہ کون سا مسئلہ ہے اور اس نے یہ مسئلہ ایسے حل کیا کہ شام تک شہر میں لگے مختلف سیاسی جماعتوں کے بینر اتار لایا اور بھائی عبدالودود کو پیش کردیئے۔ یہ دیکھ کر بھائی عبدالودود کے دل کی کلی کھل اٹھی اور برا سا منہ بنا کر بھولے ڈنگر کے مہینوں سے شیو ہوئے بغیر گالوں کا بوسہ لے لیا اور اس کی اس حکمت عملی کی داددیتے ہوئے کہا ’’بھولے ، میں آج سے تمہیں ڈنگر نہیں کہوں گا‘‘ بھائی عبدالودود کا ایک بہت قریبی دوست پی ٹی آئی کا جیالاہے، وہ اکثر بھائی سے پوچھتا ہے کہ الیکشن میں تم کس کو ووٹ دو گےاور بھائی ہر دفعہ ہر سیاسی منافق کی طرح جواب میں کہتا ہے کہ اس کا صرف اس جماعت سے تعلق ہے جو پاکستان کو آگے لے جانا چاہتی ہے، مگر پی ٹی آئی والے دوست کی طرح دوسری جماعتوں سے وابستہ دوست بھی اس کے اس جواب سے کبھی مطمئن نہیں ہوئے۔

مگر اب بھولے ڈنگر کے سڑکوں پر سے پارٹیوں کے اتارے ہوئے بینراس کے کام آتے ہیں۔ چنانچہ چند روز پیشتر وہ پی ٹی آئی کے جیالے کی طرف گیا تو اس نے اپنی ’’وارڈ روب‘‘ میں سے پی ٹی آئی کا جھنڈا اتارا اور اسے دھوتی کے طور پر کمر کے گرد لپیٹ لیا۔ پی ٹی آئی کے جیالے نےیہ دیکھا تو آگے بڑھ کر بھائی عبدالودود کو گلے سے لگا لیا اور عمران خان کی شان میں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا گایا ہوا ترانہ بے سرے انداز میں گانا شروع کردیا۔ اس روز بھائی عبدالودود کے لئے اس نے لکشمی چوک سے چکن چنے منگوائے اور کہا ’’لو بسم اللہ کرو، چنوں کے ساتھ جو میں نے محض تمہارے پروٹوکول کے لئے منگوائے ہیں ورنہ مشہور ہے کہ یہ چنوں میں مردہ مرغیوں کا گوشت ڈالتا ہے، تم یہ نہ کھانا، یہ میں کھا لوں گا تاکہ پیسے ضائع نہ ہوں‘‘، مگر اس سادہ لوح نے یہ نہیں دیکھا کہ دھوتی میں عمران خان کی تصویر بہت سے مقامات پر آہ و بکا کرتی نظر آئی۔

آج صبح بھائی عبدالودود دھوتی والے میری طرف تشریف لائے وہ جانتے ہیں کہ میں کالم نگار ہوں اور کالم نگار ہر کھانے کی میز پر ہوتے ہیں، چنانچہ وہ میری طرف سفید رنگ کی دھوتی پہن کر آئے۔بڑے خوش تھے، بولے میں نے جب سہارنپور سے پاکستانی پنجاب کو ہجرت کی تو میں پہلی نظر میں یہاں کے عوامی پہناوے دھوتی پر عاشق ہوگیا تھا اور جوانی میں قدم رکھتے ہی میں نے یہ پہناوا مستقل اپنا لیا تھا، مگر یہ تو اللہ بھلا کرے بھولے ڈنگر کا کہ اس نے دھوتی کو دال روٹی کا وسیلہ بھی بنا دیا۔ میں نے کہا بھائی عبدالودود دال روٹی تو نہ کہو،بریانی کہو، کباب کہو، چکن روسٹ کہو۔ بھائی بولے’’میں نے دال روٹی محض محاورتاً کہا تھا، تم یہ بتائو کہ یہ دھوتی کب تک وسیلۂ رزق بنے گی؟‘‘ میں نے عرض کی ’’موجودہ سیاسی کشمکش کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کے تجزیے پڑھتے رہو، مگر میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ تماشا ختم ہونے کو ہے اور تمہیں دوبارہ ’’سیاسی دھوتیوں‘‘ کی جگہ اپنی پرانی ’’معاشرتی دھوتیوں‘‘ کی طرف آنا پڑے گا‘‘۔ میری یہ بات سن کر بھائی عبدالودود دھوتی والے سوچ میں پڑ گئے، وہ میرے جواب سے کچھ ناخوش دکھائی دیتے تھے۔ موسم بڑا خوشگوار تھا مگر انہیں شاید بہت گرمی لگ رہی تھی، انہوں نے دھوتی کا پلو کافی اوپر اٹھا کر ہوا لی اور بہت گرمی ہے، بہت گرمی ہے، کہتے ہوئے رخصت ہوگئے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے