علم، شعور اور آگاہی کا حصول، اب صرف کتاب سے ممکن نہیں

وہ ہفتے کی ایک خوش گوار صبح تھی. دسمبر کی نرم دھوپ ہمارے وجود کو تازگی بخش رہی تھی، ہم واہ کینٹ میں ،پی او ایف گیسٹ ہاؤس ، کی جانب جا رہے تھے. وہاں کچھ کتاب دوستوں نے، کتاب میلہ سجا رکھا تھا.
کتاب دوستوں کو یہ خدشہ ہے کہ
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے، کتابوں سے عشق کی

کاغذ کی یہ مہک اور نشہ ،برقرار رہے اور اگلی صدی میں بھی کتابوں کے عاشق موجود ہوں ،اسی سوچ ،نظریے اور مقصد کے ساتھ ، کتاب دوست کہیں نا کہیں ، وقتاً فوقتاً کتاب میلہ لگائی رکھتے ہیں ، اور کتابوں کے شائقین ،چل میلے نوں چلیے کی صدائیں لگاتے ، پہنچ جاتے ہیں.

ان کتاب میلوں میں لوگوں کو خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کو کتب کے مطالعے کی جانب راغب کیا جاتا ہے.

عموماً کاغذ کی مہک اور نشے کے روٹھنے اور اس صدی کے ،کتابوں سے عشق کی آخری صدی، ٹھہرنے کا ذمہ دار، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو قرار دیا جاتا ہے.

معاف کیجیے گا! مجھے ایسا نہیں لگتا۔ اس دنیا میں انسانیت کے مقام پر قائم رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے لیے ، انسان کی بنیادی ضرورت ،علم ،شعور اور آگاہی کا حصول ہے ،جس کے ذریعے وہ اپنے گزرے ہوئے کل اور حال، کا حال معلوم کر سکے اور گزرے کل اور آج کے آئینے میں اپنے آنے والے کل کو دیکھ سکے. متوقع چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کر سکے. انسانی تاریخ میں علم ،شعور اور آگاہی کے حصول اور پھیلاؤ کا جو سفر حجر اور شجر کے ٹکڑوں پر اور تصاویر بنانے اور لکھنے سے شروع ہوا ، درختوں کی چھاؤں اور کارواں سرائے میں داستان گوئی اور قصہ گوئی سے شروع ہوا ، ایتھنز اور روم کے تھیٹرز میں، ایکٹ کر کے شروع ہوا ، وہ کاغذ اور کتابوں تک پہنچا اور وہاں پر رُکا نہیں بلکہ ، ٹیکنالوجی تک آیا اور آج اے آئی یعنی آرٹیفشل انٹیلیجنس تک پہنچ چکا ہے. آج اس سفر میں تبدیلی ،ارتقا اور بہتری کی رفتار کو دیکھا جائے تو وہ دنوں میں نہیں بلکہ لمحوں میں وقوع پذیر ہو رہی ہے. ایسے میں اگر کوئی علم، شعور اور آگاہی کے حصول کیلئے محض کتابوں تک محدود رہے گا تو وہ بھی اُتنا ہی نقصان اٹھائے گا، جتنا کہ کتاب کا مطالعہ نہ کرنے والا.

اس صورتحال میں اگر کتاب دوست، کتاب میلوں میں، جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے زیر اثر اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے والے بچوں اور نوجوانوں کو محض کتاب بینی کی جانب راغب کرتے رہیں گے اور جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو کوستے رہیں گے تو کارآمد نتائج برآمد نہیں ہو سکتے.

میری رائے کے مطابق، ان کتاب میلوں کا مقصد اور پیغام، محض کتابوں کی جانب رغبت، نہیں ہونا چاہیے بلکہ بچوں اور نوجوانوں کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ جس جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو وہ محض تفریحی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں، اُسے اپنی ذہنی نشوونما کیلئے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ سوشل میڈیا پر والدین اور اساتذہ کی راہنمائی میں کس طرح کے مواد سے فائدہ اٹھا کر اپنی intellectual growth کو ممکن بنایا جا سکتا ہے.

ہمیں بچوں اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت اور ثمر بار، استعمال کے متعلق بھی آگاہ کرنا ہوگا.

آج، بچوں اور نوجوانوں کی دلچسپی کے شعبے میں دنیا بھر کے بڑے دماغ کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ یہ 2023 میں، حتیٰ کہ 2024 میں اُس شعبے کے متعلق شائع ہونے والی کتاب نہیں بتا سکتی بلکہ سوشل میڈیا بتا سکتا ہے. کیونکہ ارتقاء اور بہتری کا سفر اب لمحوں میں ہو رہا ہے.

کتاب، علم، شعور اور آگاہی کے حصول کے طویل سفر میں ایک خوشبودار اور نشہ آور، پڑاؤ تھا، منزل نہیں. لہٰذا آج کارآمد نتائج کے لیے کتابوں کے ساتھ ساتھ، وقت کے تقاضوں کو کوسنے کے بجائے، اُن کو مدنظر رکھنا ہو گا، سمجھنا ہو گا، جاننا ہو گا. ورنہ ہم پیچھے رہ جائیں گے، آج صرف، کتابیں پڑھنے والے دنیا کو لیڈ نہیں کر سکتے، وہ تو زمانے کے، برابر نہیں، لیڈ کیسے کریں گے؟ وہ تو پیچھے ہیں، جبکہ لیڈ کرنے کے لیے، پہلے برابر آنا پڑتا ہے.

جب تک ان کتاب میلوں میں اس پیغام کو بھی بچوں اور نوجوانوں تک نہیں پہنچایا جاتا، کارآمد نتائج برآمد نہیں ہو سکتے.

بہرحال علم، شعور اور آگاہی کے پھیلاؤ کیلئے ہونے والی ہر کاوش، قابل ستائش ہے، یہ کتاب میلے بھی.

یہ ایک پہلو تھا جسے مجھے لگا کہ نظر انداز کیا جاتا ہے، لہٰذا اس پر لکھنا ضروری سمجھا.

بہرطور ہم پی او ایف گیسٹ ہاؤس پہنچے. یہ کتاب میلہ واہ کینٹ میں سٹیشنری کے کاروبار سے وابستہ بھٹی بُک سنٹر اور نیشنل بُک فاؤنڈیشن نے سجا رکھا تھا.

داخل ہوتے ہی، افتخار الدین صدیقی صاحب سے ملاقات ہوئی. صدیقی صاحب کا تعلق ٹیکسلا سے ہے، گندھارا ریسورس سنٹر ٹیکسلا سے وابستہ ہیں اور گندھارا سیاحت کے فروغ کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں. اُن کے ہمراہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے سٹال سمیت دیگر سٹالز کا دورہ کیا. نیشنل بُک فاؤنڈیشن کتابوں کے حوالے سے میرے پسندیدہ اداروں میں سے ایک ہے، جہاں سے معیاری کتب، مناسب قیمت پر قارئین تک پہنچائی جاتی ہیں، جبکہ کتاب میلوں میں بھی باقاعدگی سے سٹالز سجاتے ہیں جہاں قارئین کو پچاس فیصد تک کی رعایت فراہم کی جاتی ہے.

آخر میں راجہ نور محمد نظامی صاحب کے نمائشی سٹال پر پہنچے. راجہ صاحب کا تعلق بھی ٹیکسلا سے ہے. راجہ صاحب نے ٹیکسلا میں تاریخ اور ادب کا ایک ایسا طلسم کدہ سجا رکھا ہے، جہاں وقت کا مستقل بہتا ہوا دریا، رُکا ہوا ہے. بہت جلد راجہ صاحب کے اس طلسم کدے کا دورہ کرنے کا ارادہ ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے