ضلع ملاکنڈ : محمد شاہد 31 سالہ زمیندار جس آٹھ سال پہلے آڑو کا باغ لگایا تھا۔جس میں تقریباً تین ہزار سات سو کے قریب آڑو کے پودے ہیں۔ان پودوں میں فلوریڈا کنگ،ارلی گرینڈ ،گولڈن جوبلی جو مئی کے آخر تک پک جاتے ہیں۔جس کیلئے یہ ذیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ذیادہ سپرے کی۔
شاہد کہتا ہے کہ پچھلے سالوں میں آڑو تیار ہونے تک صرف تین بار پانی دیتا تھا. اب کی بار 11 دفعہ پانی دے چکے ہوں لیکن آڑو کے درخت نے پھل بڑا نہیں گیا۔اس کی وجہ یہ شدید گرمی ہوسکتی ہے۔
یاسر نے بھی پچھلے سات سالوں سے آڑو کا باغ لگایا ہے، جس میں ارلی گرینڈ کے 300 تک درخت ہیں۔ساسر کے مطابق پچھلے سات سالوں سے باغ کو پانی نالے سے دے رہا تھا۔لیکن اسی سال وہ نالہ بھی سوکھ گیا۔
جس کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب پانی کا مسئلہ کچھ دن یا مہینوں میں ختم ہونے والا نہیں۔اس لئے میں نے کوا بنایا جس کو مشین لگا کر میں نے باغ کو پانی کی کمی سے بچایا۔لیکن پھر بھی ارلی گرینڈ اڑو نے شدید نقصان دیا۔
اڑو کو منڈی تک پہنچانے کے بجائے میں نے گلی کوچوں میں سوزوکی میں آڑو فروخت کرنے والوں کو دیا۔جس سے برائے نام پیسے ملے ۔سپرے اور پانی کے خرچے کو آدھا بھی پورا نہیں کیا۔اب میں نے فیصلہ کیا کہ آڑو کے بجائے آلو بخارا لگاؤں گا۔
اپریل میں آڑو کے درختوں پر پھول کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھول اگر اچھے کھلیں تو پھل شاندار ہوتا ہے۔ اگر پھولوں کو مناسب وقت نہ ملے تو پھل اتنا اچھا نہیں ہوتا .
[pullquote]آڑو کے باغات میں کام کرنے والے کیا کہتے ہیں؟[/pullquote]
محمد نعیم 28 سالہ جو پچھلے گیارہ سالوں سے آڑو ،خوبانی اور آلوبخارا کے باغات میں کام کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ گیارا سالوں میں اتنے چھوٹے چھوٹے پکھے آڑو نہیں دیکھے۔اسی سال جتنے زمینداروں کے ساتھ کام کیا سب نے آڑو میں نقصان کیا۔ابھی کچھ دن پہلے ایک زمیندار نے 300 پیٹیا اسلام آباد منڈی بھیج دی۔پھر پتہ چلا کہ اس نے ایک پیٹی پر 130 روپے خرچہ کیا اور اس کی پھیتیا 120 روپے میں فروخت ہوئی۔یعنی ایک پیٹی پر الٹا دس دیا۔اب آڑو بھی گیا اور ساتھ میں روپے بھی۔
عثمان 33 سالہ جو کئی سالوں سے تیار باغات لیتا ہے اور خود پیکنگ کرکے فروخت کرتا ہے.عثمان کہتا ہے کہ اس سال چال لاکھ روپے پر صرف ایک سیزن کیلئے باغ لیا۔لیکن مارچ سے بارشوں کا نہ ہونا اور گرم موسم کی وجہ سے آڑو نہ بڑا ہوا اور نہ میٹھا رہا۔اسی وجہ سے آڑو کو سوزوکی گاڑیوں پر فروخت کیا۔ فی گاڑی ہزار روپے کی۔آئندہ کیلئے آڑو کے بجائے آلو بخارا کی باغات لوں گا۔
محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر سوات کے مطابق صرف سوات میں 15 ہزار آٹھ سو ایکڑ زمین پر آڑو کے باغات موجود تھے جو سالانہ تین کروڑ 83 لوگ کلو سے زائد آڑو پیدا کرتا ہے.
[pullquote]یہ شدید گرمی کیا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہے؟[/pullquote]
پشاور یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسنز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق بارشوں کی کمی کی وجہ سے اپریل، مئی کے مہینے میں اس طرح گرمی نہیں پڑی جو اس سال ہے۔
اس کی وجہ جنوری سے لے کر اپریل اور پھر مئی میں غیر متوقع کم بارشیں ہیں۔اپریل، مئی اور جون میں جو گرمی ہے وہ عام حالات میں پڑنے والی گرمی سے کچھ زیادہ ہے۔ ان پہلوؤں کے پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہی موسمیاتی تبدیلی ہے۔
ڈاکٹر نفیس کے مطابق سال 2014,2015 اور سال 2016 گرم سال تھیں ۔سال 2021 اور سال 2022 تو انتہائی گرم سال رہا۔ماہرین کے مطابق سال 2022 اس صدی میں گرم ترین سال رہا۔رواں برس یہ پانچواں اور لمبا ترین ہیٹ ویو تھا۔جس کو ماہرین موسمیاتی تبدیلی سے لنک کرتے ہیں۔
ادارہ شماریات کے مطابق سال 2017-18 کو پاکستان میں 37 ہزار ایکڑ زمین پر آڑو کی کاشت ہوئی۔جس سے زمیندار نے 70 ہزار ٹن آڑو کی پیداوار حاصل کی ۔جس میں سے 50 فیصد پیداوار خیبرپختونخوا میں ہوئی۔
[pullquote]زرعی ماہرین کیا کہتے ہیں؟[/pullquote]
محمد شاہد اس وقت توسیع زراعت ملاکنڈ میں بحثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کررہے ہیں۔وہ کہتے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس سال مارچ سے بارشیں نہیں ہوئی۔اسی وجہ سے پھل دار درختوں نے پھل نہیں دیا۔
بارشوں کے پانی اور ایریگیشن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ایرگیشن کے زریعے صرف پودوں کو پانی دی جاتی ہے جبکہ بارش میں یہ ہوتا کہ ہوا میں 78 فیصد نائٹروجن ہوتا اور جب بارش ہوتی ہے تو اس پانی میں نائٹروجن سمیت اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے جو پودے کیلئے فائدے مند ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر زراعت کا کہنا ہے کہ اگر مارچ یا اپریل کے مہینے میں صرف ایک دفعہ بھی بارش ہوتی تو حالات 70٫80 فیصد مختلف ہوتے۔بارش کے پانی میں جو نائٹروجن ہوتا ہے وہ پودے صرف 15 سیکنڈ میں جذب کر لیتے ییں۔لیکن برشیں نہ ہونے کے سبب پودوں کو نائٹروجن نہیں ملا۔
اس کا متبادل یوریا جو بازار میں دستیاب ہے ، اس میں 46 فیصد نائٹروجن ہوتا ہے جس کی قیمت 11 ہزار سے زیادہ ہے۔اب کسان انتا امیر ہوتا نہیں کہ 11 ہزار فی بوری خرید سکیں.
[pullquote]کیا اب ملاکنڈ کا آڑو اب پہلے جیسا نہیں ہوگا؟[/pullquote]
ڈائریکٹر زراعت کا کہنا ہے کہ پہلی بات یہ کہ مئی کے شروع میں تیار ہونے والے آڑو اب زمینداروں نے پنجاب میں کاشت کئے ، جس کے بعد شہروں میں پنجاب والا آڑو پہنچتا ہے اور ملاکنڈ کا آڑو ادھر ہی رہ گیا جس سے قیمتیں کم ہوگئی۔
دوسری بات یہ ہوئی کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اپریل کافی گرم ہوگیا اور مارچ سے بارشیں بھی کم ہوئیں۔اب آڑو میں نہ ذائقہ رہا اور نہ آڑو کا پھل بڑا ہوا۔جس کو مارکیٹ میں کوئی خریدنے کو تیار ہی نہیں۔
اب ملاکنڈ کے لوگ ارلی گرینڈ،گوڈن جوبلی اور فلوریڈا کینگ جیسے آڑو کے درختوں میں پانچ نمبر آڑو کی قلم کاری کریں۔کیونکہ اب وقت ہے کہ زمینداروں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کریں۔اور موسم کی شدت کو محسوس کریں اور وقت پر قلم کاری کریں۔تاکہ مستقبل میں نقصان سے محفوظ رہیں ۔