چین میں گزرے 14 برس کا قصہ : روداد سفر (حصہ 13 )

ایڈیٹر نوٹ

شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .

سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم

چائنا کا شہر ایوو ، جہاں بہت بڑا کاروباری مرکز بنا اور مختلف ملکوں سے کاروبار کرنے والوں کو کھینچ لایا ، وہیں بہت سی قباحتیں بھی اپنے ساتھ لے آیا ۔ میرے دوست سلیمان کے ایک کسٹمر تھے حمید صاحب ، جن کا تعلق کراچی سے تھا، وہ انتہائی نفیس انسان اور باریش تھے ۔ وہ جس سڑک سے گزر کر اپنے رہائشی ہوٹل جاتے تھے وہ گلی مساج سنٹرز سے بھری ہوئی تھی اسے آپ راولپنڈی کی قصائی گلی سمجھ لیں ۔ وہاں سامنے سامنے تو باربر شاپس تھیں لیکن اندر لڑکیاں اور دروازے پر نائکہ بیٹھی ہوتی تھیں ، جو سڑک پر آنے جانے والوں کو اشاروں کنایوں میں دعوت دیتی تھی ۔

ایک دن سلیمان کے کسٹمر حمید صاحب نے سلیمان سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ ہوٹل تک چلے ۔ سلیمان تیار ہو گئے اور دونوں پیدل چل پڑے ۔ اس گلی سے گزرے تو ایک نائکہ کے پاس حمید صاحب سلیمان کو لے گئے اور سلیمان سے کہا کہ اس سے کہو کہ یہ مجھے ایسے ہی آوازیں نہ دیا کرے اور ایسے اشارے نہ کیا کرے ، مجھے بہت برا لگتا ہے ۔ سلیمان نے یہ بات چائنیز میں اس خاتون نائکہ سے کہی تو وہ بہت شرمندہ ہوئی اور معذرت کی لیکن ساتھ یہ جملہ بھی کہا کہ ہمارے پاس آنے والے اکثر اسی حلیے کے ہی ہوتے ہیں۔ میں سمجھی یہ بھی ایسے ہی ہیں ۔ یعنی اس نائکہ کے خیال میں یہ حلیہ اسے یہ باور کرواتا ہے کہ اس کا گاہگ آ گیا ہے ۔

ترک نسل کے چائینز مسلمان بھی بہت بڑی تعداد میں ایوو میں موجود ہیں جو زیادہ تر سیخ کباب یا نان بیچتے ہیں ان میں مرد وخواتین سبھی شامل ہیں ۔ لیکن ایک روز میرے لیے عجیب معاملہ ہو گیا ۔ میں پیدل مارکیٹ کی طرف جا رہا تھا کہ ترک نسل کے چائنیز دو نوجوانوں نے ایک خاتون کے پرس سے موبائل اور پیسے نکالتے دیکھا ۔ یعنی وہ جیب کترے تھے اور یہ ترک نسل کے چائینز مسلمان ایغور کہلاتے ہیں ۔ ان کی خواتین کالے رنگ کا عبایا پہنتی ہیں اور چہرہ چھپاتی ہیں ۔ لیکن جس دوکان میں یہ داخل ہو جائیں وہ چوکنے ہو جاتے کہ کچھ نہ کچھ چھپا لیں گی ۔ یعنی مشکوک اور انتہائی جھگڑالو کہلاتی ہیں ۔

یہ دو سمپل تھے اس مذہب کے ماننے والوں کے جنہیں اخلاق کا اعلی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا کہ دیکھنے والے خدا کے سچے دین کا تعارف ان سے حاصل کریں ۔

ان سب باتوں کی موجودگی میں ایک احساس تھا کہ یہ ایغور مسلمان ایک قسم کی احساس کمتری اور خوف کا شکار ہیں ۔ اس احساس کمتری کا اظہار یہ اپنے غصے سے کرتے ہیں ۔ یہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے اور اکثر اپنی بچیوں کی شادیاں جلدی کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ اکثر طلاق ہی کی صورت میں نکلتا ہے لیکن یہ اپنی طرف سے مطمئن ہیں کہ ایک فرض تھا جو ادا کر دیا ۔ اکثر اوقات تو یوں ہوتا کہ جب ایک خاتون دوسری سے ملتی تو یہ پوچھتی کی آج کل کس کے نکاح میں ہو ۔ عورتیں ان طلاقوں کے بعد بچوں کی اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست خود ہی کرتی ہیں۔ میں نے ایک دن سیخ کباب بیچنے والی ایغور سے پوچھا کہ تمہارے بچے سکول نہیں جاتے تو بڑے ہو کر کیا کریں گے ۔

اس نے جواب دیا لڑکے سیخ کباب یا نان بیچیں گے اور لڑکیاں کلبوں میں ناچیں گی ۔ واللہ عالم یہ بات اس نے طنزاً کہی یا حقیقتاً ۔ ویسے یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کہ جب ایوو شہر میں قبحہ گری پر پابندی لگی تو سب کے خلاف ایکشن ہوا جن میں چائنیز اور غیر ملکی بھی شامل تھیں لیکن ان ایغور لڑکیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا بلکہ انہیں کھلی اجازت تھی ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ یہ اس پیشے میں کیسے آئیں اور کن حالات سے دوچار ہیں ۔ بلکہ میرے خیال میں زیادہ تر وہی ہیں جن کو ان کے شوہروں نے طلاق دے دی اور وہ اپنے بچے خود ہی پال رہی ہیں اور کوئی ہنر اور تعلیم ان کے پاس ہے نہیں اس لیے یہی کام کرتی ہیں ۔ شاید یہ مغربی تعلیم سے نفرت کا ایک تصور ہے یا یہ خوف کہ گورنمنٹ کے سکولوں میں کیمونزم کی تعلیم دی جاتی ہے اس لیے والدین کو بچوں کے ایمان کا خطرہ رہتا ہے ۔

لیکن اس کے پیچھے ہماری یہ کمزوری بھی ہے کہ ہم نے اپنے عقائد کو دلائل کی بنیاد فراہم کی ہی نہیں کہ وہ اپنا بچاؤ کر سکیں بس روایتی مسلمان ہیں جو اس لیے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلمان تھے ۔ یعنی مذہب کو ایک آبائی چیز بنا لیا ۔ ریاست کی سخت پالیسی کی وجہ سے یہ لوگ انتہا کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ترکی پہنچ جائیں لیکن انہیں پاسپورٹ ایشو نہیں کیے جاتے ۔ اس کےلیے یہ لڑکیاں کوشش کرتی ہیں کہ کسی غیر ملکی سے شادی کر لیں تاکہ وہ کم ازکم اس بنیاد پر پاسپورٹ لے سکیں ۔ ان علاقوں میں جو سالوں سے غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ بھی بلاجھجک انشاء اللہ اور اللہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ کلچر کا اور اکثریت میں رہنے کے اثرات ہیں ۔

اس کے علاؤہ اور بہت سے چائینز نسل کے مسلمان بھی ہیں جنہیں hui کہا جاتا ہے ۔ ان میں کچھ وہ ہیں جو سنٹرل ایشیا سے ہجرت کرکے آئے اور یہیں رہ گئے ان کی زیادہ آبادی کانسو( gansu ) صوبے چھن ہائی( qinghai) صوبے اور ننشاہ ( ning xia) صوبے میں ہے ۔ یہ لوگ کسی حد تک ابھی تک اپنی شناخت، چاہے علامتی ہی ہو بچائے ہوئے ہیں ۔ شناخت سے میری مراد اسکارف اور ٹوپی ہے اس کے علاؤہ بھی یہ مذہب کے معاملے میں حساس ہیں ۔

اور دوسری طرف وہ ہیں جو کسی دور میں سمندر کے راستے عرب چائنا تجارت کے سلسلے میں آئے اور یہیں رہ گئے ۔ ان میں گوانزو (Guangzhou) شہر اور فوجیان ( Fijian ) صوبے میں رہتے ہیں ۔ یہ بہت حد تک گم ہو چکے ہیں ۔ آپ کو کئی ایسے نوجوان مل جائیں گے جو کہیں گے کہ ان کے دادا مسلمان تھے وہ نہیں ۔ یہ کافی تعداد میں نان مسلم سے شادیاں بھی کر چکے ہیں ۔ مسلمانوں کی کافی تعداد کی چائنا میں دوبارہ آمد و رفت نے مسلمانوں کے اندر اپنی شناخت کے احساس کو اجاگر کیا ہے ۔ لیکن جو امیج یہ غیر ملکی مسلمان دے رہے ہیں وہ بھی منفی اثرات ہی چھوڑتا ہے ۔ فیوجان ( Fijian ) صوبے میں ایک میوزیم بنایا گیا جس میں عربوں کی چائنا آمد اور تجارت کو تصویری زبان میں دیکھایا گیا ۔

اور گوانزو ( Guangzhou ) شہر میں مسلمانوں کا ایک قبرستان اور ایک مسجد ہے جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کے نام سے مشہور ہے ۔ وہاں بھی پاکستانی سبز اور سفید پگڑی کا جھگڑا نظر آئے گا ۔ ایک محترم کراچی کے اور دوسرے لاہور کے ہیں ۔ یعنی یہاں بھی یہ قبضہ لڑائی لے کر آ گئے ۔ ایک اور بھی بہت پرانی مسجد ہے جو گودام کی شکل اختیار کر گئی تھی ، صدر پاکستان ضیاء الحق نے اپنے دورہ چائنا میں فرمائش پر اسے دوبارہ مسجد کی شکل دلوائی ۔

اس کے علاؤہ قرآن مجید کا صحیح زبان و بیان کے حوالے سے ترجمہ و تعلیم کی شدید ضرورت ہے اور مذہب اور کلچر اور فقہ و شریعت کو الگ کرکے سمجھنے کی شدید ضرورت ہے ۔ میں نے ایک دن مارکیٹ میں ایک چائنیز کے پاس چائنیز زبان میں تفسیر ابن کثیر دیکھی اور میری خواہش ہوئی کہ یہ اسے نہ پڑھے کیونکہ اس میں سب جھوٹی سچی روایات اکٹھی کی گئی ہیں اس نے ایک غیر مسلم پر کیا اثرات چھوڑنے ہیں ۔ وہ ذہن میں یہی سوچتا گا کہ ایسی کہانیاں تو ہمارے ہاں بدھ ازم ، تاؤ ازم ، کنفیوشس ازم میں بےشمار موجود ہیں تو پھر ان نئی کہانیوں کو یاد کرنے کی بجائے وہی ٹھیک ہے جو بچپن سے میں پڑھتا رہا ہوں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے