درویش کے دانتوں کی مجلس شوریٰ

چودہویں صدی عیسوی میں دو نادرِروزگار شاعر پیدا ہوئے، حافظ شیراز اور جیفری چاسر۔ عمر خیام بارہویں صدی میں رخصت ہو چکے تھے۔ اب نہ اصفہان میں رصدگاہ کی جستجو تھی اور نہ صراحی سے چھلکتی چہار سطری رباعیات کی موج ہائے طرب آمیز کا ہنگام تھا۔حافظ شمس الدین شیرازی کو ایران پر تیموری یلغار کی تاخت و تاراج سے واسطہ رہا۔مطرب شیراز نے بیم موج کے گرداب سے سبکساران ساحل کو پیغام بھیجا کہ دریاب نقد وقت و ز چون و چرا مپرس (ایچ پیچ کی باتیں چھوڑو اور زندگی کی مہلت سے لطف اٹھائو) ۔ بہت برس بعد ایک اور رنگ میں رفیع سودا نے یہی نکتہ بیان کیا۔ اے ساکنان کنج قفس صبح کو صبا / سنتے ہی جائے گی سوئے گلزار،کچھ کہو۔ یہ وہی دن تھے جب لندن میں جیفری چاسر نام کا شاعر کلیسا کی دھوپ چھائو ں قلم بند کر رہا تھا۔ لسان الغیب حافط شیراز ملائے مکتب کی چیرہ دستی جانتے تھے تو چاسر بھی دھرم کے روزگار کی تیرہ شبی سے شناسا تھے۔ اس کا ایک اشارہ تو چاسر کی کینٹر بری ٹیلز کے کرداروں کی فہرست ہی سے مل جاتا ہے اور پھر اس قافلے میں شامل عدالتی اہلکار کا وہ معروف بیانFriars and fiends are but little different.

آپ تو جانتے ہیں کہ Friar کلیسا کا ایک ماتحت عہدیدار ہوتا تھا اور Fiend شیطان کو کہا جاتا ہے.

چار مارچ کو قصہ خوانی بازار پشاور کی امامیہ مسجد میں خود کش حملہ آور نے درجنوں عبادت گزار شہید کر دیے. اب ریاست کے ذمہ دار مناصب پر فائز افراد کی بے حسی دیکھئے۔ 12 مارچ کو ہوابازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان جلسہ عام میں اس خواہش کا اعلان فرماتے ہیں کہ وہ خود کش بمبار بن کر ’ملک اور دین کے دشمنوں‘ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔یہ اشارہ معنی خیز ہے کہ 73 برس قبل 12 مارچ ( 1949 ) ہی کے دن ریاست نے بابائے قوم کے طے کردہ نصب العین سے انحراف کرتے ہوئے قرار داد مقاصد کی صورت میں قوم کا تشخص بدل ڈالا تھا۔ قائد اعظم نے کسی مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کی برابری کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ریاست کا حقیقی فرض تمام شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا ہے۔قائد کو ادراک تھا کہ کسی خاص مذہب کو ترجیحی درجہ دینا ریاست کی تباہی کا نسخہ ہے کیونکہ عقیدہ فرد کے ضمیر کا انتخاب ہے، اسے دوسروں پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی معاشرے میں انفرادی رنگارنگی کی طرح عقیدوں کی تفہیم میں بھی بے پناہ تنوع پایا جاتا ہے۔

ریاست کا منصب عقائد کی تحکیم یعنی غلط یا صحیح کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ تمام شہریوں کے حق عقیدہ کی حفاظت ہے۔ ریاست کے خالص قانونی عمرانی معاہدے اور فرد کے داخلی حق عقیدہ کو گڈمڈ کیا جائے تو مذہب جیسا ارفع مظہر روباہ صفت دست فروشوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جنہیں ہر مخالف پر ’دین دشمنی‘ کی تہمت دھر کے اپنے مفادات کی گاڑی دھکیلنے میں عار نہیں ہوتی. دہشت گرد عناصر کا حقیقی اثاثہ یہی ہے کہ ہم نے اس ملک میں اختلاف رائے کے احترام کی بجائے ہر اختلافی آواز کو قابلِ گردن زدنی قرار دینے کی روایت قائم کر رکھی ہے۔ کسی بھی مقدس نعرے کی آڑ میں مخالفین کو طاقت کے بل پر کچل دینے کو روا قرار دے رکھا ہے۔ گزشتہ برسوں میں دین کے نام پر وحشت گری میں ہزاروں جانوں کی قربانی،ناقابل اندازہ معاشی نقصان اور ملکی وقار کی بے حرمتی کے باوجود کسی کو دہشت گردی کی بنیاد میں کارفرما خرابی کی نشاندہی کی ہمت نہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرنے والے بہت لیکن انتہا پسندی کے فلسفے کی مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔ افغانستان سے ملنے والے اشاروں سے بھی ہم گزشتہ غلطیوں کے اعتراف پر تیار نہیں ہیں۔

قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی۔ دستور کے مطابق 172 منتخب ارکان اپنے لئے قائد ایوان چننے کا حق رکھتے ہیں۔ اس خالص سیاسی معاملے پر وزیر اعظم کی گل افشانیاں ملاحظہ کیجئے۔جلسہ عام میں کھڑے ہو کر خارجہ پالیسی کی نزاکتیں بیان فرما رہے ہیں، مغرب دشمنی کا ڈھول بجایا جا رہا ہے، ادھر امریکی سینیٹ میں پاکستان مخالف قرارداد کا رنگ دیکھئے۔مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا۔ دوسری طرف حزب اختلاف بھی اسی رنگ میں کشمیر فروشی اور یہود دوستی جیسے بے سروپا الزامات اچھال رہی ہے۔ اگر جمہوری طریقے سے ظلمت میں نور کاڑھنا حقیقی مقصد ہے تو حکومتی اتحادیوں اور حکمران جماعت کے برگشتہ ارکان کی شوخ قدمی پر سر دھننے کی بجائے کچھ زیادہ اہم سوالات دیکھئے۔ کیا ہم ملکی معیشت کو درپیش مشکلات کے کسی سنجیدہ حل کا ارادہ رکھتے ہیں؟

کیا ہمیں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنے تشخص کی فکر ہے؟ کیا عشروں سے چلی آ رہی نقصان دہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی ممکن ہو پائے گی؟ پارلیمنٹ ہمارے اجتماعی امکان کی محافظ ہے یا شخصی مفادات کے حصول کا آلہ؟ کیا ہم پاکستان کی ریاست، اس کے حقیقی حکمران یعنی عوام کو لوٹانے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے توجان لیجئے کہ حکومت کی تبدیلی سے حالات نہیں بدلیں گے۔آپ کو خبر دینا تھی کہ درویش نے کسی آئندہ حکومت کے ممکنہ خد و خال کی پیش بندی کرتے ہوئے اپنے دانتوں کی مجلس شوریٰ قائم کر لی ہے۔کل ملا کے گیارہ دانت حقیقی ہیں مگر کمزور، لرزاں اور بہت سے فروختنی دانتوں کے درمیان معمولات دہن کی بجاآوری سے قاصر۔ ایک عہد عبور جیسی کیفیت ہے اور اس سے بڑھ کر یہ جاں گسل احساس کہ اب شاید اسی رنگ میں زندگی کرنا ہو گی۔ یہ میرا دامن صد چاک،یہ ردائے بہار…

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے