خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے!

وہ رات بڑی اعصاب شکن تھی جب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی۔ میرے خیال میں اس رات سارا پاکستان جاگتا رہا، میں اس تاخیر کی تفصیل میں نہیں جائوں گا کہ سب جانتے ہیں کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ بہرحال عوام رات کے بارہ بجے سے کچھ پہلے ووٹنگ کا عمل شروع ہونے اور تحریکِ انصاف کے بائیکاٹ اور اپوزیشن کی ووٹنگ تک ٹی وی کے سامنے بیٹھے یہ عمل دیکھتے رہے اور پھر سحری کے وقت کوئی آرام سے اور کوئی بے آرامی سے کچھ دیر کیلئے اپنے بستر پر دراز ہو گیا!

میں بھی ان جاگنے والوں میں سے ایک تھا اور اس کے دو دن بعد میں ایک بار پھر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھا پاکستان کے نئے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی تقریر سن رہا تھا ان کی تقریر اور ان کا بیان کردہ لائحہ عمل میرے لیے بالکل نہیں تھا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ جیل میں ہوں یا جلاوطن انہیں احساسِ زیاں رہتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور وہ اپنے عوام کیلئے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ چنانچہ تقریبِ حلف برداری کے بعد تقریر کرتے ہوئے ان کے بس میں ہوتا تو الہ دین کے چراغ کی کہانی دہرا دیتے۔ بہرحال فوری طور پر وہ جو کر سکتے تھے وہ انہوں نے کر دیا یعنی پنشنرز کی پنشن اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ جو اسی ماہ سے شروع ہو جائے گا اسی طرح کم سے کم تنخواہ بھی 25000ہزار مقرر کر دی گئی۔

ظاہر ہے یہ مہنگائی کے مارے ہوئے عوام کے منہ میں ایک چھوٹا سا پہلا نوالہ ہے تاہم بات ایک نوالے تک نہیں رہے گی بلکہ پاکستان کی تباہ شدہ معیشت کی بحالی کا کام بھی زور، شور سے شروع ہونے والا ہے۔ ماہرینِ معیشت سے صلاح مشورے شروع ہو گئے ہیں۔ نئی حکومت کی کریڈیبلٹی کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ چشم زدن میں ڈالر آٹھ روپے نیچے آ گیا ہے اور اسٹاک مارکیٹ اوپر جانا شروع ہو گئی ہے جوں جوں معیشت مضبوط ہو گی، مہنگائی، بے روزگاری اور دوسرے مسائل بھی حل ہوتے جائیں گے۔ شہباز شریف کے ماضی کو سامنے رکھیں تو یہ واضح ہوتاہے کہ وہ نہ خود آرام کرتے ہیں اور نہ سرکاری ملازموں کو ویلیاں کھانے دیتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنی پہلی تقریر ہی میں اعلان کر دیا ہے کہ دفاتر آٹھ بجے صبح کھلا کریں گے اور ہفتے میں دو چھٹیوں کی بجائے صرف ایک چھٹی ہو گی بقول ایک ستم غربت ’’آتے ہی کھانا شروع کر دیا، ایک چھٹی کھا گئے‘‘ ۔

گزشتہ ساڑھے تین برس میں جس طرح سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا گیا اور چین جیسے دوست کو بھی ناراض کیا گیا، خارجہ پالیسی پر نظرثانی بھی ضروری خیال کی جا رہی ہے۔ چنانچہ وزیر اعظم عنقریب دوست ممالک کے دورے کریں گے، دوست ملکوں کے خیر سگالی کے پیغام آنا شروع ہو گئے ہیں اور ایک دشمن ملک نے بھی روایتی سفارتی انداز میں تعلقات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جواب میں وزیر اعظم نے بھی اس خواہش کی تائید کی ہے تاہم کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے حل کا مطالبہ بھی کیا ہے جو گزشتہ حکومت میں صرف پس پشت نہیں ڈالا گیا بلکہ بھارت نے اسے اپنی حدود میں بھی شامل کر لیا! میں اس کالم میں نئی حکومت کے حوالے سے جن توقعات کا اظہار کر رہا ہوں آپ اسے میری خوش فہمی بھی قرار دے سکتے ہیں۔ مگر میں شہباز شریف کو جانتا ہوں اس حوالے سے بس ایک دعا ہے کہ متحدہ اپوزیشن متحدہ ہی رہے، اس میں اگر دراڑ پڑی تو اس سے قوم کی توقعات خاک میں مل جائیں گی تاہم مجھے یقین کی حد تک امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اپوزیشن کے اتحاد سے قبل ہوم ورک پورا کیا گیا تھا اور سب کچھ پہلے سے طے کر لیا گیا تھا، اس اتحاد کی تشکیل و تکمیل میں آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی کاوش اور میاں نواز شریف کے مشورے اور منظوری شامل حال رہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کب وطن واپس آتے ہیں؟ ان کی واپسی کے اشارے تو دیے جا رہے ہیں مگر میری رائے میں انہیں ابھی واپس نہیں آنا چاہئے ان کے ہارٹ کے دوبائی پاس ہو چکے ہیں اس کے علاوہ صحت کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں انہیں اپنے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے ان کی مقبولیت بھی قائم و دائم ہے اور ان کی پارٹی بھی پوری طرح ان ٹیکٹ ہے چنانچہ انہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ شہباز شریف انہیں مایوس نہیں کریں گے تاہم اللہ کرے وہ جلد سے جلد اپنے وطن واپس آئیں!

آخر میں یہ کہ میاں شہباز شریف نے حلف وفاداری کی تقریب میں ایک بار پھر میری غزل

خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے

اس نظامِ زر کو اب برباد ہونا چاہئے

پورے جوش و خروش سے پڑھی، در اصل یہی ان کا منشور بھی ہے، اللہ کرے وہ پاکستان کو خوشبوئوں کا نگر بنانے میں کامیاب رہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے