حیراں سر ِبازار

رات کے گیارہ بج رہے ہیں، نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے، دماغ میں مختلف قسم کے خیالات جمع ہیں، سوچ رہا ہوں کہ آج سارا دن میں نے کیا تیر مارا، کون سے ایسا کام کیا جس کے بارے میں کہہ سکوں کہ یہ کسی حد تک تعمیری یا تخلیقی تھا، کوئی کام ذہن میں نہیں آرہا، لیکن یہ ضروری بھی تو نہیں کہ بندہ روزانہ کوئی کارنامہ سرانجام دے کر ہی سوئے، اب ہر شخص شاعر یا ادیب ہونے سے تو رہا، اور بالفرض محال اگر کوئی شریف آدمی کوشش بھی کرے تو زیادہ سے زیادہ کیا کر لے گا، اِس تخلیق میں سر بھی تو بہت مارنا پڑتا ہے، ذہن کو ہر وقت جگا کر رکھنا پڑتا ہے، پھر کہیں جا کر کوئی بات سوجھتی ہے، چلیے تخلیقی کام کو بھی چھوڑئیے، دن میں کوئی ایک ڈھنگ کا کام تو کر لینا چاہیے، بچوں کے ساتھ وقت گزارنا، فلم دیکھنا، دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا،یہ بھی تو زندگی کے رنگ ہیں، آخر کتنے لوگ ایسے زندگی گزارتے ہیں، کیا اِن باتوں کی کوئی اہمیت نہیں، کیا یہ ضروری ہے کہ بندہ کوئی فلاحی کام کرے، کوئی کتاب لکھے یا پھر کوئی ایجاد ہی کرے تو اُس کی زندگی میں معنویت پیدا ہوگی، اور پھر یہ زندگی کی معنویت کیا چیز ہے، مجھے نہیں چاہیے معنویت، بے معنی زندگی میں کیا برائی ہے، جو لوگ معنویت پیدا کرنے کے چکر میں اپنی زندگی کو مشکل بنا لیتے ہیں اُن کے مقابلے میں ہم بے معنی لوگ کیا زیادہ سکھی نہیں، اِس سوال کے جواب میں مجھے فلسفہ نہیں سننا، سادہ زندگی چاہیے جس میں الجھنیں اور پیچیدگیاں نہ ہوں، مگر یہ ممکن نہیں، کل بہت سے کام کرنے ہیں، وہی معمول کے کام، دفتر جانا ہے، بینک میں فون کرنا ہے، ویزے کی درخواست جمع کروانی ہے، بجلی کا بِل بھرنا ہے، شام کو بال کٹوانے ہیں، رات کو چند ضروری ای میلز کرنی ہیں، یہ سب کام ضروری ہیں، اور جب رات کو میں یہ تمام کام نمٹا کر بستر پر لیٹوں گا تو پھر یہی سوچوں گا کہ آج سارا دن میں نے کیا تیر مارا، کون سا ایسا کام کیا جس کے بارے میں کہہ سکوں کہ یہ کوئی ڈھنگ کا کام تھا، میں پھر اپنے دل کو تسلی دوں گا کہ ہر دن غیر معمولی نہیں ہوتا، زندگی کے معمولات بھی اہم ہوتے ہیں، یہ کام اگر نہ ہوں گے تو زندگی نہیں گزرے گی لہٰذا فلسفیانہ باتو ں میں مت الجھو اور چپ چاپ سو جاؤ، اور پھر روزانہ کی طرح میں سوجاؤں گا، اگلے روز بیدار ہونے کے لیے !

میں کسی اور کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ اپنے بارے میں ضرور بتا سکتا ہوں کہ یہ سوالات مجھے پریشان کرتے تھے، میں لاکھ سر جھٹک کر اِن سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا پر یہ دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں سامنے آجاتے تھے۔ لیکن گزشتہ دنوں ایک عجیب بات ہوئی، مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا اور جواب بھی ایک نظم کی شکل میں۔ پہلے آپ یہ نظم پڑھیں، شاعر کا نام میں بعد میں بتاؤں گا :عنوان ہے، ولی کے لیے ایک نظم۔’’صبح اٹھ کے، صابن سے مل مل کے اچھی طرح سے نہانا، سلیقے سے روٹی کا چھوٹا نوالہ بنانا،چبانے کی آواز منہ میں دبانا،چھری اور کانٹے سے کھانا،تو ترتیب بھی یاد رکھنا،کڑکتے ہوئے کالروں کے بٹن بند کرنا،قرینے سے سینے پہ ٹائی سجانا،چمک دار جوتوں کے تسموں میں گرہ لگانا، گھڑی دیکھنا،اور لمحوں سے منٹوں کو، منٹوں سے گھنٹوں کو،گھنٹوں سے پہروں کو، قابو میں لانا،ضروری ہے یہ سب،مگر اس قدر بھی ضروری نہیں ہے، جو بے حد ضروری ہے، ہرگز نہ وہ بھول جانا، کشادہ دلی کو جبلّت بنانا،بہت عشق کرنا،غمِ دو جہاں کو سمیٹے ہوئے،علم سے لو لگانا،ہُنر سیکھنا، فن کو ہستی کا حصہ بنانا،، کبھی شہر یاروں کو سجدہ نہ کرنا،نہ تم کوتوالوں سے ڈرنا،وہ جو بھی کہیں سب ہنسی میں اڑانا،، اور اپنی لیاقت،شکستہ دلوں کی حمایت میں ہی آزماما،بڑھاپے میں جب کڑوی کافی کی تلچھٹ سے میری مہک تم کو آئے، فقط مسکرانا،کوئی میرکا شعر پڑھنا، سبھوں کو سنانا‘‘۔

یہ نظم حارث خلیق کی ہے، وہی حارث خلیق جو انگریزی میں کالم لکھتے ہیں، اردو، انگریزی اور پنجابی میں شاعری کرتے ہیں اور زندگی کی ترتیب سیدھی رکھتے ہیں یعنی انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سیکرٹری ہیں۔ حکومت پاکستان انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نواز چکی ہے۔ حارث خلیق کی یہ نظم اُن کی تازہ کتاب ’حیراں سرِ بازار میں ‘ میں شامل ہے، میں نے یہ کتاب دیکھی تو خود بھی حیران ہوگیا کیونکہ اِس کا پیش لفظ عالی مرتبت وجاہت مسعود کا لکھا ہوا ہے اور حیران کُن حد تک سلیس زبان میں ہے، ثبوت کے طور پر یہ سطریں ملاحظہ ہوں:’’حیرانی بذات خود ایک دوراہا ہے۔ دو قصے عرض کرتا ہوں۔ایک واقعاتی ہے اور دوسرا وہ جسے نصابی نقادوں کی سلیس زبان میں ’حارث خلیق کی تخلیقی جدلیات میں پیش از جدیدیت، رجحانات کی ماورا النّہر کارفرمائی ‘کہتے ہیں۔ اگر ہم 1812 کے فورٹ ولیم کالج کی منشی سپاہ میں زندہ ہوتے تو کسی بگڑے دل صاحب بہادر نے ایسے زود فہم نقادوں کو توپ دم کردیا ہوتا۔‘‘بلاشبہ ایک دودھ پیتا بچہ بھی یہ نثر با آسانی اپنے اندر جذب کرسکتا ہے۔

اکثر کرم فرما مجھے اپنی کتابیں ارسال کرتے رہتے ہیں، میں اُن کا شکر گزار ہوں، مگر کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو میں خود خرید کر پڑھتا ہوں یا لکھاری سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے بھیج دے، ’حیراں سر بازار‘ بھی ایسی ہی کتاب ہے جسے میں نےشاعر سے فرمائش کرکے منگوایا تھا اور اِس کی وجہ مرشد و مربّی عارف وقار کا وہ جملہ ہے جو انہوں نے حارث خلیق کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’حارث خلیق کا کوئی ہم عصر نہیں جس کے موضوعات اتنے متنوع ہوں۔ پھر لغت شعر کی وسعت ایسی کہ خالص روایت سے لے کر جدید طرز اظہار تک سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے۔‘‘ مجھے شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں اور جدید شعرا سے تو میں بالکل بھی واقف نہیں، مگر حارث خلیق کی کتاب نے مجھے جتنا متاثر کیا ہے اس کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا لیں کہ میں اِس کتاب میں سے نظمیں چُن چُن کر اپنے گھر والوں اور دوستوں کو سنا رہا ہوں۔ ایک نظم ’پنجاب 1947‘ تو ایسی ہے کہ پڑھ کر آنکھیں پُر نم ہوگئیں۔ یوم آزادی پر لکھے جانے والے کالم کے لیے سنبھال کر رکھ لی ہے، اُس دن سناؤں گا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے