بلاول بھٹو شہباز شریف کے احترام میں کھڑے ہو گئے !

طویل عرصہ کے بعد عدالت عظمیٰ کا کمرہ عدالت نمبر ایک بنا، سب کی توجہ کا مرکز، نہ صرف وکلاء، صحافی اور سیاسی کارکنان بلکہ قائدین بھی ججز کے عین سامنے والی نشستوں پر براجمان نظر آئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ شہباز شریف کا آرام دہ تکیہ اُسی کرسی پر رکھا گیا جہاں تین سال قبل انکے بڑے بھائی میاں نواز شریف بیٹھے تھے ۔ انکی دائیں جانب بیٹھے اور پہلی دفعہ سپریم کورٹ آنے والے مولانا فضل الرحمان تو خاموشی سے عدالتی کاروائی دیکھتے اور بیچ بیچ میں خوابِ خرگوش کے مزے لیتے نظر آئے البتہ بائیں جانب بیٹھے بلاول بھٹو زرداری کافی متحرک اور پراعتماد انداز میں عدالتی کاروائی سننے میں مصروفِ رہے۔

گاہے بگاہے شہباز شریف کو مخاطب کرکے منٹوں تک محوِ گفتگو رہتے۔ بلاول بھٹو نے ایک موقع پر اپنے عقب میں بیٹھی شیری رحمان سے کاغذ اور پنسل بھی مانگا، جو انہیں فی الفور پیش کر دیا گیا، بلاول نے کاغذ پر انگریزی کی تین سطریں تحریر کیں اور کاغذ شیری رحمان کو تھما دیا، جسے لیکر وہ وکلاء کی نشستوں پر بیٹھے فاروق ایچ نائیک کے پاس رکھ کر چلی گئیں جو اس وقت اپنے سامنے رکھے دستاویزات کے انبار میں سے ایک فائل کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے، اس دوران کاغذ پر دھیان ہی نہیں گیا، جب کچھ دیر گزری تو بلاول بھٹو خود اٹھ کر آئے اور فاروق ایچ نائیک کو کان میں کچھ ہدایات دیں۔ چند ہی لمحوں کے بعد فاروق ایچ نائیک نے روسٹرم پر کھڑے ہو کر اسپیکر قومی اسمبلی کو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ ان کے کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔

دوران سماعت شہباز شریف ایک دفعہ اپنی جگہ سے اٹھے اور کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔لگ بھگ بیس منٹ کے بعد جیسے ہی واپس اپنی کرسی کے پاس پہنچے تو بلاول بھٹو احتراماً اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے ۔ اسی دوران مولانا فضل الرحمان نے ساتھ بیٹھے رہنماؤں سے مختصر بات کی اور کمرہ عدالت سے باہر نکل گئے۔

ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ ہماری حکومت پر ہارس ٹریڈنگ کا کوئی الزام نہیں لگ سکا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ اپوزیشن جماعتوں پر بھی ایسا کوئی الزام نہیں ہے۔ کمرہ عدالت میں بیٹھے اکثر سیاسی رہنماؤں کے لئے یہ ایک حیران کن بیان تھا۔ مگر اٹارنی جنرل نے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو شہید کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا تذکرہ بھی کر دیا،بولے بی بی شہید کی اپوزیشن نے انکے اراکین کو بدنام زمانہ چھانگا مانگا میں رکھا تھا۔ عین اس وقت نظر بلاول بھٹو پر گئی جو دبے ہونٹوں مسکرا رہے تھے مگر انکے ساتھ بیٹھے شہباز شریف کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر یوں لگا جیسے انہوں نے اٹارنی جنرل کی بات سنی ہی نہ ہو یا سُنی اَن سُنی کر دی ہو۔

سماعت جب اپنے آخری مراحل میں داخل ہوئی اور فریقین کے وکلاء روسٹرم پر اکٹھے ہو گئے تو شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے، جبکہ بلاول بھٹو روسٹرم کے پاس موجود سینیئر وکیل اور ن لیگ کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کو بازو سے پکڑ کر شہباز شریف کے پاس لے آئے، جہاں دونوں سیاسی قائدین نے اعظم نذیر تارڑ کو کچھ ہدایات دیں۔ آج کی سماعت کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سماعت کے آغاز سے لیکر اختتام سے کچھ دیر قبل تک اٹارنی جنرل کے علاوہ کوئی نامور حکومتی شخصیت کمرہ عدالت میں نظر نہیں آئی۔ عدالت برخاست ہونے سے کچھ دیر قبل وفاقی وزیر فواد چودھری، باہر اعوان اور حماد اظہر دائیں دروازے سے اندر داخل ہوئے اور وکلاء کی نشستوں کے ساتھ روسٹرم کے عقب میں آ کر کھڑے ہو گئے ۔ چند ہی لمحوں کے بعد شہباز گل بھی بائیں دروازے سے اندر داخل ہوئے اور فواد چوہدری کیساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ دیگر حکومتی شخصیات کے برعکس فواد چودھری اپوزیشن رہنماؤں اور وکلاء کیساتھ ہنسی مذاق کرتے نظر آئے ۔

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے اپنے مخصوص انداز میں سیاسی قیادت کو اخلاقیات کا درس بھی دے ڈالا۔ چیف جسٹس بولے سیاستدان کو تو شائستہ زبان بولنی چاہیے، تدبر، احترام اور لحاظ کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ جب معزز چیف جسٹس یہ سب کہہ رہے تھے اس وقت ان کے سامنے کھڑے فواد چوہدری بھی ریمارکس سن کر دبے ہونٹوں مسکرانے لگے، جیسے انہیں معلوم ہو کہ چیف جسٹس ان سے ہی ہم کلام ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے